گزشتہ بیس برسوں سے جنوبی پنجاب یا سرائیکی صوبہ کا نعرہ مسلسل سننے کو ملتا رہا ہے لیکن اس کو عملی شکل دینے کی کوشش کبھی نہ کی گئی۔ بلکہ مسلم لیگ ن کے پنجاب میں حکمرانی کے دوران تخت لہور کی اصطلاح ایجاد کی گئی جس کے تحت جنوبی پنجاب کے تمام ترقیاتی فنڈز بھی مسلم لیگ ن کے گڑھ سمجھے جانے والے شمالی اور سنٹرل پنجاب میں لگانے کا الزام بھی لگایا گیا جو کسی حد تک درست تھا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ملک کی تمام سیاسی جماعتیں اس صوبے کے قیام کی حمایتی ہیں لیکن یہ صوبہ سیاسی شوشے سے آگے نہ بڑھ سکا۔ اس حوالے سے آئینی ترمیم کے حوالے سے کبھی بھی سنجیدہ کوششیں نہیں کی گئیں۔ یہ کہنا بے جا نہ ہو گا پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں نے عام انتخابات کے موقع پر محض اس صوبے کے اعلان کی بات کر کے جنوبی پنجاب کے عوام کو ہمیشہ ٹشو پیپر کی طرح استعمال کیا۔ اس میں اس خطے سے تعلق رکھنے والے منتخب نمائندوں کی بد نیتی بھی شامل ہے کیونکہ انہوں نے ہمیشہ اپنے مفاد کے لیے پارٹیاں بدلیں لیکن منتخب ایوانوں میں پہنچ کر وہ اس نئے صوبے کے قیام کے حوالے سے کبھی بھی سنجیدہ نہیں ہوئے۔ موجودہ حکومت کے قیام سے قبل بھی عام انتخابات میں نئے صوبے کے قیام کے حوالے سے ایک جنوبی صوبہ محاذ تشکیل دیا گیا لیکن اس کے اراکین نے بھی منتخب ہو کر ماضی کی طرح وزارتیں تو لے لیں لیکن نئے صوبے کے قیام کے لیے سنجیدہ تو چھوڑ غیر سنجیدہ کوششیں بھی نہ کی گئیں۔
اس دوران پیپلز پارٹی کے دور میں ایک آئینی ترمیم کے ذریعے صوبہ سرحد کو خیبر پختونخواہ کا نام مل گیا اور پی ٹی آئی کے دور میں قبائلی علاقے اس میں ضم کر دیے گئے۔ پیپلز پارٹی کے دور میں ہی گلگت بلتتسان کو علیحدہ شناخت دی گئی۔ لیکن جنوبی پنجاب کے علیحدہ صوبے کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا۔ مفاہمت کی سیاست کے بادشاہ سمجھے جانے والے آصف علی زرداری بھی اس سلسلے میں کچھ نہ کر سکے۔ اس صوبے کے قیام کے لیے سنجیدہ کوششیں اس لیے نہیں کی گئیں کیونکہ اس کے بعد پارلیمنٹ اور پنجاب اسمبلی میں طاقت کاتوازن بگڑ جاے گا۔ اس صوبے کے قیام سے قومی اسمبلی اور سینیٹ میں اس صوبے کی علیحدہ شناخت ہو جاے گی جس سے ملک کے سیاسی سیٹ اپ میں اس صوبے کے منتخب نمائندوں کا براہ راست حصہ ہو گا اور وہ وفاق کی باقی اکایوں کی طرح اپنا حصہ بقدر جثہ مانگ سکتے ہیں جبکہ فی الوقت وہ اس حوالے سے پنجاب کے مرہون منت اور شاکی بھی ہیں۔ جبکہ پنجاب اسمبلی کی نشستیں کم ہو کر شمالی اور سنٹرل پنجاب تک محدود ہو جایں گی جس کا فائدہ مسلم لیگ ن کو جا سکتا ہے کیونکہ بظاہر اس خطے میں اس کی پوزیشن مضبوط ہے۔
گو کہ گلگت بلتستان کی طرح جنوبی پنجاب صوبے کے قیام کے لیے کوئی بین الااقوامی قدغنیں بھی نہیں ہیں پھر بھی اس صوبے کا قیام کھٹائی میں پڑا ہے۔ اس حوالے سے ایک تنازعہ بہاولپور کا بھی ہے کیونکہ وہاں کے سیاستدان قائداعظم رَحمَۃْ اَللہ کے ایک وعدے کا ذکر بھی کرتے ہیں جس کے مطابق نواب آف بہاولپور کی طرف سے ریاست
بہاولپورکے پاکستان میں انضمام کے ساتھ ہی صوبہ بہاولپور کا بھی وعدہ کیا گیا تھا۔ اگر سیاستدان سنجیدہ ہوتے تو اس مسئلے کا حل بھی نکل سکتا تھا لیکن بہاولپور اور جنوبی پنجاب یا سرائیکی صوبہ کے حوالے تنازع نے اس کام میں رکاوٹ ڈال دی۔ اگر آصف زرداری صوبہ سرحد کے نام کے حوالے سے پختونخواہ سے خیبر پختونخوا نام رکھنے پر سب کو آمادہ کر سکتے تھے تو جنوبی پنجاب کا مسئلہ بھی اس تناظر میں حل ہو سکتا ہے اور صوبے کا نام بہاولپور اور صدرمقام ملتان بھی ہو سکتا ہے۔ اس کے علاوہ بھی دوسری تجاویز پر لچک دکھائی جا سکتی ہے لیکن اس کے لیے منفی سیاست کی بجائے سنجیدگی کے علاوہ نیت بھی چاہیے جس کافقدان ہے۔
