اسلام آباد : تمباکونوشی کو مضرصحت قرار دیاجاتاہے ۔ 31 مئی کوتمباکو نوشی کے خلاف عالمی دن منایاجاتا ہے اور آئندہ نسلوں میں اس کی آگہی کے لئے تقاریب کا اہتمام کیاجاتا ہے۔تمباکو کی صنعت کی مہلک مصنوعات پاکستانی بچوں کے حال اور مستقبل کو تاریک بنا رہی ہیں۔
حکومت کو اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ بچے ان مصنوعات سے محفوظ رہیں۔ ان خیالات کا اظہار سوسائٹی فار دی پروٹیکشن آف دی رائٹس آف دی چائلڈ (سپارک) کی جانب سے عالمی یوم انسداد تمباکو نوشی 2023 کے موقع پر مقررین نے منعقدہ تقریب میں کیا۔ اس تقریب میں سینئر صحافیوں، سول سوسائٹی کے کارکنان، اور ماہرین صحت نے شرکت کی جنہوں نے تمباکو کے نقصانات کے بارے میں شعور بیدار کرنے میں سپارک کی مسلسل کاوششوں کو سراہا۔
پارلیمانی سیکرٹری، وزارت نیشنل ہیلتھ سروسز ریگولیشنز اینڈ کوآرڈینیشن ڈاکٹر شازیہ صوبیہ اسلم سومرو،نے کہا 61 ملین نوجوان پاکستان کا اثاثہ ہیں لیکن تمباکو کی خطرناک مصنوعات ہمارے حال اور مستقبل کے لیے خطرہ ہیں۔ حکومت نے حال ہی میں تمباکو کی مصنوعات پر ٹیکس بڑھایا ہے تاکہ یہ مصنوعات نوجوانوں کی قوت خرید سے باہر ہو جائیں۔
ان کامزید کہنا تھا کہ تقریباً 1200 بچے روزانہ سگریٹ نوشی کرتے ہیں اور ہر سال 170,000 لوگ تمباکو سے پیدا ہونے والی بیماریوں کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ ہم کسی بھی قیمت پر نوجوانوں کی زندگیوں کو نقصان نہیں پہنچا سکتے۔ نوجوانوں کو پروان چڑھنا چاہیے اور اس کے لیے تمباکو کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کو بچوں کی پہنچ سے دور رکھنا ناگزیر ہے۔
ایم این اے اور ممبر سٹینڈنگ کمیٹی ہیلتھ ڈاکٹر نثار احمد چیمہ نے عالمی یوم انسداد تمباکو نوشی 2023 کے عنوان پر روشنی ڈالتے ہوۓ کہا ہمارے بچوں کو تمباکو کی نہیں خوراک کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا مہنگائی کی وجہ سے پاکستان کے بچوں اور نوجوانوں کو اپنی تعلیمی، غذائیت اور تفریحی ضروریات پوری کرنے میں شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ لہٰذا تمباکو کی قیمتوں میں اضافے کے حکومتی فیصلے کا سب کو خیر مقدم اور حمایت کرنا چاہیے۔
ممبر، سٹینڈنگ کمیٹی، نیشنل اسمبلی آف پاکستان برائے نیشنل ہیلتھ سروسز ریگولیشنز اینڈ کوآرڈینیشن ڈاکٹر ثمینہ مطلوب نے کہا پاکستانی نوجوان تمباکو کی مصنوعات کی فروخت اور اشتہارات کی زد میں ہیں۔ گھر، تعلیمی ادارے، تفریحی مقامات، ان مصنوعات نے ہر طرف سے بچوں کو گھیرا ہوا ہے ۔ یہ ہماری اجتماعی ذمہ داری ہے کہ ہم اپنے بچوں اور نوجوانوں کو ان مصنوعات سے محفوظ رکھیں۔
سابق ٹیکنیکل ہیڈ، ٹوبیکو کنٹرول سیل، وزارت صحت ڈاکٹر ضیاءالدین اسلام نے کہا تمباکو کی صنعت روزگار فراہم کرنے کا دعویٰ کرتی ہے لیکن حقیقت میں یہ معیشت کو نقصان پہنچا رہی ہے۔ حکومت کی جانب سے تمباکو کی مصنوعات پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی بڑھانے کا حالیہ فیصلہ قابل تحسین ہے۔ اس میں مزید بہتری لانے کے لیے، ایکسائز ڈیوٹی کو مالی سال 2023-24 کے لیے افراط زر کے مطابق بڑھایا جانا چاہیے۔
ڈی جی، ہائر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) سلمان احمد کاکہنا تھا کہ ہمارے نوجوان ایک محفوظ اور صحت مند مستقبل چاہتے ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہمارے پالیسی ساز فیصلہ کریں کہ آیا وہ نوجوانوں کو سپورٹ کرنا چاہتے ہیں یا ایسی صنعت جو اپنے منافع کو جاری رکھنے کے لیے نوجوانوں کو نشے کا عادی بنا کر ان کا مستقبل برباد کر رہی ہے۔
سپارک کے پروگرام منیجر خلیل احمد ڈوگر نے کہا پاکستان میں ایف بی آر کا لاگو کردہ ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم اس بات کو یقینی بنانے کا بہترین طریقہ ہے تمباکو کی صنعت ہماری معیشت کو مزید نقصان نہ پہنچا سکے۔ انہوں نے بتایا کہ اس سسٹم کے نفاذ کے بعد سگریٹ سٹکس کی پیداوار میں کمی آئی ہے جبکہ ایف بی آر کی ٹیکس وصولی میں 11.75 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
ممبربورڈ آف ڈائریکٹرز، سپارک خالدہ احمدنے کہا 1992 سے سپارک بچوں کے حقوق کے لیے کام کر رہی ہے۔ تمباکو بچوں کے متعدد حقوق کے لیے براہ راست خطرہ ہے اور اس لیے ہم اپنے بچوں اور نوجوانوں کو تمباکو کے نقصانات سے بچانے کے لیے پرعزم ہیں۔ سپارک نے تمباکو سے پاک پاکستان بنانے کے لیے "یوتھ ایڈوکیٹس اگینسٹ ٹوبیکو" مہم کا آغاز کیا ہے۔ ہمارا مقصد اپنے نوجوانوں کو آج اور مستقبل میں مثبت کردار ادا کرنے کی ترغیب دینا ہے۔ تقریب میں تمباکو نوشی کے خلاف شعور بیدار کرنے میں سپارک کی مسلسل کاوششوں کو سراہاگیا۔