تابوت میں آخری کیل کا محاورہ تو آپ نے سنا ہو گا، ایم کیو ایم نے عمران خان کے ساتھ وہی کام کیا ہے اور عمران خان نے چودھری برادران کے ساتھ۔ صنم ہم تو ڈوبے ہیں تم کو بھی لے ڈوبیں گے۔ کل تک لگ رہا تھا کہ معاملات سو فیصد اپوزیشن کے حق میں نہیں ہیں۔ عمران خان نے چودھریوں کا جوا کھیلا اب وہ چلتا ہے یا نہیں اس کا پتہ نہیں مگر اب ان کی سپیکرشپ بھی خطرے میں پڑ گئی ہے۔ بلوچستان عوامی پارٹی نے متحدہ اپوزیشن کے ساتھ اتحاد کر کے چودھری پرویز الٰہی کی سیاست کو بیلنس کر دیا تھا۔ طارق بشیر چیمہ کا واک آؤٹ بھی معنی رکھتا تھا۔ رات چودھری برادران کے گھر سے ایک وضاحتی بیان جاری ہوا کہ عمران خان کے ساتھ جانے کے فیصلے کی تائید چودھری شجاعت حسین نے کی تھی۔ یعنی چودھری شجاعت کے حوالے سے جو ابہام موجود تھا وہ بھی دور ہو گیا ورنہ چودھری شجاعت صاحب زرداری صاحب کی وکالت سے فایدہ اٹھا سکتے تھے۔
عمران خان نے چودھری پرویز الٰہی کو استعمال کیا۔ وزارت اعلی کا وعدہ تو پاکستان پیپلزپارٹی اور ن لیگ نے بھی کیا تھا اور چودھری صاحب کے کہنے پر تحریک عدم اعتماد جمع کروائی گئی تھی۔ اچانک کیا ہوا کہ چودھری صاحب اٹھ کر بنی گالہ پہنچ گئے اور عمران خان کی رسوائی کو اپنے گلے میں ڈال لیا۔ چودھری برادران کو زیرک سیاستدان سمجھا جاتا ہے مگر اس بار ان سے غلطی ہو گئی۔ دھمکی والے خط کی طرح عمران خان نے بزدار کا استعفی بھی اپنی جیب میں رکھ لیا۔ چودھری پرویز الٰہی نے پوچھا استعفی گورنر کو ابھی تک نہیں پہنچا تو عمران خان نے کہا کہ پہلے تحریک عدم اعتماد کا فیصلہ ہو جائے پھر استعفیٰ گورنر کو بھیج دیں گے اور وہ اسی دن منظور بھی ہو جائے گا۔ بزدار کے استعفیٰ کو عمران خان نے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا۔ چودھری خود کو بڑا کھلاڑی سمجھ رہے تھے مگر عمران نے ان کو چاروں شانے چت کر دیا۔ بعض اوقات ایک کیچ ہی سارے میچ کا پانسہ پلٹ دیتا ہے۔ چودھریوں نے یہ تاثر مضبوط کرنے کی کوشش کی تھی کہ حکومت کے اتحادی ان کے ساتھ ہیں اور وہ جس طرف جائیں گے وہ ساتھ ہی جائیں گے۔ پرویز الٰہی صاحب نے جانے میں اتنی جلدی کی کہ اتحادیوں کو اعتماد میں لینا بھی ضروری نہیں سمجھا اور یہ جا وہ جا۔ اس رویے نے باقی اتحادیوں کو فیصلہ کرنے میں آزادی دی اور انہوں نے اپوزیشن کے ساتھ جانے میں بہتری جانی۔
یہ بات ابھی تک حتمی نہیں ہے کہ وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد آنے کے بعد تحریک انصاف پرویز الٰہی کو اپنا امیدوار بناتی ہے یا نہیں کیونکہ ایم کیو ایم نے اپوزیشن کے ساتھ تحریری معاہدہ کر کے پرویز الٰہی کے پاؤں کے نیچے سے قالین کھینچ لیاہے۔ اس سارے کھیل میں اپوزیشن نے منحرف اراکین کو بہت خوبصورتی کے ساتھ استعمال کیا۔ عمران خان کی تمام تر دھمکیوں کے باوجود تحریک انصاف کے منحرف اراکین اپنی جگہ کھڑے رہے اور اب تحریک عدم اعتماد کے دن وہ اپنا ووٹ نہیں ڈالیں گے اور یوں اس صدارتی ریفرنس کی ضرورت ہی نہیں رہے گی جو سپریم کورٹ کا لارجر بنچ سن رہا ہے۔
پنجاب میں کل تک بزدار کیمپ بھی متحرک تھا اور یہ کہہ رہا تھا کہ تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوئی تو بزدار کو کسی جگہ ایڈجسٹ کیا جائے اور سپیکرشپ اور گورنر پنجاب بنانے کی خبریں بھی چلوائی گئیں۔ سازش عمران خان کے خلاف ہوئی اور بزدار اس کی بھینٹ چڑھ گئے۔ بے چارے بزدار بڑوں کی لڑائی میں مارے گئے۔ اس سارے کھیل میں زرداری نے ثابت کیا کہ اک زرداری سب پر بھاری۔
