لکھنا تو سیاست پر تھا لیکن پاکستان میں سیاسی حالات اس طرح بدل رہے ہیں کہ آنے والے چند دنوں کا پتہ ہے اور نہ چند گھنٹوں کا۔ اس لیے نہ تو کسی کو ہماری ”سیاسی مشاورت“ کی ضرورت ہے اور نہ ہی ہمیں فی الوقت سیاسی دینگا مشتی میں ٹانگ اڑانے کی۔ لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ جو بھی ہو اس ملک کے لیے بہتر ہو، اس عوام کے لیے بہتر ہواور سب سے اہم دنیا میں پاکستان کا امیج بہتر ہو۔ بس اسی کے لیے ہمیں تگ و دو کرنی چاہیے، اسی کے لیے سیاست کرنی چاہیے، اسی کے لیے محنت کرنی چاہیے، اسی کے لیے جان نچھاور کرنی چاہیے۔ لہٰذااس وقت کچھ بھی سیاست پرنہیں لکھا جا سکتا۔ اس لیے میرے سامنے اس وقت نہایت دلچسپ کتاب ”نارووال کے ارسطو“ پڑی ہے جسے افضل چوہدری نے لکھا ہے۔ کتاب پر میں نے طائرانہ سی نظر ڈالی تو واقعی لگا کہ اس کتاب کو پرسکون لمحات میں پڑھنے کی ضرورت ہے۔ کیوں کہ اس کا ہر لفظ اس دھرتی کی ا±ن شخصیات کے بارے میں ہے جو واقعی اس کی شان ہیں۔ لہٰذامذکورہ بالا کتاب پر ہی کالم لکھنے کو دل چاہا لیکن آگے چلنے سے پہلے اگر پاکستان میں کتاب کی اہمیت پر نظر ڈالوں تو حالات بہت خراب لگ رہے ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ جیسے ہمارے معاشرے میں کتب بینی کو شاید کسی کی نظر لگ گئی ہے۔ ورنہ تو انسان جب شعور کی بلندی پر پہنچتا ہے تو علم حاصل کرتا ہے اور علم کی منزلیں طے کرنے کے لئے کتاب کا محتاج ہوتا ہے۔ جب پاکستان بنا تو ا±س وقت ہمارے معاشرے میں کتاب پڑھنے کا رجحان 60سے 70فیصد ہوا کرتا تھا جو گھٹتا گھٹتا آج 4فیصد رہ گیا ہے۔ یعنی 100پڑھے لکھے افراد میں سے صرف 4لوگ کتب بینی کا شوق رکھتے ہیں۔
کتاب سے ہم دور کیوں ہوئے اس کی شاید بہت سی وجوہات ہیںلیکن میں یہاں چند وجوہات کا ہی ذکر کروں تو ہماری آنکھوں سے پردہ ہٹ جائے گا، مثلاً ہماری قیادت شروع ہی سے متنازع رہی جس کی وجہ سے کسی نے اس ملک میں تعلیم پر توجہ ہی نہیں دی، جو بھی آیا اپنے ذاتی مفادات کے لیے عوام کو استعمال کرتا رہا۔ بھٹوصاحب آئے تو ا±نہوں نے روٹی کپڑا مکان کا نعرہ لگایا، جنرل ضیاءالحق صاحب تشریف لائے تو ا±نہوں نے ساری نوجوان نسل کے ہاتھ کتاب چھین کر بندوق تھمائی اور افغانستان میں روس کے خلاف جہاد کرنے کے لیے بھیج دیا۔ اور پھر جب وہاں سے ہمارے جوان ”غازی“ بن کر لوٹے تو ا±ن کے لیے کرنے کو کوئی کام نہیں تھا تو ا±نہیں 90کی دہائی میں سیاسی جماعتوں نے استعمال کرکے مذہبی ونگ بنوائے اور ایک دوسرے کے خلاف مختلف کالعدم تنظیموں کی مدد سے حملے کراتے رہے۔ پھر سب سے پہلے پاکستان کا نعرہ لگانے والے بھی آئے ،انہوں نے اپنے تئیں تعلیم پر توجہ دینے کی کوشش کی ، مگر وقت گزر چکا تھا، ایک پوری ”ان پڑھ“ نسل ہمارے معاشرے میں قدم رکھ چکی تھی، ظاہر ہے جب بچے کو جب گھر سے کتاب پڑھنے کا شوق پیدا نہیں ہوگا تو وہ آگے چل کر کیا کرے گا؟ یہی وجہ ہے کہ ہم اپنے اچھے دوست اور تنہائی کے بہترین ساتھی (کتاب) سے دور ہوتے رہے۔حالانکہ کتاب ہماری اخلاقی و معاشرتی تربیت کرتی ہے اورایک بہت ہی مشہور مقولہ ہے ریڈرز ہی لیڈرز ہوتے ہیں۔یہ جملہ کتابوں کی اہمیت کو واضح کرتا ہے۔قرآن پاک میں بھی ارشاد ہے کہ ”جاننے والے اور نہ جاننے والے کبھی برابر نہیں ہوسکتے“ بلکہ جاننے والوں کو دیکھنے والے جبکہ نہ جاننے والوں کو اندھوں سے تشبیہ دی گئی ہے۔ مجموعی طور پر مسلمان اور خاص طور پر ہم پاکستانی کتاب سے کیوں دور ہوتے جا رہے ہیں۔
