گوادر،سی پیک، گریٹ گیم چینجر

31-Mar-17

گوادر بلوچی زبان کا لفظ ہے۔ گوا کا مطلب ہے ' ہوا' یعنی 'ساحلی ہوا' اور در کا مطلب ہے'دروازہ' یعنی 'ساحلی ہوا کا دروازہ'۔1876  میں ساحل ِپیرس سے ساحل ِبلوچستان تک سفر کے دوران برطانوی بحریہ کے آفیسرسرمیک گریگر گوادر کے ساحل پر پہنچے تو ششدہ رہ گئے وہ اپنی کتاب 'ونڈرنگ اِن بلوچستان '  میں لکھتے ہیں کہ گوادر کے ساحل کو بہت خوبصورت پایا جسے بہت اونچے  سفید چٹان نما پہاڑی  سلسلے نے اپنے حصار میں لے رکھا تھا  ۔گوادر کو 1977 میں ضلع کا درجہ ملا ۔اس کا رقبہ 12637کلو میٹر سکئیر ہےیہ بھی کہا جاتا ہے کہ  گوادر کاعلاقہ قلات کا حصہ تھا ۔

خان آف قلات نے اس علاقہ کو مسقط کے سپرد کردیا اسکی وجہ خان آف قلات کی بیٹی کی شادی تھی جو مسقط کے شہزادے سے ہوئی۔ کہا جاتا ہے کہ خان آف قلات نے یہ علاقہ جہیز میں دے دیا ۔

1958 میں اسے مسقط سے واپس لے کر پاکستان میں شامل کرکیا گیا۔اسکی آبادی 3 لاکھ کے قریب ہے ۔ یہ بلوچ ماہی گیروں پر مشتمل علاقہ ہے جہاں پر لوگوں کو بنیادی ضروریات بھی میسر نہیں ہیں۔یہ آغاز سے ہی بہت بڑی بڑی طاقتوں کی توجہ کا مرکز رہ چکا ہے ۔ لیکن اس سے فائدہ اٹھا نے  کاموقع چین کو ملا ہے جس کے پاکستان کے ساتھ گہرے تعلقات ہیں ۔ چائنہ نے پاکستان کے ساتھ مل کر 46 ارب ڈالر سے' پاک اقتصادی راہ داری منصوبہ' شروع کیا ۔جس کی مالیت اب 57 ارب ڈالر تک پہنچ چکی ہے اور مزید اضافہ ہورہاہے۔

گوادر ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے مطابق اسلام آباد کے بعد گوادر دوسرا ضلع ہوگا جہاں تعمیرات باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت ہونگیں۔ گوادر میں' ایف ڈبلیو او' 6000 ایکڑپر محیط نیو گوادر انٹرنیشنل ائر پورٹ بھی تعمیر کر رہی ہے جس پر تقریباً اڑھائی ارب روپے لاگت آئے گی۔ 'ایف ڈبلیو او'نے1500 کلو میٹرطویل سڑکوں کی تعمیر مکمل کر لی ہے۔جس سے اب سفر بہت آسا ن اور کم وقت میں ہو جاتے ہیں۔اور سڑ کیں بن جانے کی وجہ سے کاروبار میں بھی بہتری آرہی ہے۔46 ارب ڈالر سے شروع ہونے والےسی پیک میں صرف سڑکیں ہی نہیں بلکہ مختلف نو عیت کے بجلی کی پیداوار کے21  منصوبے ،ریل کے 4منصوبے شامل ہیں ۔اس کے علا وہ سی پیک کے تحت ملک میں9 اسپیشل اکنامک زون بھی بنا ئے جا ئیں گے۔                                                   

