وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
”میرے اپنے“ ایک بھارتی فلم ہے جس میں کالج کے طلبا گروپ کالج سے تعلیم مکمل نامکمل کے بعد شہر میں دو متحارب گروپوں میں آپس میں بٹ جاتے ہیں جو لڑتے لڑتے انڈر ورلڈ کی صورت اختیار کر جاتے۔ ایک شتروگھن سنہااور دوسرے کو ونود کھنہ چلا رہا ہے۔ مینا کماری بزرگ عورت ہیں جس کے قریبی رشتہ دار ان سے صرف اس بات کے عوض خانہ داری کی مشقت لیتے کہ ہم آپ کے اپنے ہیں۔ تنگ آکر وہ ان کو چھوڑ کر چلتے پھرتے رزق کی تلاش میں مارے مارے بالآخر شتروگھن سنہا کے پاس پہنچ جاتی ہے جو اس کو پناہ دیتا ہے اور گھرداری کیلئے رکھ لیتا ہے لیکن وہ اس بات کے عوض کام کرنے کو تیار نہیں کہ ہم آپ کے اپنے ہیں لہٰذا معاوضہ طے ہوتا ہے۔ گھر میں کھانے کیلئے دوکاندار کے پاس جاتی ہے جو اس کو راشن نہیں دیتا کہ راشن نہیں ہے وہ واپس آکر شترو کو بتاتی ہے کہ راشن تھا مگر اس نے نہیں دیا۔ شتروگھن سنہا بزرگ میناکماری کو ساتھ لے کر دکاندار کے پاس جاتا ہے اور میناکماری سے کہتا ہے کہ آپ اشیاء کے نام بتاتی جائیں۔ میناکماری دال، چنے، مرچ، ہلدی، چاول، آٹا گویا اشیاء خورنی کے نام بتاتی چلی جاتی ہے۔ دکاندار ہانپتے کانپتے تمام اشیاء اور وہ بھی پیسے کے بغیر دے دیتا ہے۔ شتروگھن سنہا اپنی گردن پر ہاتھ پھیرتا ڈان کے ایکشن میں کھڑا رہتا ہے۔ میناکماری گھر آکر شتروگھن سے کہتی ہے کہ تمہیں شرم نہیں آتی لوگ تم سے ڈرتے ہیں، تمہیں غنڈہ اور بدمعاش سمجھتے ہیں۔ تم داداگیری کے لئے بدنام ہو (یہی میرا وہ نقطہ نظر ہے جو میں آپ کو فلم کے ایک منظر سے بتانا چاہ رہا تھا) شتروگھن سنہا کہتا ہے ”شروع شروع میں شرم آتی تھی مگر پھر یہ میرا تعارف اور اب پیشہ بن گیا“۔ اب میری یہی پہچان ہے اگر یہ ختم ہوتی ہے تو میں ختم ہوتا ہوں، دنیا کی کوئی ماں نہیں چاہتی کہ اس کا بیٹا ڈان بنے مگر جب وہ ڈان
بن جاتا ہے تو پھر اس خاندان کی پہچان اور دفاع کی علامت وہی ٹھہرتا ہے۔ کوئی والدہ نہیں چاہتی کہ اس کی اولاد برے نام کے ساتھ پکاری جائے مگر پھر وہی کام اس کا روزگار اور زندگی کا آسرا بن جایا کرتا ہے۔ کوئی ملک، سرزمین، معاشرت اور معاشرہ نہیں چاہتا کہ اس کا کوئی ادارہ یا شعبہ ناانصافی، زور زبردستی، دھاندلی، ناانصافی، رشوت خوری، بدعنوانی، بے اصولی، جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے راج کے ساتھ ایسی پہچان پا جائے کہ انسانی معاشرے سے ہی باہر نکل جائے۔ جنگل کا قانون بھی قانون کے نام سے پکارا جاتا ہے لیکن جو سرزمین تمدن، ثقافت، آئین، قانون کی حکمرانی سے ہی عاری ہو جائے پھر بدعنوانی، اقربا پروری، ظلم اور غیر انسانی رویے اس کے ہر ادارے، شعبے حتیٰ کہ مجموعی پہچان بن جاتی ہے۔ بدقسمتی سے دھیرے دھیرے ارتقائی منازل طے کرتی ہوئی ہماری معاشرت کی پہچان اب کیا ہے؟ اس کو سب جانتے ہیں۔ اگلے روز جناب حامد خان ایڈووکیٹ نے جناب سردار لطیف کھوسہ ایڈووکیٹ جو آج کل سپریم کورٹ بار کے صدر کا انتخاب لڑ رہے ہیں کی تقریب میں جو تقریر کی اس میں جسٹس منیرسے مسٹر جسٹس گلزار اور مسٹر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ تک کی عدالتی تاریخ دہرا دی۔ جسٹس سیٹھ وقار کا بھی بھرپور ذکر کیا جبکہ سردار لطیف کھوسہ نے ججز کی تقرری، تعیناتی اور 19ویں آئینی ترمیم کو ہدف بنایا۔ دونوں کی تقاریر یوٹیوب پر موجود ہیں۔ ان کی بازگشت تھمی نہ تھی کہ امریکہ کے ادارے نے ہماری عدلیہ کو آڑے ہاتھوں لیا جس کو یوٹیوب اور دیگر ٹی وی چینلز پر زیربحث لایا گیا معروف اینکر اور تجزیہ کار سید عمران شفقت نے اپنے پروگرام میں موضوع بنایا۔ گویا عدلیہ کی بھی ایک اپنی پہچان بن گئی ہے۔ اب وہ زمانے نہیں رہے ہماری مقتدرہ، عدلیہ، پارلیمنٹ سیاسی جماعتوں اور بیوروکریسی کو سمجھنا چاہئے، اب نیکی، بدی، ظلم، انصاف ایسا نہیں کہ جہاں ہو اثرات وہیں منجمد ہو گئے۔ اب وائرل ہوکر چند لمحوں میں پوری دنیا میں موضوع بنتا ہے۔ ہماری ریاست کے کسی بھی ستون کو لے لیجئے اس کی پہچان کیا ہو گئی کوئی ایک ادارہ کوئی ایک شعبہ ایسا نہیں جس کی پہچان پر اس اعتبار سے فخر کیا جا سکے کہ وہ اپنی کارکردگی، ذمہ داری، آئین، قانون، ثقافت کے مسلمہ اور مروجہ اصولوں کے تحت، حلف کے تحت بلکہ حلف تو اب صرف اٹھانے کے لئے رہ گیا ہے اور آئین صرف دوسرے کو قید کرنے کیلئے ہے کیا آج کسی ایک بھی ادارے کی پہچان قابل فخر رہ گئی ہے؟ نیب، ایف آئی اے، پولیس، عدلیہ حتیٰ کہ گورنمنٹ کا ہر ادارہ سیمی ادارہ، نجی ادارہ سوائے چند افراد کے تنزلی کے مراحل طے کرتے کرتے ہم کہاں سے کہاں آگئے اور ایسے نشے میں دھت ہیں، اجتماعی نشے میں کہ کوئی ہوش دلانے والا نہیں رہا۔ الزام، بہتان، جھوٹ، منافقت اور پھر موجودہ حکمران ٹولے کا مسلط ہونا یہ کوئی ایک دن کا قصہ نہیں یہ تنزلی کی طرف باقاعدہ منصوبہ بندی کے ساتھ زیادہ سے زیادہ اختیارات حاصل کرنے کی تگ و دو کے ارتقا سے منزل پائی ہے کہ آج کوئی راہ دکھائی نہیں دیتی۔ خارجہ، داخلہ، تعلیم، صحت، قومی ہم آہنگی، اجتماعی یا انفرادی کچھ بھی تو باقی نہیں بچا سب کا سب ایسی پہچان بن گیا کہ آج ہم حق کو باطل پر ترجیح دینے لگے اور شر کو خیر سمجھنے لگے پہچان کا یہ سفر ہم نے بڑی محنت، بددیانتی، بدنیتی، دھونس اور دھاندلی، کردار کشی اور ناانصافی کی حدود پار کر کے پہچان پائی ہے جبکہ حکم ہے اگر کسی کا پرسیپشن خراب پہچان،تعارف،تاثر خراب ہو تو وہ فوراً درست کرے۔سال کے 12موسم، جاپان جرمنی کی سرحد کا ملنا، ریاست مدینہ اور چائنہ کے نظام کے بعد اسلام آباد کے سیلاب سے اندازہ ہوا ہو گا کہ ”جب زیادہ بارش ہو تو پانی زیادہ آتا ہے“ شاید ہر شعبہ زندگی بالخصوص حکمران طبقوں پر نزاع طاری ہے بقول بیدل
رہیں اوسان قائم وقت آخر غیر ممکن ہے
دم پرواز، بال و پر، پریشان ہو ہی جاتے ہیں