دھرنے کی ناکامی کا دل ہی دل میں صرف خان صاحب کو ہی نہیں ہمیں بھی دکھ ہے۔ ظاہر ہے جس شخص کے ساتھ آپ کا اتنے برس تعلق رہا ہو وہ اگر اپنے بارے میں آپ کے سچ بولنے یا لکھنے پر آپ سے روٹھ جائے اور اس بناءپر اس کے پجاری یا پیروکار آپ کے ساتھ بدتمیزیوں و بداخلاقیوں کی انتہا کر دیں ، پھر بھی آپ کو زیب نہیں دیتا اس کے دکھ پر آپ خوش ہوں۔ اس بار وہ دھرنے یا لانگ مارچ کے حوالے سے کی مدد و حمایت سے کافی حد تک محروم تھے۔ جب ان کی مدد اور حمایت انہیں حاصل تھی تب بھی دھرنے میں ان کے مطالبات من و عن تسلیم نہیں ہوئے تھے۔ بلکہ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے ان کا ایک مطالبہ بھی تسلیم نہیں ہوا تھا۔ انہیں بس اس وقت کی حکومت کو کمزور کرنے کے لئے استعمال کرنا تھا جس میں اسٹیبلشمنٹ کافی حد تک کامیاب رہی۔ اس وقت کی حکومت کو کمزور اور خان صاحب کی طاقت میں اضافے کے لئے ایک شخص کو کینیڈا سے بھی بلایا گیا۔ اس وقت خان صاحب کا ایک مطالبہ قومی اسمبلی کے کچھ حلقوں میں دوبارہ الیکشن کروانے کا تھا۔ وہ پینتیس حلقوں میں دوبارہ الیکشن کی ڈیمانڈ کر رہے تھے۔ انہیں یقین تھا 2013ءکے عام انتخابات میں انہیں پینتیس سیٹوں سے ہروایا گیا ہے۔ اپنی اس سوچ کو انہوں نے پینتیس پنکچرز کا نام دے رکھا تھا۔ دھرنے کے خاتمے کے کچھ عرصے بعد اپنے ایک انٹرویو میں انہوں نے فرمایا کہ پینتیس پنکچروں والی بات ایسے ہی انہوں نے مذاق میں کہہ دی تھی۔ ہو سکتا ہے دھرنے دے دے کے وہ جب تھک جائیں امریکہ مراسلہ والی بات کو بھی مذاق قرار دے دیں۔ اللہ انہیں عمر خضر عطاءفرمائے ، ممکن ہے کسی روز وہ یہ بھی فرما دیں ”میں نے اپنے قتل کی سازش کی جو بات کی تھی وہ بھی مذاق تھا“۔ عوام کے ساتھ ان کے مذاق چلتے رہتے ہیں۔ پونے چار برسوں تک حکومت بھی وہ مذاق مذاق میں ہی کرتے رہے۔ ان کا کوئی عمل ایسا نہیں تھا جس سے یہ احساس ہوتا وہ وزیر اعظم ہیں۔ اپنی فطرت کے عین مطابق اپنے اقتدار کے پونے چار برس انہوں نے صرف اپنے سیاسی و غیر سیاسی مخالفین کو رگڑا دینے اور ان کے خلاف سازشیں کرنے میں ضائع کر دیئے۔ چوروں اور ڈاکوﺅں سے ایک پیسہ لوٹا ہوا وہ نہیں نکلوا سکے الٹا ان کے کیسز سے نمٹنے کے لئے سرکار کے کروڑوں روپے ضائع کر دیئے۔ اس کا قصور وار وہ عدالتوں کے ٹھہراتے ہیں۔ عدالت قصور وار ہوں گی مگر یہ حکم کس ”عدالت“ سے آیا تھا ، ملک کے سب سے بڑے ”ڈاکو“ کو علاج کی غرض سے باہر بھجوا دیا جائے؟۔ بعد میں منافقت کے تحت اسے یہ طعنہ دیئے جائیں اب وہ واپس نہیں آ رہا۔ وہ فرماتے ہیں ان کی حکومت امریکی سازش کے تحت ختم کی گئی۔ اس ضمن میں وہ ایک ”امریکی مراسلے“ کا حوالہ دیتے ہیں جو امریکہ نے ان کی حکومت ختم کرنے کے لئے ایک ”دھمکی“ کے طور پر پاکستان بھیجا تھا۔ اس مراسلے کی اصل حقیقت بھی شاید کبھی سامنے نہ آ سکے۔ اگر خان صاحب کی اپنی حکومت میں اس کی اصل حقیقت سامنے نہیں آ سکی پھر کبھی نہیں آ سکے گی۔ پاکستان میں ہونے والے بے شمار واقعات اور سانحات کی اصل حقیقت کبھی سامنے نہیں آ سکی۔ بے نظیر بھٹو کے اصل قاتل کسی اور کے دور میں کیا پکڑے جانے تھے پیپلز پارٹی کی اپنی حکومت میں نہیں پکڑے گئے ۔ لیاقت علی خان کا اصل قاتل کون تھا؟ اس قتل کی اصل کہانی کیا تھی؟ یہ ”ہجوم“ آج تک اس سے بے خبر ہے۔ طیارے کے ایک حادثے میں پاکستان کا ایک آرمی چیف کئی جرنیل کئی افسر حتیٰ کہ امریکی سفیر تک مارا گیا۔ آج تک کسی کو پتہ ہی نہیں چلا یہ کس کی سازش تھی؟ ضیاءالحق کا بیٹا اعجاز الحق اور ان کا منہ بولا بیٹا نواز شریف ضیاءالحق کی وفات کے بعد کئی بار اقتدار میں رہے، مجال ہے انہوں نے یہ سراغ لگانے کی ہلکی سی کوششیں بھی کی ہو یہ حادثہ کیسے ہوا؟ طیارے میں آم کی پیٹیاں کس نے کس مقصد کے لئے رکھوائیں؟۔ امریکی مراسلے کی بات آہستہ آہستہ خود خان صاحب نے کرنی اب بند کر دی ہے مگر ایک حیرانی کا شکار ہم ضرور ہیں کیا امریکہ اتنا بے وقوف ہے ایسی ”سازش“ لکھ پڑھ کر کرے؟ اپنی حکومت خان صاحب نے خود ختم کی۔ اسمبلی توڑنے کی غیر آئینی ایڈوائس اپنے ”صدر پاکستان“ کو انہوں نے خود بھیجی۔ جو اپنے خلاف تحریک عدم اعتماد کی صورت میں وہ بھیج ہی نہیں سکتے تھے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو امریکہ نے خان صاحب کی حکومت ختم کرنے کے لئے جو سازش کی اس کے لئے انہوں نے خان صاحب کو ہی استعمال.... امریکہ پونے چار برسوں تک مسلسل ان کے خلاف ”سازشیں“ کرتا رہا۔ ایک سازش اس نے خان صاحب کے خلاف یہ کی کہ بزدار جیسے نکمے ترین شخص کو کے پی کے کا وزیر اعلیٰ بنوایا۔ تیسری سازش یہ کی جنم جنم کے میلے لوٹوں کو وفاقی کابینہ میں شامل کروایا۔ چوتھی سازش یہ کی پورے ملک سے ڈھونڈ ڈھونڈ کے نااہل اور کرپٹ افسروں کو مختلف اہم عہدوں سے نوازا۔ یقین کریں امریکی سازش ہی کے تحت خان صاحب نے نکمے ترین وزراءخزانہ لگائے جنہوں نے ملک کی معاشی حالت کا رہا سہا پٹھا بھی بیٹھا دیا۔ یہ بھی ”امریکی سازش“ ہی کا نتیجہ ہے خان صاحب وزیر اعظم ہاﺅس کو یونیورسٹی نہیں بنا سکے۔ امریکی سازش کے تحت انہیں روزانہ بذریعہ سرکاری ہیلی کاپٹر بنی گالہ سے وزیر اعظم ہاﺅس آنا پڑتا تھا حالانکہ وزیر اعظم ہاﺅس کو یونیورسٹی انہوں نے نہیں بنانا تھا تو وہیں رہ سکتے تھے۔ سرکار کے کروڑوں روپے ضائع کرنے کا مشورہ یقینا ایک امریکی سازش کے تحت ہی کسی نے انہیں دیا ہو گا۔ یہ بھی ”امریکی سازش“ہی ہو گی یہ دوسرے چوتھے روز سینکڑوں افسروں کے غیر ضروری طور پر وہ تبادلے کر دیتے تھے جس کے نتیجے میں انتظامی ڈھانچہ اب قبر میں ہے۔ صحت و تعلیم و انصاف کے شعبوں میں انہوں نے انقلابی تبدیلیاں لانی تھیں وہ سب بھی ”امریکی سازش“ کی نذر ہو گئیں۔ اپنے منشور کے مطابق وہ اقتدار میں آ کر دودھ اور شہد کی نہریں بہانا چاہتے تھے۔ اگر وہ نہیں بہا سکے یہ سب امریکی سازش کا نتیجہ ہے۔ ان کا اقتدار میں آنا بھی یقیناً ایک امریکی سازش ہی ہو گی ورنہ وہ اس اقتدار پر کروڑوں بار لعنت بھیجتے جو ان قوتوں کی حمایت یا امدد سے انہیں ملا جنہیں عمر بھر وہ تنقید کا نشانہ بناتے رہے۔ امریکہ اب بھی ان کے خلاف سازشیں کرنے سے باز نہیں آ رہا۔ یہ جو بار بار وہ ”یوٹرن“ لیتے ہیں۔ اپنی مرضی سے تھوڑی لیتے ہیں ۔ یہ سازش ہے جس کی وجہ سے ایک یوٹرن 26 مئی کی صبح سویرے بھی انہیں لینا پڑا۔ امریکہ اس حد تک ”کمینگی“ پر اتر آیا ہے۔ خان صاحب اپنی تقریروں میں ”اسلامی ٹچ“ تک دینا اب بھول جاتے ہیں!!