اس کے پہلے مرحلے میں انرجی سیکٹر اور شاہراہوں کے بعد اب دوسرے مرحلے میں صنعتو ں کے قیام کا عمل شروع ہورہا ہے۔'رائٹرز' کی خصو صی رپورٹ کے مطابق دوسرے مرحلے میں پا کستان میں چین کے تعا ون سے صنعتیں قائم ہوں گؑیں۔ چینی کمپنیاں سیمنٹ،انرجی،ٹیکسٹا یل کے شعبوں میں سر ما یہ کاری کر نا چاہتی ہیں۔چین کے کئی سر ما یہ کار پا کستان میں زمینیں خر ید رہے ہیں۔چین کی آٹو کمپنیاں 'فاو' اور 'فوٹون' سر ما یہ کاری کر نا چا ہتی ہیں۔چینی زبان بولنے والے پاکستانیوں کی مانگ میں اضا فہ ہو رہا ہے۔ ان کی تنخوا ہیں بھی بڑھ رہی ہیں۔چینی کمپنی کے ایک انسور شیم نے پچھلے مہینے9ارب روپے سے پاکستان سٹاک ایکسچینج کے40 فیصدشیرزخریدےہیں۔شنگھائی پاورز ے 1ارب 77کڑوڑ میں 'کے الیکٹرک' خریدنے کا معاہدہ کر چکی ہے۔

                                                                                                                                                  

اگر اس سب  کا جائزہ لیا جائے تو اس میں کو ئی شک نہیں کہ ملک میں با ہر سے بہت زیادہ سر ما یہ کاری آرہی ہےجس سے خو شحالی میں اضا فہ ہو رہا    ہے۔  اسی حوالے سے معروف امریکی جریدے 'وال سڑیٹ 'میں پاکستان کی معا شی تر قی کے حوالے سے کہا گیا ہےکہ پا کستان کی غر بت میں حیران کن کمی اورخو شحالی میں اضا فہ ہوا ہے۔کئی بین الاقوامی کمپنیاں  پاکستان میں سر ما یہ کاری کے معاہدے کر چکی ہیں۔                                                                                                                                                                       

سی پیک پر کام بہت تیزی سے جاری ہےلیکن ایک اعتراض جو سامنے آیا ہے وہ یہ کہ پاکستان کو اس سر مایہ کاری پر منافع اور قرضو ں کی ادایئگی کی مد میں چین کو اگلے 30سال میں' 90 ارب ڈالر' واپس کرنے ہوں گےجو کہ ایک بھاری رقم ہے اس ادایئگی کی وجہ سے پاکستان بہت مشکل کا شکار ہو جائے گا۔                                                                                                                                                                                    

اس کے جواب کے حوالے سے پاکستان کے ایک نامور برو کیج ہاوس ' ٹاپ ٹایم سیکیو رٹی' نے ایک ریسرچ شائع کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں کیو نکہ مختلف منصوبوں میں بہت زیادہ سرما یہ کاری ہورہی ہےجس سے پاکستان کےجی ڈی پی میں اضافہ ہوگاجس سے رقم کی ادئیگی کوئی مشکل نہیں رہے گی۔                                                                                                                           

ہا رورڈ یونیورسٹی کے تجزیہ کے مطابق 2025 تک پاکستان کی اوسط جی ڈی پی گروتھ  5 فیصد سے زیادہ ہوگی۔                                       

 سی پیک کی بڑھتی ہو ئی کامیابی کو دیکھ کر برطانیہ،روس اور سعودیہ عرب کے علاوہ بہت سے ملکوں نے اس میں شامل ہونے کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔                                                                                                                                                                               

اگر حا لات کا جائزہ لیا جائےتو اس بات میں کوئی شک کی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی کہ سی پیک پاکستان کی ترقی کیلئے ایک بہترین منصوبہ ہے بلکہ گیم چینجر ہے۔جس سے پاکستان کی صورتِ حال یکسر تبدیل ہو گئی ہےاور پاکستان کی ترقی اور خوشحالی میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے۔     

فرحان سعید خان جامعہ پنجاب سے ایل ایل بی کی تعلیم

حاصل کرنے کے ساتھ پرائیویٹ میڈیا ہائوس میں سکرپٹ رائٹربھی ہیں

Email : farhansaeedkhan669@gmail.com

مزیدخبریں