ہماری قوم کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ تحقیق وتدقیق سے کوسوں دور ہے۔ خوئے جستجو جیسا روگ اِس نے پالا ہی نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم اپنے رَہنماؤں سے بار بار دھوکے کھاتے ہیں لیکن پھر بھی ہم پر ’’کَکھ‘‘ اثر نہیں ہوتا۔ ہمارا دینی علم کا حال اِس سے بھی بدترکہ ہم نے دین کا ٹھیکا علماء کو دے دیا ہے اور خود ہم صرف نام نہاد مسلمان۔ ’’لاڈلے نے کہا کہ جو مجھے ووٹ نہیں دیتا وہ شرک کرتا ہے‘‘۔ گویا 70 فیصد پاکستانی مشرک ہیںکیونکہ 2018ء کے عام انتخابات میں 70 فیصد ووٹ لاڈلے کے خلاف پڑے تھے۔ اب روزِ قیامت بارگاہِ رَبی ہی میں یہ فیصلہ ہوگا کہ کیا مشرک وہ ہے جو درگاہوں میں سجدہ ریز ہوتا ہے یا وہ جو رَبِ لم یَزل کو لاشریک سمجھتا ہے۔
کوئی لاکھ سَر مارے کہ لاڈلا سوائے جھوٹ کے کچھ نہیں بولتا اور پاکستان کی تاریخ میں اُس سے زیادہ کوئی کرپٹ نہیں لیکن لاڈلے کے پیروکارنہیں مانیں گے کیونکہ وہ تحقیق وتدقیق سے عاری ہیں۔ اُن کے نزدیک وہی حرفِ آخر جو لاڈلے کے مُنہ سے نکلتا ہے۔ برطانوی اخبار فنانشل ٹائمز کی رپورٹ میں ایسے ہوشربا انکشافات ہیںکہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ ابراج گروپ کے بانی عارف نقوی نے ووٹن کرکٹ کلب کے ذریعے T-20 میچز کرا کرخیراتی فنڈز اکٹھے کیے۔ اُن میچز کا چیف گیسٹ عمران خاں تھا۔ ابراج کمپنی نے عمران خاں کو 12 لاکھ ڈالر کا چیک پیش کیا۔ اِس کے علاوہ ایک غیرملکی وزیر نے اُنہیں 20 لاکھ پاؤنڈز دیئے۔ شنید ہے کہ 20 لاکھ پاؤنڈز اقتصادی راہداری پر کام رکوانے کے لیے دی گئی اور عمران خاں نے اپنے ساڑھے تین سالہ دَورِ حکومت میں اقتصادی راہداری میں کام رُکوائے رکھا۔ یہی وجہ ہے کہ چین نے پاکستان کو اقتصادی راہداری کے لیے 25 ارب ڈالر دینے کے بعد عمران خاں کے دَورِ حکومت میں باقی 20 ارب ڈالر روک لیے۔
ہمارے آئین میں یہ درج ہے کہ کوئی سیاسی جماعت کسی غیرملکی کمپنی یا حکومت سے فنڈز نہیںلے سکتی۔ یہی نہیں بلکہ یہاں تک پابندی ہے کہ سیاسی جماعت کسی غیرملکی شہری سے بھی فنڈ نہیں لے سکتی۔ فنانشل انٹرنیشنل کی رپورٹ میں مفصل درج ہے کہ عمران خاں نے مَنی لانڈرنگ کے ذریعے کیسے رقوم اکٹھی کیں۔ تحریکِ انصاف کے چیئرمین عمران خاں کی طرف سے یہ رقوم ملنے کی
تصدیق تو کی گئی لیکن کہا گیا کہ اُنہیں رقم کے ذرائع کا علم نہیں۔ یہ رقوم خیرات کے لیے جمع کی گئیں اور پی ٹی آئی کو منتقل کر دی گئیں جس کا تمام ریکارڈ سٹیٹ بینک آف پاکستان میں موجود ہے۔ وزیرِاعظم میاں شہباز شریف نے کہا ’’فنانشل ٹائمز کی یہ تحقیقاتی رپورٹ عمران نیازی کے خلاف سنگین فردِجرم ہے جس نے پی ٹی آئی کی فارن فنڈنگ، غیرقانونی بھاری رقوم کی ترسیل کے حقائق بے نقاب کر دیئے ہیں۔رپورٹ میں بیان کردہ ٹھوس حقائق چیخ چیخ کر بتا رہے ہیں کہ عمران نیازی جھوٹ، تضادات اور منافقت کا پیکر ہے‘‘ ۔ حیرت ہے کہ ایک شخص نہ صرف غیرملکی کمپنیوں اور غیرممالک سے رقوم حاصل کرتا ہے بلکہ اسرائیل اور بھارت کے شہری بھی اُسے فنڈز دیتے ہیں اِس کے باوجود بھی وہ دندناتا پھرتا ہے اور کوئی اُس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ ممنوعہ فنڈنگ کیس 8 سال تک الیکشن کمشن میں دھکے کھاتا رہا۔ خُدا خُدا کرکے جب یہ کیس اپنے اختتام کو پہنچا تو فیصلہ روک لیا گیا۔ اب پتہ نہیں کس خوف کے پیشِ نظر یا کس شخص کے دباؤ پر یہ فیصلہ جاری نہیں کیا جا رہا۔ مریم نواز نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ اگر جلد از جلد فیصلہ جاری نہ ہوا تو الیکشن کمشن کے سامنے دھرنا دیا جائے گا؟۔ کیا الیکشن کمشن دھرنے کے انتظار میں ہے؟۔
