سٹاک ہوم: دنیابھرمیں25 سے 31 اکتوبر تک ہفتہ تخفیف اسلحہ منایا جاتا ہے تاہم تمام تر کوششوں کے باوجود نہ تو اسلحے کی پیداوار کو روکا جاسکا اور نہ ہی اس کی خرید و فروخت کو روکنے کے حوالے سے کوئی اقدامات کئے جاسکے۔گزشتہ 4 برسوں کے دوران عالمی سطح پر 57ممالک نے 155 ممالک کو اسلحہ فروخت کیا اور فروخت کرنے والے ممالک میں امریکا بدستور سرفہرست ہے جبکہ دوسری جانب خریداروں کی فہرست میں بھی بھارت پہلے نمبر پر ہی ہے۔
میڈیا رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں اسلحے کی فروخت کا 75 فیصد اسلحہ صرف 5ممالک امریکہ، روس، چین، فرانس اور جرمنی نے فروخت کیا جن میں 35 فیصد حصہ امریکا کا رہا جبکہ 23 فیصد روس، 6.2 فیصد چین، 6 فیصد فرانس اور 5.2 فیصد حصہ جرمنی کا رہا۔سویڈش ادارے سپری کے اعداد و شمار کے مطابق دنیا کے 155 اسلحہ کے خریدار ممالک میں بھارت بدستور سرفہرست ہے جبکہ سعودی عرب دوسرے، متحدہ عرب امارات تیسرے، چین چوتھے اور الجیریا 5ویں نمبر پر رہا جبکہ خریداری کی فہرست میں پاکستان 9 ویں نمبر پر رہا۔ بھارت نے 68 فیصد اسلحہ روس سے‘ 14 فیصد امریکا اور 7.2 فیصد اسرائیل سے خریدا جبکہ سعودی عرب نے 52 فیصد اسلحہ امریکہ سے، 27 فیصد برطانیہ اور 4.2 فیصد اسپین سے خریدا۔ پاکستان نے 68 فیصد اسلحہ چین، 16 فیصد امریکا اور 3.8فیصد اٹلی سے خریدا۔بنگلہ دیش جواسلحہ کی خریداری میں 18 ویں نمبر پر ہے نے 33 فیصد اسلحہ چین سے، 13فیصد امریکا اور 5.2 فیصد برطانیہ سے خریدا۔
ماہرین کے مطابق عالمی سطح پر دفاعی اخراجات بدستور بڑھتے جارہے ہیں اور دنیا کے دفاعی اخراجات ایک کھرب 686ارب ڈالر تک تجاوز کرگئے جس کا سب سے بڑا حصہ 611 ارب ڈالر امریکا کا ہے جبکہ 215.7 ارب ڈالر کے ساتھ چین دوسرے، 69.2 ارب ڈالر کے ساتھ روس تیسرے، 63.7 ارب ڈالر کے ساتھ سعودی عرب چوتھے اور 55.9 ارب ڈالر کے ساتھ بھارت پانچویں نمبر پر ہے جبکہ 9 ارب ڈالر کے ساتھ پاکستان عالمی دفاعی اخراجات کی فہرست میں 23 ویں نمبر پر ہے۔اس فہرست میں فرانس چھٹے، برطانیہ 7 ویں، جاپان 8ویں، جرمنی 9ویں اورجنوبی کوریا دسویں نمبر پر ہے۔ امریکہ جو ایٹمی ہتھیاروں کے ساتھ بھی دنیا کا سرفہرست ملک ہے اسلحہ سازی میں بھی کسی حوالے سے کم نہیں جس کا اندازہ اس امر سے باآسانی لگایا جاسکتا ہے کہ دنیا کی 10ڑی اسلحہ ساز کمپنیوں میں سے 7 کا تعلق امریکا سے ہے جبکہ ایک کا برطانیہ، ایک کا اٹلی اور ایک یورپی یونین سے ہے۔