برسوں سے پاکستان کی سیاست میں ٹھہراؤ ہے کہ آکر نہیں دے رہا۔ کبھی تو یہ ملک بیرونی دباؤ کے تحت بحران کا شکار ہوجاتا ہے، اور کبھی اندرونی خلفشار اس ملک کے استحکام کو ہلانے کے درپے رہتی ہے۔ افغانستان میں سوویت یونین کے قبضے سے لے کر آج تک پاکستان مسلسل دہشت گردی کا شکار ہوتا آرہا ہے۔ اس سے قبل اور بعد بھی بھارت کی پاکستان کے ساتھ سرد جنگ رکنے کا نام نہیں لیتی۔ امریکا اور مغربی ممالک کا شک ہے کہ بڑھتا جاتا ہے۔ یا تو یہ شک ہے یا دباؤ ڈالنے کی ایک حکمتِ عملی۔ پچھلے بیس برسوں میں پاکستان افغانستان کے معاملات میں الجھا رہا یا اسے الجھا کر رکھا گیا۔ اس دوران پاکستان مسلسل دہشت گردی کا شکار بھی رہا اور اب بھی اس کی جان نہیں چھوٹی ہے۔ افغانستان سے سوویت یونین کے جانے کے بعد خود امریکا بھی ایک طرح سے ناکام و نامراد واپس آچکا ہے، مگر اس خطّے کو چھوڑ دینا بھی امریکا کے حق میں نہیں، کیوں کہ وہ نہیں چاہتا کہ اس کے چلے جانے سے چین، روس اور ایران کا عمل دخل اس خطّے میں بڑھ جائے۔ پاکستان ایک واحد ملک ہے، جسے امریکا، افغانستان میں اپنی موجودگی کے لیے استعمال کرسکتا ہے۔ قطر اور تاجکستان بھی اس کے لیے مفید ہیں، مگر طالبان پر جتنا اثر پاکستان کا ہے کسی اور ملک کا نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان نے مذاکرات کے حوالے سے بہت اہم کردار ادا کیا اور پاکستان ہی کی کوششوں سے طالبان اور امریکا مذاکرات کی میز پر آئے۔ امریکا کی خواہش تھی کہ پاکستان کوشش کرے کہ طالبان اشرف غنی کی سابقہ حکومت کے ساتھ بھی مذاکرات کی میز پر بیٹھ جائیں۔ مگرایک تو طالبان اس کے لیے کسی طرح تیار نہیں تھے اور دوسرے اشرف غنی کی حکومت کے پاکستان کی بجائے بھارت سے تعلقات زیادہ قریبی تھے۔ بھارت کسی صورت یہ نہیں چاہتا تھا کہ اسٹریٹیجک پارٹنر شپ (دفاعی شراکت داری) ہے اور چین کی وجہ سے وہ بھارت
کے ساتھ تعلقات کو مزید بہتر کرنا چاہتا ہے۔ پاکستان چوں کہ پے درپے فوجی حکمرانی میں رہا اور معاشی اور سیاسی طور پر اب تک کمزور ہے، اس لیے اسے فوجی اور اقتصادی امداد کی شدید ضرورت رہتی ہے۔ ایسی صورت میں عملی طور پر وہ امریکا جیسے دولت مند اور طاقت ور ملک کے دباؤ میں رہتا نظر آتا ہے۔ بھارت کا یہ پروپیگنڈا امریکا اور مغرب کو ہمیشہ قائل کرلیتا ہے کہ پاکستان میں انتہا پسند مذہبی اکثریت کا زور ہے اور بقول اس کے بھارت کو ان انتہا پسندوں سے خطرات لاحق ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ امریکا اور مغربی ممالک بھی پاکستان کو دہشت گرد تنظیموں کی جنّت سمجھتے ہیں۔ پاکستان اب تک دنیا کو قائل نہیں کرسکا کہ خود پاکستان وہ واحد ملک ہے جو سب سے زیادہ دہشت گردی کا نشانہ بنا ہے۔ نائن الیون کے بعد سے آج تک پاکستان میں دہشت گرد کارروائیوں کے نتیجے میں 70ہزار سے زائد معصوم لوگ مارے جاچکے ہیں، جن میں اسکول کے بچّے بھی شامل ہیں۔