رانا ثناء اللہ نے کچھ غلط بھی نہیں کہا۔ حقیقت یہ کہ 2017ء سے جوڈیشل مارشل لاء لگا ہوا ہے۔ اِسی جوڈیشل مارشل لاء کے تحت میاں نوازشریف کو محض ایک اقامہ کی بنیاد پر 28 جولائی 2017ء کو تاحیات نااہل کیا گیا۔ 20 فروری 2018ء کو اُس وقت کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس عمر عطا بندیال اور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل تین رُکنی بنچ نے میاں نوازشریف کو نوازلیگ کی صدارت سے بھی نااہل کر دیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ پارٹی سربراہ اہم ہوتا ہے اور اُسی کے گرد ساری چیزیں گھومتی ہیں اِس لیے نوازشریف کا نام بطور پارٹی صدر 28 جولائی 2017ء سے ختم سمجھا جائے گا۔ پھر 63-A پر17 مئی 2022ء کو چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا فیصلہ آیا کہ کسی منحرف رُکن کا ووٹ شمار نہیں ہوگا۔ یہ صریحاََ غیرآئینی فیصلہ تھا جس پر 5 رُکنی بنچ کے 2 ارکان مظہر عالم میاں خیل اور جمال خاں مندوخیل نے اختلافی نوٹ لکھااور اِس فیصلے کو آئین کو نئے سرے سے لکھنے کی کوشش قرار دیا۔ سابق جسٹس شوکت صدیقی نے لکھا ’’سپریم کورٹ نے 25 ارکان کو ڈی سیٹ کرکے آئین کو ری رائیٹ کر دیا‘‘۔ یہ فیصلہ دراصل حمزہ شہباز کو پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ سے ہٹانے کے لیے کیا گیا تھا۔ جب 25 ارکان ڈی سیٹ ہو گئے تو سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ 17 جولائی کو پنجاب اسمبلی کے ضمنی انتخاب کے بعد 22 جولائی کو دوبارہ انتخاب ہوگا۔ جب 22 جولائی کو پنجاب اسمبلی کا دوبارہ اجلاس ہوا تو مسلم لیگ قاف کے صدر چودھری شجاعت حسین نے ڈپٹی سپیکر کو خط لکھ دیا کہ اُن کی جماعت کے تمام 10 ارکان حمزہ شہباز کو وزارتِ اعلیٰ کا ووٹ دیں گے۔ ووٹنگ کے بعد ڈپٹی سپیکر دوست محمد مزاری نے سپریم کورٹ کے حکم کے عین مطابق قاف لیگ کے 10 ارکان کو نااہل قرار دے دیا کیونکہ اُنہوں نے حمزہ شہباز کے بجائے وزارتِ اعلیٰ کے دوسرے اُمیدوار پرویز الٰہی کو ووٹ دیئے تھے۔ یوں حمزہ شہباز ایک دفعہ پھر وزیرِاعلیٰ بن گئے۔ پھر چشمِ فلک نے دیکھا کہ اُسی رات کو ایک دفعہ پھر عدالت کھُلی اور چودھری پرویز الٰہی کی درخواست کو پذیرائی ملی۔ اگلے دن چیف جسٹس عمرعطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل بنچ نے حمزہ شہباز کو ٹرسٹی وزیرِاعلیٰ بنا کر 26 جولائی تک معاملہ مؤخر کر دیاحالانکہ ٹرسٹی وزیرِاعلیٰ کی آئین میں کوئی گنجائش ہی نہیں۔ 26 جولائی کو اتحادی جماعتوں، ڈپٹی سپیکر، حمزہ شہباز اور بار ایسوسی ایشن نے چیف جسٹس صاحب سے فُل کورٹ بنانے کی استدعا کی لیکن یہ استدعا نامنظور ہوئی اور اِسی مخصوص بنچ نے 27 جولائی کو یہ فیصلہ دیا کہ قاف لیگ کے 10 ارکانِ اسمبلی کے ووٹوں کوشمار کیا جاتا ہے ۔ اِس لیے پرویز الٰہی کو وزیرِاعلیٰ مقرر کیا جاتا ہے جس سے رات ساڑھے 11 بجے تک گورنر پنجاب وزارتِ اعلیٰ کا حلف لیں اور اگر گورنر دستیاب نہ ہو تو صدرِ مملکت حلف لیں۔ حیرت ہے کہ عمران خاں کے خط پر یہی کورٹ 25 ارکانِ اسمبلی کو منحرف قرار دیتا ہے جبکہ چودھری شجاعت حسین کے خط پر 10 ارکان منحرف نہیں ٹھہرتے حالانکہ دونوں ہی اپنی اپنی سیاسی جماعت کے سربراہ ہیں۔ بنچ وہی لیکن دو مختلف اوقات میں ایک ہی کیس کے دو مختلف فیصلے۔ اِسی لیے مریم نواز نے لکھا ’’غلطی کی تو لاڈلے کے حق میں، غلطی درست کی تو لاڈلے کے حق میں۔ کیسے جسٹیفائی کریں گے اِس کھلی بلکہ ننگی ناانصافی کو‘‘۔