دوسری طرف کچھ بین الاقوامی قدغنوں کی وجہ سے وفاقی حکومت نے گلگت بلتستان کو عبوری صوبہ بنانے سے متعلق آئین میں چھبیسویں آئینی ترمیم کے لئے باضابطہ بل تیار کرلیا ہے۔ عبوری صوبہ اس لیے کہ بھارت سے کشمیر کے تنازعہ کے سبب اسے مکمل صوبہ نہیں بنایا جا سکتا۔ مجوزہ آئینی ترامیم کے چیدہ چیدہ نکات کچھ اس طرح سے ہیں۔ گلگت بلتستان کو عبوری صوبہ بنانے سے متعلق مجوزہ ترمیمی بل کا عنوان26ویں آئینی ترمیم بل2021 ہوگا، جس میں آئین پاکستان کے آرٹیکل 51، 59، 106، 175A، 198، 218، 240 اور 242 میں ترامیم کی تجاویز شامل ہیں، اس میں آرٹیکل 258A اور 264A کے نام سے مزید 2 شقوں کا اضافے کی تجویز بھی دی گئی ہے۔
مجوزہ ترمیمی بل میں چیف کورٹ گلگت بلتستان کو ہائی کورٹ گلگت بلتستان کا نام دینے کی تجویز دی ہے، جب کہ سپریم ایپلیٹ کورٹ گلگت بلتستان کو ختم کیا جائے گا۔ ہائی کورٹ گلگت بلتستان کے ججز کی تعداد 5 ہی رہے گی اس میں مزید اضافہ نہیں کیا جائے گا۔ گلگت بلتستان الیکشن کمیشن کو ختم کیا جائے گا تاہم اس کے ایک رکن کو الیکشن کمیشن آف پاکستان کا ممبر بنایا جائے گا۔ موجودہ چیف الیکشن کمشنر گلگت بلتستان کو ان کی مدت ختم ہونے تک الیکشن کمیشن آف پاکستان کا رکن برقرار رکھا جائے گا۔
آئین میں مجوزہ 26 ویں ترمیم میں گلگت بلتستان اسمبلی میں نشستوں کی تعداد 33 ہی برقرار رکھنے کی تجویز دی ہے، جس میں سے 24 جنرل، 6 خواتین جبکہ 3 ٹیکنوکریٹس کی نشستیں ہوں گی۔ گلگت بلتستان کو قومی اسمبلی میں 4 نشستیں دینے کی تجویز دی ہے جس میں سے 3 جنرل نشستیں جب کہ خواتین کے لئے 1 نشست رکھنے کی تجویز دی ہے۔ گلگت بلتستان کو سینیٹ میں بھی 4 سیٹیں دینے کی تجویز پیش کی تھی جس میں 2 جنرل سیٹیں، ایک خواتین کی اور ایک ٹیکنوکریٹ کی نشست شامل ہے۔ سینیٹ میں گلگت بلتستان کی نمائندگی کے حوالے سے وزیراعلی گلگت بلتستان و وفاقی وزیر علی امین گنڈا پور نے عدم اتفاق کرتے ہوئے دیگر صوبوں کے برابر نمائنددگی دینے کی بات کی، جس پر اتفاق نہ ہونے پر یہ تاکید کی گئی کہ سینیٹ میں گلگت بلتستان کو 8 جنرل، 1 خواتین اور 1 ٹیکنوکریٹ کی نشست دی جائے تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ اس پر وزیراعظم سے وزیر اعلی خالد خورشید کی مشاورت کے بعد یہ اتفاق ہوا کہ گلگت بلتستان کو سینیٹ میں 8 سیٹیں دی جائیں۔
مجوزہ ترمیم کے ذریعے آئین میں شق 258 A شامل کی جائے گی، جس میں کہا جائے گا کہ گلگت بلتستان کو عبوری صوبہ بنایا جاتا ہے، اس شق میں واضح کیا جائے گا کہ پاکستان اپنے اصولی موقف پر قائم ہے کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق جموں و کشمیر کے عوام جمہوری طریقہ کار کے ذریعے آزادانہ و شفاف استصواب رائے کے ذریعے اپنا حق خودارادیت حاصل کرے گا۔
مجوزہ آئینی ترمیم میں آرٹیکل 264A کا اضافہ کرتے ہوئے گورنمنٹ آف گلگت بلتستان آرڈر 2018 کو ختم کیا جائے گا، اس شق میں وفاق و گلگت بلتستان میں پوزیشن و ویکینسی شیئرنگ فارمولا کو فورتھ شیڈول گلگت بلتستان آرڈر2018 کو ہی برقرار رکھنے کی تجویز دی ہے۔ اس کے علاوہ جبکہ گلگت بلتستان کی اپنی پبلک سروس کمیشن کے قیام تک فیڈرل پبلک سروس کمیشن کو فعال رکھنے کی بھی تجویز دی ہے۔
اب اگر سیاسی جماعتوں کا اس بل پر اتفاق ہو جاتا ہے تو جنوبی پنجاب کے سیاستدانوں کو بھی چاہیے کہ اس ضمن میں محض نشستند گفتند برخاستندسے آگے کی بات کریں۔ گو کہ جنوبی پنجاب صوبے کا قیام گلگت بلتستان صوبے سے ذرا پیچیدہ ہے اور اس سلسلے میں پنجاب اسمبلی کا بھی کردار ہے لیکن نیت ہو تو تمام رکاوٹیں دور ہو سکتی ہیں۔
قارئین اپنی رائے کے اظہار کے لیے اس نمبر 03004741474 پر وٹس ایپ پرکر سکتے ہیں۔