دیکھا جائے تو اس معاملے میں پاکستان بے بس نظر آتا ہے۔ ایک طرف بھارت کا دشمن رویہ دوسری طرف امریکا اور یورپی ممالک کا پاکستان پر اعتماد نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں سرگرم رہنے والی انتہا پسند تنظیمیں لشکرِ طیبہ، سپاہ صحابہ اور جیشِ محمد کو پوری دنیا اچھی نظروں سے نہیں دیکھتی۔ ذوالفقار علی بھٹو کے بعد سے مذہبی گروہوں کا عمل دخل پاکستان میں بڑھتا ہی جارہا ہے۔ ایک زمانہ تھا جب پاکستان میں اسلام پسند جماعتوں کے رہنماؤں میں مولانا شاہ احمد نورانی، ابوالاعلیٰ مودودی، پروفیسر غفور احمد، مولانا غلام غوث ہزاروی اور مولانا مفتی محمود شامل تھے۔ یہ لوگ پڑھے لکھے پاکستانیوں کی نمائندگی کرتے تھے اور ان کی سیاست میں شعور اور شائستگی صاف نظر آتی تھی۔ یہ آمریت کے خلاف بھرپور سیاسی تحریک بھی چلاتے تھے، مگر ان کی سرگرمیوں سے بیرونِ ملک پاکستان کا امیج کبھی خراب نہیں رہتا تھا۔ اب تو یہ حال ہے کہ مذہبی جماعتوں کی اکثریت اسلحوں کی سیاست کرتی ہے۔ طالبان کی ضمنی پیداوار تحریکِ طالبان پاکستان آج بھی پاکستان کے لیے دردِ سر بنی ہوئی ہے۔ طالبان کے افغانستان میں برسراقتدار آجانے کے بعد بھی ٹی ٹی پی پاکستان میں دہشت گردی سے باز نہیں آرہی۔ اندرون ِ ملک تحریکِ لبیک پاکستان نے بھی پچھلی حکومت اور اب عمران خان کی حکومت کا بھی ناک میں دم کر رکھا ہے۔ اس جماعت کو قائم ہوئے دیر نہیں گزری، مگر یہ بڑے دھڑلے سے جب چاہتی ہے ملک کے نظام کو درہم برہم کردیتی ہے۔ اس کی ان حرکتوں کی وجہ سے پچھلے دنوں اس جماعت پر پابندی بھی لگادی گئی تھی، مگر اس کی سرگرمیاں ہیں کہ ختم نہیں ہوتیں۔ یہ بھی دلچسپ بات ہے کہ ایک طرف حکومت اس پر پابندی بھی لگاتی ہے اور دوسری طرف اس کے مطالبات پر اس سے مذاکرات بھی کرتی ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ اس جماعت کی پشت پر کون سی طاقت ہے، جس کی وجہ سے ریاست سختی کے ساتھ نمٹنے سے گریزاں ہے۔ ایک طرف ٹی ٹی پی اور دوسری طرف ٹی ایل پی۔ اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو بیرونِ ملک پاکستان کی مزید بدنامی ہوگی اور امریکا کے اس منصوبے کو تقویت ملے گی کہ پاکستان پر اقتصادی پابندی لگادی جائے۔
پاکستان سے باہر اکثر سیاسی حلقوں کو یہ شبہ بھی ہے کہ کہیں پاکستان کی حکومت ایک مسئلے کو دبانے کے لیے دوسرا مسئلہ خود تو نہیں کھڑا کردیتی ہے۔ تھوڑے دن پہلے الیکشن کمیشن اور حکومت کے مابین رسّا کشی تھی، پھر نیب کے معاملے میں اپوزیشن سے جھگڑا کھڑا ہوا۔ ابھی وہ تنازع طے بھی نہ ہوا تھا کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین پر تنازع سامنے آگیا۔ اس کے بارے میں بھی کوئی نتیجہ نظر نہیں آیا تھا کہ ڈی جی آئی ایس آئی کا شوشا کھڑا ہوا۔ اب ٹی ایل پی کے تنازعے نے اتنی شدت اختیار کرلی ہے کہ پی ڈی ایم کی احتجاجی تحریک آدھی ہوکر رہ گئی ہے۔ ان سارے معاملات کو کیا سمجھاجائے؟