یہ بات اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ہمیشہ بحث طلب رہے گی کہ مذہب کو سیاست اور ریاست میں مداخلت کا حق ہونا چاہئے یا نہیں۔ دین پسندوں کے پاس بڑے دلائل ہیں کہ پاکستان اسلام کے نام پر بنا، قائداعظم نے کہا کہ پاکستان کا آئین قرآن ہی ہو گا، اس کا نعرہ پاکستان کا مطلب کیا لاالہ الا اللہ تھا تو آپ پاکستان کے معاملات سے دین کو کیسے نکال سکتے ہیں، یہ مسیحیت نہیں جسے آپ چرچ تک محدود کر دیں بلکہ یہ ہر شعبے پر نافذ ضابطہ اخلاق ہے مگر دوسری طرف بابائے قوم کے وہ الفاظ بھی موجود ہیں جو انہوں نے اسلامی نظریاتی ریاست کے حصول کے بعد کہے کہ مذہب کا ریاست کے معاملات سے کوئی تعلق نہیں ہو گا، ہر فرد کو مسجد، مندر، چرچ اور گودوارے میں جانے کی آزادی ہو گی، کسی کے نظریات اور عقائد سے ریاست کا کوئی واسطہ نہیں ہوگا۔ کیا قائداعظم نے ان خطرات کو بھانپ لیا تھا جو مذہب کو سیاست اور ریاست میں دخیل کرنے سے سامنے آ سکتے تھے۔ قائداعظم نے طالب علموں کو بھی سیاست میں حصہ لینے سے منع کیا، ایم ایس ایف کے کارکنوں کو ہدایت کی کہ وہ صرف حصول تعلیم پر توجہ دیں حالانکہ یہی مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن تحریک پاکستان کا ہراول دستہ تھی۔مناسب ترین الفاظ میں، قائداعظم جیسا مدبر، معاملہ فہم لیڈر موومنٹ اور ایڈمنسٹریشن کے درمیان فرق جانتا تھا۔
ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کے خلاف تحریک بھی اسلام کے نام پر ہی چلی تھی حالانکہ وہ اسلامی سربراہی کانفرنس کا انعقاد کروا چکے تھے، جمعے کی چھٹی کا اعلان کر چکے تھے جسے نواز شریف نے ختم کیا، قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دے چکے تھے مگر کیا اس کے تحریک کے بعد اسلام نافذ ہوا۔ یہ درست ہے کہ ضیاء الحق نے تیزی سے بڑھتی ہوئی ماڈرنائزیشن اور ویسٹرنائزیشن کو روکا مگر وہ بنیادی طور پر ان کے اقتدار کی لیپا پوتی تھی۔ انہوں نے اپنے ریفرنڈم میں چوائس دی کہ قوم اسلام کا نفاذ چاہتی ہے تو ان کو ووٹ دے۔ ضیاء الحق مرحوم کے دور نے ہمیں ایک مرتبہ پھر مذہبی انتہا پسندی دی اور پوسٹ ضیاء الحق ایرا میں شیعہ سنی کارڈ کھیلا گیا۔اس دور نے افغانستان کے معاملات میں مداخل ہو کر جہاد کا کلچر دیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ملک کے اندر بھی جہادی تنظیمیں بن گئیں مگر یہ دور بریلوی ایکٹوازم کا دور نہیں تھا، دیوبندی مکتبہ فکر متحرک ہواتھا۔ اس نے افغانستان میں امریکا کی مدد سے روس کو شکست دی تو اس کے حوصلے بلند ہوئے مگر روس کی شکست کے بعد مجاہدین بے روزگار ہو گئے۔
ضیاء الحق کے دور میں ہی دیوبندی مکتبہ فکر کی سپاہ صحابہ اور شیعہ مکتبہ فکر کی سپاہ محمد نے طاقت حاصل کی۔ نوے کی دہائی میں یہ بوتل سے نکلے ہوئے جن بن چکے تھے۔ ہم میں سے بہت سارے نہیں جانتے یا بھول چکے کہ پرویز مشرف کے دور سے پہلے بھی دہشت گردی کی ایک بڑی لہر آ ئی تھی۔ میں ان واقعات کا عینی شاہد ہوں۔ ٹھوکر نیاز بیگ سپاہ محمد کا مرکز تھا اور ایک نوگو ایریا جہاں پولیس اور رینجرز کو بھی جانے کی اجازت نہیں تھی اور دوسری طرف سپا ہ محمد نے جھنگ اور دیگر علاقوں کو اپنا مرکز بنا رکھا تھا۔ نوازشریف اور بے نظیر کے نوے کی دہائی کے ادوار کا سب سے بڑا چیلنج یہی تھا اور حقیقت یہ ہے کہ یہ دونوں تنظیمیں اپنے بنانے والوں کے قبضہ قدرت سے باہر نکل چکی تھیں۔ اسی دور میں، اللہ مغفرت کرے، قاضی حسین احمد، مولانا شاہ احمد نورانی سمیت دیگر قائدین نے بڑی ہمت کی اور سلام عقیدت اہل تشیع ساجد نقوی کے ساتھ ساتھ اہلحدیث ساجد میر بھی ساتھ کھڑے ہوئے، مولانا فضل الرحمان کا کردار بھی شاندار رہا۔ پنجاب کے وزیراعلیٰ میاں منظور وٹو تھے جب ملی یکجہتی کونسل نے اپنا کردارادا کرنا شروع کیا۔ یہی ملی یکجہتی کونسل بعد میں مولانا سمیع الحق کی کوششوں سے دفاع افغانستان کونسل اور آخر میں متحدہ مجلس عمل میں تبدیل ہوئی۔ اس متحدہ مجلس عمل نے پرویز مشرف کے دور میں دینی ووٹ کو اکٹھا کر کے اس وقت کے صوبہ سرحد میں حکومت بھی قائم کی۔ سپاہ محمد اور سپاہ صحابہ کا دور، ٹی ٹی پی جیسا ہی تھا جب ہر طرف قتل و غارت ہو رہی تھی۔ مجھے یاد ہے کہ سپاہ محمد کے ایک رہنما دہشت گردی میں قتل ہو گئے تو ان کا جنازہ گورنمنٹ کالج کے سامنے ناصر باغ میں لانے کافیصلہ ہوا اور وہاں بھی پولیس سے تصادم ہو گیا۔ میں مذہبی جماعتوں کی کوریج کرتا تھا اورمیری موٹرسائیکل اس باہمی فائرنگ کے درمیان ناصر باغ کے میٹروپولیٹن کارپوریشن والے گیٹ کے سامنے پھنس گئی۔ مجھے خدشہ تھا کہ کوئی گولی اس کی پٹرول کی ٹینکی کو نہ جا لگے اور ایک صحافی کابڑا اثاثہ جل کر خاکستر نہ ہوجائے۔ میں نے اپنے تئیں بہادری کی اور چلتی ہوئی گولیوں میں جا کر موٹرسائیکل گھسیٹ کر باہر نکالی۔ میں اب برسوں بعد بھی اپنی اس جرأت نما حماقت کو یاد کرتا ہوں تو برستی گولیوں میں بچ جانے پر اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں۔
شیعہ سنی کارڈ کے بعد بریلوی دیوبندی کارڈ مجھے ہمیشہ سے ہی خطرناک لگا ہے۔ لاہور کے ایک معتبر عالم دین اس وقت میرے پاس تشریف لائے جب داتا دربار پر خوفناک خود کش حملہ ہوا تھا اور انہوں نے کہا کہ ان کی بس ہو چکی، وہ اپنے مسلک کے سامنے جوابدہ ہیں۔ وہ بھی انہیں اسی طرح جواب دینا چاہتے ہیں جنہیں وہ اس واقعے کے پیچھے سمجھتے ہیں۔ میں نے عرض کیا، جناب عالی، آپ سوچیں کہ اگر یہ لڑائی ہماری گلی محلوں میں شروع ہو گئی تو کیا ہو گا مگر اس وقت تک واقعی بریلوی کارڈ ایکٹو نہیں تھا اور پھر اسے سیاسی مقاصد کے لئے ایکٹو کر دیا گیا۔ بریلوی عام طور پر دم درود کرنے والے اور حلوے مانڈے کھانے والے معصوم لوگ ہیں جو پیروں کی اتباع کرتے ہیں مگر یہ محض افسانہ نہیں کہ نواز شریف دور میں جب عمران خان کا دھرنا سیاسی مقاصد حاصل کرنے میں ناکام ہو گیا تو بریلوی کارڈ نے نواز لیگ کی قومی اسمبلی کی تین سے چار درجن نشستیں چھین کر پی ٹی آئی کے حوالے کر دیں۔ اس وقت جناب شاہ محمود قریشی اب کالعدم قرار دی گئی تنظیم کے دھرنوں میں بیٹھا کرتے تھے، جناب شیخ رشید جلادو، گرادو کے نعرے لگاتے ہوئے اپنے مجاہد ختم نبوت کے پوسٹرز چھپوایا کرتے تھے حتیٰ کہ ایسے ہی پوسٹرز میں نے یاسمین راشد کے دیکھے جنہوں نے کلثوم نواز کو شکست دینے کے لیے بریلوی کارڈ کھیلا۔ نواز شریف پر جوتا اچھالا گیا اور احسن اقبال پر قاتلانہ حملہ تک ہوا اور اس شرپسندی کے پیچھے محض سیاسی مقاصد تھے۔
ہماری سیاسی اور مذہبی تاریخ کی یہ بات یاد رکھنے والی ہے کہ ایسی تخلیق کی گئی قوتیں کسی کی وفادار نہیں ر ہیں۔ یہ حقائق ہیں کہ تحریک طالبان جنہوں نے تخلیق کی اسی نے ان پر سب سے زیادہ حملے کئے اور مقامی شہادتیں دیں۔ آگ کے کھیل میں وقتی طور پر روشنی اور لطف ملتا ہے مگر یہ آگ ہمیشہ دامن کو پڑجاتی ہے، لباس اور بدن تک جلا دیتی ہے۔ اس وقت بے اصولی اور بے ضمیری کا عالم یہ ہے کہ جن لوگوں نے نواز شریف کے دور میں بریلوی کارڈ کی سرپرستی اور حمایت کی وہ سب اس کی مخالفت اور سرکوبی کر رہے ہیں اور جو نواز شریف دور میں مخالف تھے اب ان کی مظلومیت کا پرچار کر رہے ہیں۔ میں ذاتی طور پر ریاست کے اندر کسی مسلح جدوجہد کی حمایت نہیں کرسکتا چاہے وہ نواز شریف میں ہو رہی ہو یا عمران خان کے دور میں مگر ہم کوتاہ نظر اپنے اپنے مفادات اور تعصبات کے دائروں میں قید ہیں۔