کراچی: اعلیٰ تعلیمی کمیشن آف پاکستان کے تحت بھوربن میں منعقدہ تین روزہ وائس چانسلرز کانفرنس نے ایچ ای سی کی جانب سے جاری کردہ نئی پی ایچ ڈی اور انڈر گریجویٹ پالیسی 2020 کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اکثریت رائے سے مسترد کر دیا گیا ہے اور اس کے فوری اطلاق کے بجائے بعض نکات کو پالیسی سے نکالنے کی سفارش کر دی ہے۔
ایچ ای سی کی ایگزیکیٹو ڈائریکٹر شائستہ اکرام نے پالیسی کو تنقید کا نشانہ بنائے جانے کے بعد اسے دوبارہ کمیشن کے اجلاس میں پیش کرنے کی یقین دہانی کرا دی ہے جس کے بعد امکان پیدا ہو گیا ہے کہ جامعہ کراچی اور سندھ کی دیگر جامعات آئندہ تعلیمی سیشن 2022 میں انڈر گریجویٹ پروگرام کا اطلاق نہ کریں اور داخلے پرانے و روایتی طریقہ کار کے مطابق دیے جائیں کیونکہ ایچ ای سی پہلے ہی اس پالیسی کو جولائی 2022 تک نافذ نہ کرنے پر آمادہ ہے۔
ادھر بھوربن میں منعقدہ وائس چانسلرز کے اجلاس میں شریک بینظیر شہید یونیورسٹی لیاری کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر اختر بلوچ نے بتایا کہ 180 میں سے 178 نجی اور سرکاری جامعات کے وائس چانسلرز نے نئی انڈر گریجویٹ اور پی ایچ ڈی پالیسی سے اختلاف کیا ہے اور اکثر جامعات اس کے فوری اطلاق سے گریزاں ہیں۔
ادھر ایسوسی ایشن آف پرائیویٹ سیکٹر یونیورسٹیز پاکستان نے اپنے اعلامیے میں کہا ہے کہ ہم نے دسمبر 2020 میں اس پالیسی پر اعتراض کیا تھا لیکن ایچ ای سی نے ہماری بات پر توجہ نہیں دی اب بھوربن کے اجلاس میں ایچ ای سی کی دونوں پالیسز کو مسترد کر دیا گیا ہے اور اس سلسلے میں پالیسی کے خلاف متفقہ قرارداد بھی منظور کی گئی ہے۔
علاوہ ازیں اجلاس میں شریک ایک نجی یونیورسٹی کے وائس چانسلر نے کہا کہ اجلاس میں جب ایچ ای سی کی انڈر گریجویٹ پالیسی پر باقاعدہ بحث کا آغاز کیا گیا تو جامعہ کراچی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر خالد عراقی نے اس بحث کے mediator اور ایچ ای سی کے ایک کنسلٹنٹ افتخار گیلانی پر اعتراض اٹھایا کہ پالیسی بنانے والے خود بحث میں فریق تو ہو سکتے ہیں لیکن ثالث کیسے بن سکتے ہیں جس پر وہاں موجود ایگزیکیٹو ڈائریکٹر ایچ ای سی شائستہ سہیل نے جامعہ کراچی کے وائس چانسلر کے اس اعتراض سے اتفاق کرتے ہوئے mediator کی نشست خود سنبھال لی۔ بحث کے دوران چاروں صوبوں کی سرکاری و نجی جامعات کے وائس چانسلر نے انڈر گریجویٹ پالیسی پر اعتراضات کی بوچھاڑ کر دی۔ وائس چانسلرز کا کہنا تھا کہ ایک جانب ایچ ای سی جامعات کی academic autonomy کی بات کرتی ہے جبکہ دوسری جانب کورس کی sequencing تک بنا کر دی جا رہی ہے کہ کس سینٹر میں کون سا کورس اور کب پڑھانا ہے۔
وائس چانسلرز نے سوال کیا کہ بتایا جائے کہ پرانی پالیسی میں خرابی کیا تھی۔ ایک وائس چانسلر کا کہنا تھا کہ اسے پالیسی نہ کہا جائے بلکہ فریم ورک کہا جائے کیونکہ پالیسی کہنے سے ہماری اکیڈمک خودمختاری متاثر ہوتی ہے۔
اجلاس میں شریک ایک وائس چانسلر کا کہنا تھا کہ انڈر گریجویٹ پالیسی میں انٹرن شپ کی شرط عائد کی گئی ہے جبکہ ہماری یونیورسٹی میں جو طالبات پڑھنے آتی ہیں وہ اپنی روایات کے مطابق داخلہ فارم پر اپنی تصاویر لگانے کو تیار نہیں ہوتی آپ کہتے ہیں کہ انھیں انٹرن شپ کے لیے مارکیٹ میں بھیج دیں۔
اجلاس میں شریک بعض نجی جامعات کا خیال تھا کہ ان دونوں پالیسیز کے لیے نہ تو اسٹیک ہولڈرز سے رائے لی گئی۔ زمینی حقائق دیکھے گئے اور نہ ہی فیکلٹی کی تربیت کا انتظام کیا گیا۔
ادھر ایچ ای سی کی جانب سے انڈر گریجویٹ پالیسی بنانے والے افسران و کنسلٹنٹ میں سے ایک نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وائس چانسلرز کی جانب سے پالیسی پر اٹھائے گئے اعتراضات کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ مجموعی طور پر انڈر گریجویٹ پالیسی پر 7 جبکہ پی ایچ ڈی پالیسی پر 6 ایسے اعتراضات آئے ہیں جس سے ایچ ای سی نے بھی اتفاق کیا ہے اور پالیسی کو دوبارہ کمیشن میں پیش کرنے کا فیصلہ کیا ہے پھر کمیشن جیسے ایڈوائز کرے گا ہم ویسے ہی کریں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ سب سے زیادہ اعتراضات انٹرن شپ کے حوالے سے آئے ہیں اور ورچوئل انٹرن شپ کی تجویز بھی دی گئی ہے۔