کیا آپ نے سوچا کہ زرداری صاحب یہ سب کیوں کر رہے ہیں۔ وہ تو مزے سے سندھ سنبھالے ہوئے ہیں۔ پہلے بھی وہ نوازشریف کے دشمن تھے پھر اچانک محبت کیوں جاگ گئی۔ کیا یہ سارا کھیل صرف جمہوریت لانے کے لیے ہے تو آپ اپنی رائے سے رجوع کریں۔ زرداری نے بہت جمع تفریق کیا ہے اور بلاول بھٹو کو وزیراعظم بنانے کے لیے یہ ضروری تھا کہ وہ پنجاب کی ایک بڑی پارٹی کا ساتھ دیں۔ اکیلے سندھ کی سیٹوں سے زرداری وزیراعظم نہیں بن سکتے۔ ضروری ہے کہ پنجاب سے بھی ان کو سیٹیں ملیں۔ آئندہ عام انتخابات میں وہ مسلم لیگ ن کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کریں گے تاہم اس کا امکان بہت کم ہے۔ ان کا اثرورسوخ بلوچستان اور کے پی کے میں بھی بڑا ہے۔ بلوچستان کے لوگوں کو وہ خاص طور پر اپنے ساتھ ملا رہے ہیں۔ بلوچستان عوامی پارٹی ہو یا اسلم بھوتانی وہ پیپلزپارٹی کے کہنے پر آ رہے ہیں۔ ایم کیو ایم کو وہ سب کچھ زرداری صاحب نے دے دیا جس کا مطالبہ انہوں نے سامنے رکھا۔ یوں دیہی سندھ اور شہری سندھ کا اتحاد بننے جا رہا ہے۔ دوسرا عمران خان کے دور میں جتنے بھی ضمنی انتخابات ہوئے ہیں، حکومت میں ہونے کے باوجود تحریک انصاف ہار گئی ہے، تاہم جمشید چیمہ جب الیکشن لڑنے کے لیے نااہل ہوئے تو تحریک انصاف کے کارکنوں نے ن لیگ کے بجائے پیپلزپارٹی کو ووٹ دیا۔ اس سے پیپلز پارٹی کو حوصلہ ملا ہے کہ اگر پنجاب میں تحریک انصاف کو کسی طریقے سے نقصان پہنچایا جائے تو اس کا فائدہ پیپلزپارٹی کو ہو گا۔ پیپلزپارٹی کی نظریں اگلے سیٹ اپ پر ہیں اور زرداری نے اس سیٹ اپ میں پریکٹس میچ کھیلا ہے اصل میچ آئندہ انتخابات میں ہو گا جب یہ سب اپنے اپنے نشان پر انتخابات میں جائیں گے۔ پیپلزپارٹی کی پوری کوشش یہ ہے کہ پنجاب کو ن لیگ کے سپرد نہ کیا جائے اور وہ چودھریوں کی صورت میں اس میں کامیابی بھی حاصل کر لیتے لیکن چودھریوں نے معاملہ چوپٹ کر دیا۔ اب پیپلزپارٹی ترین گروپ اور علیم گروپ کو آگے بڑھائے گی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ن لیگ پیپلزپارٹی کو پنجاب کے حوالے سے کس طرح راضی کرے گی۔ ن لیگ پنجاب کے پاس جانے سے زرداری صاحب کا بنا بنایا کھیل خراب ہو سکتا ہے۔ ن لیگ کو چودھری برادران کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ اس نے ن لیگ کو ایک مشکل صورتحال سے نکلنے میں مدد دی ہے۔
مولانا فضل الرحمان بھی اپنا حصہ لیں گے اور وہ کے پی کے کی حکومت ہے۔ تحریک انصاف کے پی اسمبلی توڑنے کی غلطی نہیں کر سکتی۔ وہاں عدم اعتماد سے ہی معاملہ حل ہو گا۔ وہ کھیل بھی خاصا دلچسپ ہو گا۔ بلدیاتی انتخابات میں ایم ایم اے نے جو کامیابی سمیٹی ہے وہ اسے عام انتخابات میں بہت فائدہ دے گی۔ بہت دنوں سے اگر مگر کا کھیل جاری تھا اب وہ کھیل ختم ہونے کا وقت آ گیا ہے۔
بہت شور سنتے تھے پہلو میں دل کا کے مصداق عمران خان کے خفیہ خط کی تفصیلات سامنے آنا شروع ہو گئی ہیں۔ اب پتہ چلا ہے کہ وہ واشنگٹن میں پاکستان کے سفیر کا حکومت کو لکھا گیا مراسلہ ہے جس میں یہ بتایا گیا ہے کہ عمران خان کے ہوتے ہوئے دونوں ملکوں کے تعلقات میں بہتری نہیں آ سکتی اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگر پاکستان نے روس کے ساتھ ہی جانے کا فیصلہ کیا تو پاکستان کو اس کے سنگین نتائج کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ آنے والے حکومت کا پہلا کام ہی یہ ہونا چاہیے کہ وہ اس خط کی تحقیقات کرائے اور حقائق کو عوام کے سامنے رکھے۔ عمران خان کی پوری کوشش ہو گی کہ وہ سیاسی شہادت حاصل کریں۔
پاکستان نے بہت مشکل دور دیکھا ہے۔ دعا کریں کہ قوم اس مشکل دور سے نکلے اور ترقی و خوشحالی کے نئے دور کا آغاز ہو اور لوگوں کو چین سے لقمہ نصیب ہو کہ صرف نعروں سے بھوک نہیں مٹتی۔