اسلام آباد: وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے امور خارجہ طارق فاطمی نے کہا ہے کہ ایران ہمارا ہمسایہ اور دوست ملک ہے، اس کے ساتھ تاریخی تعلقات ہیں پاکستان ایران کے ساتھ دوستانہ تعلقات کے فروغ کی پالیسی پر عمل پیرا ہے، پاکستان ایسے کسی عمل کا حصہ نہیں بنے گا جسسے دوطرفہ تعلقات متاثر ہوں اسلامی فوجی اتحاد دہشتگردی کے خلاف ہے۔ پاکستان کے اس اتحاد کا حصہ بننے پر ایران کو تشو یش نہیں ہونی چاہیے۔
سرکاری ٹی وی کو دئیے گئے انٹرویو میں طارق فاطمی نے کہا ہے کہ دہشتگردی تمام ملکوں کے لیے چیلنج ہے پاکستان انسداد دہشتگردی کے لیے وسیع تجربہ رکھتا ہے شاید اس تجربے سے فائدہ اٹھانے کے لیے سعودی عرب نے جنرل راحیل شریف کی اسلامی فوجی اتحاد کی سربراہی کے لیے پاکستان سے درخواست کی ہے کسی بھی ملک بالخصوص کسی مسلم ملک کو تشویش کی ضرورت نہیں اس کے مقاصد بڑے تعمیری اور مثبت ہیں جن سے اسلامی دنیا کو فائدہ پہنچے گا۔
انہوں نے کہا کہ ایران ہمارا ہمسایہ اور مسلم برادر ملک ہے اس کے ساتھ ہمارے تاریخی تعلقات ہیں ایران کو اس پر کسی قسم کی تشویش نہیں ہونی چاہیے پاکستان ایران کے ساتھ دوستانہ تعلقات کے فروغ کی پالیسی پر عمل پیرا ہے پاکستان کبھی بھی کسی ایسے پلان میں شامل نہیں ہوتا جس سے ہمارے دوست ممالک کو نقصان پہنچے طارق فاطمی نے کہا کہ جنرل راحیل شریف کی تقرری کا معاملہ ابھی مراحل میں ہے، بقول خواجہ آصف ابھی اس کے وزیر دفاع ملیں گے جو ٹرم آف ریفرنس بنائیں گے کہ اس کا انسٹی ٹیوشن فریم ورک کیا ہو گا۔ اس کے مقاصد کیا ہوں گے۔ ہمیں امید ہے کہ یہ ایک مثبت پیشرفت ہو گی اور اسلامی ممالک جو کہتے ہیں کہ یہ اتحاد خالصتاً دہشتگردی کے خلاف ہو گا۔ واقعی یہ اسی طرح ہو گا۔
انہوں نے کہا کہ ہم پاکستانیوں کی تو یہی دعا اور خواہش ہے کہ مسلم امہ میں زیادہ انڈرسٹینڈنگ اور تعاون ہو صرف دہشتگردی پر ہی نہیں بلکہ تجارت، سرمایہ کاری، اکنامک پالیسیوں غرضیکہ ہر ایشو پر ایک دوسرے کے ساتھ تعاون ہونا چاہیے تا کہ دنیا کو ایک اچھا پیغام پہنچے۔ طارق فاطمی نے واضح کیا کہ پاکستان ایسے کسی عمل کا حصہ نہیں بنے گا جس سے دوطرفہ تعلقات متاثر ہوں طارق فاطمی نے کہا کہ پاکستان ہر شعبے میں آگے بڑھ رہا ہے۔ موجودہ پاکستان تین سال پہلے کے پاکستان سے مختلف ہے آج پاکستان کی ترقی کا اعتراف عالمی سطح پر کیا جا رہا ہے۔
ایک سوال پر معاون خصوصی نے کہا کہ پاکستان تو بھارت کے ساتھ مذاکرات کی خواہش رکھتا ہے مگر بھارت کی طرف سے کوئی مثبت تاثر نہیں مل رہااور صرف یہی کہہ رہا ہے کہ صرف دہشتگردی پر بات چیت کریں گے بلکہ وہ لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزیوں کا مرتکب ہو رہا ہے اورپاکستان کو تنہا کرنے کی باتیں کر رہا ہے بھارت صرف دہشتگردی پر بات چیت کرنے پر زور دے رہا ہے جبکہ ہم کہتے ہیں کہ دہشتگردی سمیت دوسرے ایشو پر بھی بات ہونی چاہیے کیونکہ کشمیر سیاچن سرکریک اور اب پانی کا ایشو بھی پیدا ہو رہا ہے ۔صرف دہشتگردی پر بات چیت سے معاملات حل نہیں ہوں گے ہم بھارت سے بارہا کہہ رہے ہیں کہ اگر وہ بات چیت پر سنجیدہ ہے تو تمام ایشوز پر بات ہو گی ہم بھارت کے ساتھ تعلقات بہتر کرنا چاہتے ہیں تا کہ اس خطے کی بہتری ہو یہ اسی لیے ممکن ہے جب مسئلہ کشمیر سمیت وہ تمام مسائل حل ہوں جن سے خرابی پیدا ہو رہی ہے۔ ہمارے پاس ٹھوس شواہد موجود ہیں کہ بھارت پاکستان میں دہشتگردی میں ملوث ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ بھارت کے ساتھ نتیجہ خیز مذاکرات ہوں تا کہ تمام تصفیہ طلب مسائل حل ہوں اور خطے میں امن و سکون پیدا ہو۔ ہم بھارت کے ساتھ ہر جگہ اور ہر وقت بات چیت کے لیے تیار ہیں مگر تمام ایشو پر بات چیت ہونی چاہیے۔