تحریر: زینب وحید
مشرق ہو یا مغرب، ہر طرف کلائمٹ چینج کی تباہی ہو رہی ہے۔ مشرق میں تو ماحولیاتی تبدیلی کا شور کافی کم ہے، لیکن اس سے ہونے والی تباہی اور نقصانات کے ازالے کیلئے امداد کے حصول کا رونا زیادہ ہے، مگر دوسری جانب امریکا اور مغرب میں ہر طرف تباہی کی اس جڑ یعنی "کلائمٹ چینج"کا شور سنائی دیتا ہے۔
یورپ ،ایشیا ،شمالی امریکا، افریقہ اور ایشیاء کے بعض علاقے اس وقت شدید گرمی کی لپیٹ میں ہیں۔ برطانوی اخبار میل آن لائن نے عالمی موسمیاتی ادارے ڈبلیو ایم او کے حوالے سے پورٹ شائع کی ہے کہ جولائی میں گرمی کے تمام سابقہ ریکارڈ ٹوٹ گئے اور یہ ایک لاکھ 20 ہزار سال میں سب سے گرم ترین مہینہ تھا۔ 1850 کی دہائی کے بعد سےزمین کو ایسے موسم کا کبھی سامنا نہیں ہوا۔ اس صورتحال پر اقوام متحدہ کے سربراہ انتونیو گوتیرس بھی فکر مند ہیں۔ انہوں نے دنیا پر واضح کیا ہے کہ "گلوبل وارمنگ" کا دورختم اور "گلوبل بوائلنگ" کا دورشروع ہو گیا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ موسمیاتی شدت نے کروڑوں افراد کو متاثر کیا۔ اب تک ریکارڈ کیے گئے تیس گرم ترین دنوں میں سے اکیس دن جولائی کےتھے۔
صرف گزشتہ 12 سے 18 ہفتوں کا ہی جائزی لیں تو ماحولیاتی تبدیلی کے نتیجے میں قدرتی آفات کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔ 2023 کے مارچ اور اپریل کے دوران دنیا کے کئی ممالک میں گرمی کی شدید لہر رہی، ماہ جون میں سمندری طوفانوں نے دنیا کو پریشان کئے رکھا اور جون، جولائی میں سیلاب نے شہروں کا رخ کر لیا۔ ماحولیاتی تبدیلی کی تباہ کاریوں کی نئی لہر نے خطے کو لپیٹ میں لے لیا ہے۔ ہماری سرحدوں کی دوسری طرف، یعنی بھارت اور افغانستان سے آنے والے سیلابوں نے پنجاب اور خیبر پختون خوا کو متاثر کرنا شروع کر دیا ہے۔ 29 جولائی 2023 تک خیبرپختونخوامیں مون سون طوفانی بارشوں سے 15 افراد جاں بحق ہو چکے تھے۔ 95 مکانات کو نقصان پہنچا۔ کئی سڑکیں اورپل بھی سیلابی ریلوں میں بہہ گئے۔ بلوچستان میں مختلف واقعات میں خواتین اور بچوں سمیت دس افراد جاں بحق ہوئے ۔۔ تین سو سے زائد مکانات تباہ ۔۔ مواصلاتی نظام درہم برہم ہوگیا ۔۔ بلوچستان کو سندھ اور پنجاب سے ملانے والی قومی شاہراہ بند کردی گئی۔
انٹرگورنمنٹل پینل آن کلائمٹ چینج (آئی پی سی سی) نے 2015 میں عالمی درجہ حرارت کی حدت 1.5 سے 2 ڈگری سینٹی گریڈ تک رکھنے کے لیے پیرس معاہدے کی سائنسی بنیاد فراہم کی تھی، لیکن اس کے باوجود دنیا نے اس طرف توجہ نہیں دی۔ جس کے سنگین نتائج برآمد ہو رہے ہیں۔
کم آمدنی والے دیگرممالک کی طرح پاکستانی حکام بھی ماضی میں طویل مدت تک اس طرف توجہ نہ دے سکے۔ کلائمٹ چینج سے متعلق کمزور گورننس تو ایک طرف ہم تو ماضی میں اس حوالے سے بروقت اقدامات تک نہ کر سکے اور نہ ہی ہمارے صاحبان اقتدار و اختیار ان نئے خطرات کو پالیسی گائیڈ لائنزیا فوری اقدامات میں ڈھال سکے ہیں۔ اس خطے میں پاکستان ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات کا شکار واحد ملک نہیں بلکہ ہمارے ہمسایہ ممالک خصوصاً چین، بھارت اور افغانستان بھی گرمی کی شدید لہر اور سیلابوں ریلوں کی زد میں ہیں۔
ترقی یافتہ ممالک بھی کلائمٹ چینج کے تباہ کن اثرات سے نہیں بچ سکے اور تباہی کا شکار ہیں۔ جنوبی یورپ شدید ہیٹ ویو کی لپیٹ میں ہے۔ امریکا میں ریاست کیلیفورنیا، کینیڈا اورسائبیریا کے جنگلات میں لگنے والی آگ، براعظم افریقہ اورانتہائی مشرق میں واقع جزیرہ نمامیں خشک سالی کے نئے ریکارڈ قائم ہورہے ہیں۔
کلائمٹ چینج پر کام کرنے والے سائنسدانوں نے تو پیرس معاہدے کے تحت دنیا کو ایک ڈیڈ لائن دی تھی، لیکن انسان کے اپنے تباہ کن اقدامات کے باعث فطرت ہمیں مزید وقت دینے کو تیارنہیں۔ اب نومبرمیں دبئی میں ہونے والی کوپ کانفرنس28 میں بھی سائنس دانوں کی اس وارننگ کی بازگشت شدت کےساتھ سنائی دے گی۔