خیر بات کہیں کی کہیں نکل گئی، واپس آتے ہیں مذکورہ بالا کتاب ”نارووال کے ارسطو“ پر۔تو قارئین! ویسے تو مصنف و ادیب افضل چوہدری صاحب کی شخصیت نہایت نفیس اور قابل دید ہے۔ افضل صاحب برطانیہ میں مقیم ہیں مگر ا±نہوں نے اپنے آبائی وطن کا اس کتاب کی شکل میں حق ادا کردیا ہے۔ ا±ن کی اس کتاب کی رونمائی گزشتہ دنوں لاہور کے ایک مقامی ہوٹل میں ہوئی ، اتفاق سے مجھ خادمہ کو بھی وہاں مدعو کیاگیا تھا، ایسی تقریبات میں جانے سے کوئی اور فائدہ ہو نہ ہو۔ مگر آپ کو لاہور کی ”ادبی کریم“ ایک جگہ ضرور مل جاتی ہے۔ پھر ایک اور فائدہ بھی ہوتا ہے کہ آپ کو ا±ن سینئر ادبی شخصیات سے ملنے کا موقع اور کچھ سیکھنے کا ہنر میسر آتا ہے کہ جی چاہتا ہے کہ ان بزرگوں کی باتیں سنتے رہیں۔ خیر تقریب کی صدارت مجیب الرحمن شامی صاحب فرما رہے تھے جبکہ مقررین میں خالد عباس ڈار، مظہر برلاس ، منصور آفاق ، راشد محمود ، کرنل شجاعت ، شعیب بن عزیز ، اے جی خان شامل تھے۔ تقریب میں یاسین خان، ضیاءالحق نقشبندی، علی راوف، عبداللہ ملک اور اس کے علاوہ نارووال کے صحافتی اور سیاسی حلقوں نے بھی بھرپور انداز میں شرکت کی۔مقررین نے کتاب کے حوالے سے اور نارووال کے حوالے سے خاصی دلچسپ باتیں بھی کیں اور بہت سی نئی باتیں بھی سامنے آئیں کہ نارووال جیسے پسماندہ علاقے نے کیسی کیسی شخصیات کو جنم دیا ہے۔ یعنی کتاب ”نارووال کے ارسطو“ میں اس ضلع کی تاریخ، تحریک پاکستان اور شخصیات جیسے موضوعات شامل ہیں۔ کتاب میں جن نارووال کے ”ارسطو “ کا تذکرہ ملتا ہے اس میں بابا گورونانک ، احسن اقبال،انور عزیز نصیر خاں، اشفاق تاج، طارق انیس، ڈاکٹر نعمت اور ادبی ارسطوو ﺅں میں اشوک کمار بٹالوی، فیض احمد فیض، افضل چودھری، سید عارف نوناری،مظہر برلاس، ضیا الحق نقشبندی اور دیگر شامل ہیں کتاب کو منفرد انداز میں تحریر کیا گیا ہے۔
یہ واقعی لاجواب کتاب ہے مگر سوال پھر وہی کہ جب ایک لکھاری اتنی محنت سے ایک کتاب کو لکھتا ہے تو ا±س کی کتنی کتب شائع ہوتی ہوں گی؟ یہی ایک ہزار، 2ہزار، 5ہزار یا 10ہزار۔ جبکہ ہمارے ملک کی آبادی 22کروڑ اور جن میں سے 17کروڑ بالغ افراد ہیں۔ اتنی بڑی آبادی میں محض ہزار دو ہزار کتاب بھی نہ پڑھے جانا یقینا ہمارے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ اس کے مختصر اسباب شاید غربت ،بے روزگار جس کی وجہ سے عام پاکستانی اسی چکر میں ساری زندگی گزار دیتا ہے۔تلخ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے ہاں ایک لکھاری کی عزت میں بھی بے پناہ کمی آئی ہے ،دوسری طرف صاحب علم بے روزگار ہیں اور علم کی سرپرستی حکومت نہیں کرتی ،پھر انفرادی طور پر ہم اتنے بدذوق ہوچکے ہیں کہ عموماً کتابوں کا مطالعہ کرنے کو وقت کا زیاں سمجھتے ہیں۔ ہمارے ہاں کتاب کو فضول سمجھا جاتا ہے۔ہمارے گھروں میں لائبریری تو دور کی بات چند کتابیں بھی دیکھنے کو نہیں ملتی۔ ہمارے ہاں کتابیں خریدنے اور پڑھنے والے کو مذاق کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔یہ ایک غلط روش ہے جسے ہمیں معاشرے سے ختم کرنا چاہیے اور کتابیں لکھنے والوں کی قدر کرنی چاہیے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کا اس ترقی یافتہ دور میں بھی کتاب سے رشتہ نہ ٹوٹے ورنہ ہم یوں ہی لڑتے جھگڑتے رہیں اور گے اور کوئی مناسب قیادت نہیں مل سکے گی۔