اسلام آباد: 14 سالہ ملازمہ پر تشدد کرنے والی خاتون کے شوہر سول جج عاصم حفیظ نے کہا ہے کہ وہ اور ان کا پورا خاندان سفاکانہ میڈیا ٹرائل کا شکار ہے۔ معاملات ایسے نہیں ہیں جیسے میڈیا پر پیش کیے جا رہے ہیں۔ رضوانہ کے جسم پر جو چوٹیں آئیں اس کا فیصلہ وقت کرے گا ۔
اردو ویب سائٹ "وی نیوز" کی زنیرہ رفیع سے بات کرتے انہوں نے کہا کہ جس روز رضوانہ واپس گئی اس صبح میں ناشتہ کررہا تھا اور وہ میرے پاس سے چلتی ہوئی گئی بلکہ شاید اس نے کچھ چھوٹی موٹی چیزیں بھی اٹھا رکھی تھی اور اس کے بازؤں میں کسی قسم کا مسئلہ محسوس نہیں ہو رہا تھا۔
عاصم حفیظ نے کہا کہ میڈیا ہر لمحے مجھے اور میرے خاندان کو وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنا رہا ہے اور ہم تیزی سے مر رہے ہیں۔ کوئی بھی یہ نہیں سوچتا کہ اگر مستقبل میں یہ ثابت ہوجائے کہ ہمارا قصور نہیں تھا جیسا کہ وسیع پیمانے پر پیش کیا گیا تو کیا کوئی ہمارے دماغ، شہرت، سماجی حیثیت اور ہمارے خاندان کے بارے میں عوامی رائے پر لگنے والے وحشیانہ زخموں کا ازالہ کرسکے گا؟
سول جج نے کہا کہ میرے بچے مستقبل میں معاشرے کا سامنا کیسے کریں گے۔ ان کے اسکولوں اور ہر جگہ ان کی کیا حیثیت ہوگی؟ وحشیانہ میڈیا ٹرائل سے بہتر ہے کہ ہمیں ذبح کردیا جائے۔
رضوانہ کے حوالے سے پوچھے گئے سوال پر انہوں نے بتایا کہ ان کی رضوانہ سے کوئی خاص بات چیت نہیں تھی، اسے بہت کم کوئی چیز لانے کو کہا کرتا تھا، کھانا پینا بیوی یا بچوں سے کہہ کر منگواتا تھا۔
رضوانہ کی عمر کے حوالے سے جج عاصم حفیظ کا کہنا تھا کہ اس کے والدین نے بچی کی عمر 16 سے 17 برس کے درمیان بتائی تھی اور اسلام آباد کے قوانین کے تحت 16 سال کی عمر سے بچے کو ملازمت پر رکھا جا سکتا ہے مگر اب وہ بچی کی عمر کم بتا رہے ہیں جبکہ اس بچی کی عمر کا کوئی کاغذی ثبوت بھی نہیں ہے۔
بچی کی حالت کے حوالے سے بات کرتے ہوئے عاصم حفیظ نے بتایا کہ بیچاری ایسے ماحول سے آئی تھی کہ گندی رہتی تھی اور اکثر چہرہ اور سر پر خارش کرتی رہتی تھی جس کی وجہ سے اس کے سر میں زخم بن چکے تھے اور وہ خراب ہو رہے تھے۔ انفیکشن 8 جولائی سے شروع ہوا اور تب سے ہی میں اس کا علاج کروا رہا تھا۔
رضوانہ کے ماہانہ معاوضے کے حوالے سے عاصم حفیظ نے بتایا کہ ’میری بیوی نے اپنی سہیلی کے ذریعہ بچی بلوائی تھی اور 10 ہزار یا اس سے زیادہ رقم اس کے گھر بھیج دیا کرتی تھی۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق سول جج عاصم حفیظ کی اہلیہ کو نفسیاتی مسئلہ ہے، اس حوالے سے انہوں نے بتایا کہ ان کی اہلیہ کے مزاج میں کبھی کبھار سختی آجاتی ہے اور وہ سخت بول بھی لیتی ہے۔ کسی حد تک کہہ سکتے ہیں کہ اسے یہ مسئلہ ہے مگر اس نے مار پیٹ نہیں کی ۔
بچی کے والدین جھوٹا الزام کیوں لگائیں گے؟ اس سوال پر انہوں نے کہا کہ یہ بے اعتبار لوگ ہوتے ہیں۔ یہ یا تو کسی لالچ میں بات کرتے ہیں یا کسی کی ہدایت پر کر رہے ہوتے ہیں، لالچ تو پیسوں کے علاوہ اور کیا ہوگا لیکن ہدایات دینے والے کئی مل جاتے ہیں۔
یاد رہے کہ 24 جولائی کو بچی کی ماں نے جج کی اہلیہ پر بچی پر تشدد کرنے کا الزام لگایا تھا۔ بچی کو اسپتال پہنچایا گیا تو اس کے سر کے زخم میں کيڑے پڑ چکے تھے اور دونوں بازو ٹوٹے ہوئے تھے اور وہ بیحد خوف زدہ تھی۔