پاکستان کے لئے بھی یہ فیصلہ کن گھڑی ہے کہ وہ ماحولیاتی تبدیلی کی تباہ کاریوں سے خود کو بچانے کے لئے کیا پالیسی فیصلے کرتا ہے۔ محکمہ موسمیات کے مطابق جون میں پاکستان کے36 شہروں میں بیک وقت درجہ حرارت میں اضافہ اور بارشوں کے نئے ریکارڈ قائم ہوئے ہیں۔ قیامت خیزگرمی یا دیگر وجوہات کے باعث کئی علاقوں میں بجلی کا نظام درہم برہم ہوگیا۔ گرمی کی شدت کے باعث اسکول بند ہو گئے۔ اسپتالوں پر بیماروں کا بوجھ بڑھ گیا اور شہری نظام حکومت نہ ہونے کے باعث میونسپل سروسز تو کہیں نظر ہی نہیں آئیں۔ فیکٹریاں اور دیگر کاروباز بند ہونے سے پیداواری صلاحیت متاثر ہوئی اور زرعی شعبے کو بھی شدید نقصان پہنچا۔
سندھ اور بلوچستان کے بعض علاقوں میں صورتحال کنٹرول سے باہر ہوتی جا رہی ہے۔ جیکب آباد سے تربت تک کئی قصبوں میں حالات ناقابل برداشت حد تک خراب ہوگئے ہیں، لیکن اس کے باوجود کسی ادارے کو اس کا ذمہ دار نہیں ٹھہرایا گیا کہ پہلے ہیٹ ویو سے متعلق ڈیٹا پر نظر کیوں نہیں رکھی گئی؟ اس سے بھی سنگین صورتحال یہ ہے کہ مقامی لوگوں کے تحفظ کے لیے ہمارے ہاں آئیدیل مقامی حکومتوں کا وجود ہی نہیں ہے۔
گرمی کے طویل ہوتے دورانیے کے پیش نظر اسپین کے دارالحکومت اور سب سے بڑے شہر Seville نے درجہ حرارت اور نمی کی سطح کو مانیٹر کرکے ہیٹ ویوز کی پیش گوئی کرنے کے لئے ایک رینکنگ سسٹم تیار کیا ہے۔ اس نظام کے تحت ہیٹ ویوز کو ایک سے تین تک کے پیمانے پر درجہ بند کیا گیا ہے۔ کیٹگری 3 میں ہیٹ ویو سب سے زیادہ شدید ہو گی اور حکومت اپنے شہریوں کے تحفظ کیلئے فوری اقدامات شروع کر دے گی۔ ہم خود پر نظر دوڑائیں تو کراچی میں بھی ایک دہائی قبل ایک ہیٹ ویو مینجمنٹ پلان تیار کیا گیا تھا۔ اب کراچی کے نئے میئر مرتضیٰ وہاب کا فرض ہے کہ وہ اس ہیٹ ویو مینجمنٹ پلان پر عملدرآمد یقینی بنائیں لیکن وفاقی سطح پر پاکستان کو اسپین کی طرح اپنے شہریوں کی زندگی بچانے کے لیے "نیشنل ہیٹ ویو" کے نام سے نظام بنانا ہو گا۔
ہمیں اپنی اس خوش قسمتی پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہیئے کہ حال ہی میں بحیرہ عرب میں آنے والے سمندری طوفان بپر جوائے ساحل سے نہیں ٹکرایا اور کراچی بڑے سانحے سے بچ گیا۔ لیکن یہ بھی سوچنے کا مقام ہے کہ جب سمندری طوفان سر پر تھا تو اُس وقت کراچی میں دو بڑی سیاسی جماعتیں میئر شپ کے لیے ایڑھی چوٹی کا زور لگا رہی تھیں۔ حلانکہ یہ وقت ہنگامی پلان تیار کرنے کا تھا۔ تاکہ خطرناک صورتحال میں لوگوں کے انخلاء کا بندوبست کیا جاتا۔ ڈسٹرکٹ مینجمنٹ اتھارٹیز کو فعال کیا جاتا اور صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹیز کو مقامی حکومتوں کی مدد کرنے کی صلاحیت پیدا کی جاتی۔ کسی بھی موسمیاتی آفت کے خلاف دفاع کی پہلی لائن کوئی اور نہیں بلکہ مقامی گورننس کے ادارے اور کمیونٹی سپورٹ گروپس ہوتے ہیں۔
ہماری حکومتوں کے پاس وسائل اور فنی صلاحیتیں موجود ہیں جن کی مدد سے ہم بڑے پروجیکٹس نہ سہی، لیکن چھوٹے چھوٹے اقدامات کو ترجیح بنا سکتے ہیں۔ یہی چھوٹی چھوٹی کوششیں بڑی لہروں کے سامنے مضبوط دیوارثابت ہوں گی۔ کلائمٹ گورننس میں سرمایہ کاری بھی وقت کی ضرورت ہے۔
حال ہی میں کراچی میں ہونےوالے کلائمٹ مارچ نے بہت اچھا تاثرپیدا کیا ہے۔ مارچ کے شرکاء نے وفاق، سندھ اور کراچی کی شہری حکومت پر زور دیا کہ شہر کو کلائمٹ ریزیلینٹ بنایا جائے اور ایسے منصوبے شروع کئے جائیں جن سے کلائمٹ چینج کے اثرات سے نمٹا جا سکے۔
اب وقت آگیا ہے اور وقت کی ضرورت بھی ہے کہ ہم نیند میں چلنا بند کریں اوراپنی اور آنے والی نسلوں کی حفاظت کے لیے اپنی پالیسیاں اور اقدامات کلائمٹ چینج اور نئی آب و ہوا سے پیدا ہونے والی تبدیلیوں سے ہم آہنگ کریں۔