پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ نے بہت سے فیصلے کئے ان میں سے کچھ درست ثابت ہوئے اور کچھ وقتی طور پر تو ٹھیک رہے لیکن بعد ازاں ان کا خمیازہ عوام کو بھگتنا پڑا۔ان سے عوام کا جانی اور مالی نقصان بہت ہوا۔ ایسے وقت جب عوام ان فیصلوں کا نقصان بھگت رہی ہوتی فیصلہ کرنے والا ریٹائرڈ ہو چکا ہوتا۔کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ اسکی وجہ ناقص منصوبہ بندی رہی وائرس تو بنا دیا گیا لیکن انٹی وائرس کا سوچا بھی نہ گیا جسکے باعث صورتحال گمبھیر ہو تی رہی۔ویسے تو اسٹیبلشمنٹ کے بہت سے ایسے فیصلے بھی ہوں گے جن سے فائدہ پہنچا ہو گا لیکن اگر ماضی قریب کی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہو گا کہ بہت سے فیصلوں سے نا قابل تلافی نقصانات بھی بہت ہوئے ہیں، جنرل ضیا الحق کے دور میں ایسے دو فیصلے ہوئے جن کے غلط اثرات آج تک جاری ہیں ایک تو طالبان جنہوں نے بعد ازاں بندوقوں کا رخ ہماری طرف ہی کر کے ناقابل تلافی جانی اور مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔دوسرا ایم کیو ایم جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ اسٹیبلشمنٹ کی پیداوار تھی متحدہ قومی موومنٹ (MQM) کی بنیاد الطاف حسین نے 1984 میں رکھی تھی۔ اے پی ایم ایس او نے 1984 میں مہاجر قومی موومنٹ کو جنم دیا۔ پارٹی نے 1980 کی دہائی کے آخر (1988-1990، 1990-1992، 2002-2007، 2008-2013) سے ایک اہم اتحادی پارٹنر کے طور پر پاکستان کی وفاقی حکومت پر اپنا اثر و رسوخ برقرار رکھا ہے۔پارٹی کی ناپسندیدہ سرگرمیوں میں اضافہ کے بعد کئی مرتبہ اسکے خلاف اپریشن کیا گیا۔اگست 2016 میں الطاف حسین کی 22 اگست کی تقریر کے بعد پارٹی پر کریک ڈاؤن ہوا۔ کراچی میں پارٹی ہیڈکوارٹر نائن زیرو کو سیل کر دیا گیا، فاروق ستار سمیت پارٹی کے رہنماؤں کو گرفتار کر لیا گیا، اور ایم کیو ایم کے بیشتر منتخب پارلیمنٹیرینز کو الطاف حسین سے لاتعلقی پر مجبور کر دیا گیا۔ بہر حال ایم کیو ایم نے بھی کراچی کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا بلکہ تجزیہ نگاروں کے مطابق اگر اس وقت اسٹیبلشمنٹ اس پر ہاتھ نہ رکھتی تو کراچی آج دبئی سے آگے ہوتا۔
اسٹیبلشمنٹ کی تازہ غلطی ٹی ایل پی(تحریک لبیک پاکستان) ہے جو پاکستان میں ایک انتہائی دائیں بازو کی اسلامی انتہا پسند سیاسی جماعت ہے۔ اس پارٹی کی بنیاد خادم حسین رضوی نے اگست 2015 میں رکھی تھی۔ 2018 کے پاکستانی عام انتخابات میں پانچویں بڑی جماعت بن گئی، لیکن قومی اسمبلی اور پنجاب اسمبلی میں کوئی بھی نشست جیتنے میں ناکام رہی۔ تاہم سندھ اسمبلی میں 3 نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔
تحریک لبیک پاکستان کے قانون توہین رسالت میں کسی بھی تبدیلی کی مخالفت میں اپنے احتجاج کے لیے مشہور ہے۔یہ مطالبہ کرتا ہے کہ پاکستان میں ایک بتدریج قانونی اور سیاسی عمل کے ذریعے شریعت کو اسلامی بنیادی قانون کے طور پر قائم کیا جائے۔
تحریک لبیک کا آغاز ایک اسلامی سماجی سیاسی تحریک کے طور پر ہوا۔ابھی تک یہ جماعت چھ دھرنے دے چکی ہے اور ہر دھرنے میں جانی و مالی نقصان ہوا۔لوگ کہتے ہیں کہ2017 میں جب اس جماعت نے پہلی تحریک چلائی تو اسٹیبلشمنٹ نے اس کا بھرپور ساتھ دیا اسٹیبلشمنٹ کے حامی چینل نہ صرف ان دھرنوں کی لائیو کوریج کرتے رہے بلکہ ایک تو انھیں خوراک بھی فراہم کرتا رہا۔ اس وقت صورتحال نہائت گمبھیر ہو چکی وہ اسٹیبلشمنٹ جس نے اس جماعت کی ہر ممکن مدد کی آج یہ اس کے کہنے سننے میں نہیں ہے۔موجودہ حکومت کے بعض وزراء اس کے دھرنوں میں اظہار یکجہتی کے طور پر جاتے رہے کیونکہ اس وقت کسی بھی قیمت پر وہ اس وقت کی حکومت کو گرانا چاہتے تھے۔لیکن وہ کہتے ہیں کہ ہاتھوں سے باندھی منہ سے کھولنا پڑتی ہیں اس وقت تو یہی صورتحال ہے۔
ایک جانب جہاں تحریکِ لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) اسلام آباد میں دھرنا دینے کے لیے لانگ مارچ جاری رکھنے کے عزم کا اعادہ کر رہی ہے وہیں حکومت اس لانگ مارچ کو ’ملک دشمن سازش‘ قرار دیتے ہوئے رینجرز کے نیم فوجی دستے تعینات کرنے جیسے اقدامات لے رہی ہے۔ علماء کرام کی مدد بھی طلب کر لی گئی ہے۔حکومت کے اپنے دعوے کے مطابق، ٹی ایل پی کی اس طرح کے لانگ مارچ یا دھرنوں کی یہ چھٹی کوشش ہے۔ اس سے قبل ہر مرتبہ ٹی ایل پی کے دھرنے کو روکنے یا ختم کروانے کے لیے حکومتِ وقت پسپائی کا مظاہرہ کرتی آئی ہے۔
فریقین کے درمیان باہمی گفت و شنید سے کوئی مفاہمت کا راستہ نکل آئے اس بات کا فی الحال واضح جواب دینا کافی مشکل ہے۔ البتہ تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ اگر رینجرز اور ٹی ایل پی کارکنوں میں تصادم ہوا تو لال مسجد جیسی صورتحال بھی ہو سکتی ہے اور اس تصادم سے بچنے کے لئے ہمارے وزراء کو بھی اپنے آپ کو کنٹرول کرنا ہو گااور کوشش یہی ہونی چاہئے کہ مزید کوئی جانی نقصان کئے بغیر دھرنے کو پر امن طور پر ختم کیا جا سکے ۔اسٹیبلشمنٹ سے بھی یہ درخواست ہے کہ آئندہ منصوبہ بندی میں احتیاط کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑے۔