بابائے قوم قائداعظمؒ محمد علی جناح 11ستمبر 1948ء کو یہاں سے ہمیشہ کے لیے چلے گئے۔ ہم نے انہیں کراچی کے ایک کونے میں دفن کردیا۔ ان کی قبر پر چھوٹا سا چبوترا بنایا۔ ساتھ ایک الماری رکھ دی جس میں قائداعظمؒ کے زیراستعمال کچھ اشیاء تھیں اور بس یوں ہم نے یہ فریضہ اپنے کندھوں سے اتار دیا۔ پھر ہم قائداعظمؒ کی قبر کو ویسے ہی بھول گئے جیسے ان کے فرمودات کو آج تک بھولے ہوئے ہیں۔ تاہم ما درِ ملت محترمہ فاطمہ جناحؒ اپنے بھائی اور قوم کے محسن قائداعظمؒ محمد علی جناح کو کیسے بھول سکتی تھیں۔ انہوں نے قائداعظمؒ کو بھی یاد رکھا اور ان کی قبر کو بھی نہیں بھولیں۔ مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناحؒ کی ان تھک کوششوں سے قائداعظم میموریل فنڈ معرض وجود میں آیا۔ اس کمیٹی نے 1952ء میں تجویز کیا کہ قائداعظمؒ کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے ان کی یاد میں چار عمارتیں تعمیر کی جائیں جن میں سے ایک قائداعظمؒ کی قبر کی جگہ پر قائداعظمؒ کا مزار اور دوسری اس سے ملحق ایک مسجد تعمیر ہو۔ تیسرا ایک دارالعلوم مدرسہ ہو جو پنجاب میں قائم کیا جائے اور چوتھی سائنس اور ٹیکنالوجی کی یونیورسٹی اُس وقت کے مشرقی پاکستان میں بنائی جائے۔ یہاں حاشیے کے طور پر ایک غور طلب بات یہ ہے کہ سائنس اور ٹیکنالوجی کی تعلیم کے لیے اُس وقت کے مشرقی پاکستان کو منتخب کیا گیا۔ تاہم اِس تحریر کو فی الحال مزار قائدؒ پر ہی فوکس رکھتے ہیں۔ قائداعظمؒ کے مزار کے نقشے کی تیاری کے لیے حکومت پاکستان نے 1954ء میں ایک ہندوستانی آرکی ٹیکٹ کو سلیکٹ کیا جسے بعدازاں نامعلوم وجوہات کی بنا پر مسترد کردیا گیا۔ اس کے بعد 1955ء میں اس کام کے لیے ترکی کے ایک آرکی ٹیکٹ کو سلیکٹ کیا گیا۔ اس تُرک آرکی ٹیکٹ کو بھی
بعد میں نامعلوم وجوہات کی بنا پر مسترد کردیا گیا۔ ہمارے مزاج اور روایت کے مطابق اندرونی چپقلشوں اور سازشوں کی بنیاد پر قائداعظمؒ کے مزار کے نقشے کی تیاری کا معاملہ بھی تاخیر کا شکار ہوتا گیا۔ پھر ایک اور چال چلی گئی اور حکومت پاکستان نے 1957ء میں قائداعظمؒ کے مزار کے نقشے کی تیاری کے لیے ایک بین الاقوامی مقابلہ منعقد کرایا جس میں برطانوی آرکی ٹیکٹ کو منتخب کیا گیا۔ اُن دنوں کے حکمرانوں کی نیتوں کے فتور، ذاتی نمائش اور خوشامدانہ رویوں نے قائداعظمؒ کے مزار کی تعمیر کو بھی نہ بخشا۔ ان تمام معاملات سے مایوس ہوکر مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناحؒ نے قائداعظمؒ کے مزار کے نقشے کی تیاری کے لیے حکومتی بین الاقوامی مقابلے کو ویٹو کردیا اور قائداعظم میموریل فنڈ کا انتظام خود سنبھال لیا۔ اس کے بعد انہوں نے قائداعظمؒ کے دیرینہ دوست اور بمبئی کے مشہور آرکی ٹیکٹ یحییٰ مرچنٹ کو نقشے کی تیاری کا کام سونپ دیا۔ اسی دوران ملک میں ایوب خان کا مارشل لاء لگ گیا۔ مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناحؒ اور فیلڈ مارشل ایوب خان کے باہمی نظریات سے ہم سب بخوبی آگاہ ہیں۔ ہسٹری کی آنکھیں ہمیشہ اس بات پر پُرنم رہیں گی کہ اُس فیلڈ مارشل ایوب خان نے ذاتی سیاسی مفادات کے لیے بابائے قوم محمد علی جناحؒ کی ہمشیرہ اور تحریک پاکستان کی مایہ ناز رہنما مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناحؒ کو غدار کہا۔ اُس فیلڈ مارشل ایوب خان نے جیسے اقتدار پر قبضہ کیا ویسے ہی اپنے نام کی تختی لگانے کے لیے قائداعظمؒ کے مزار کے کام پر بھی قبضہ کرلیا اور آج ہی کے دن یعنی 31جولائی 1960ء کو قائداعظمؒ کے مزار کا سنگ بنیاد رکھا۔ پہلی ستم ظریفی دیکھیے کہ دنیا کا وہ عظیم جمہوری رہنما جس نے ایک گولی چلائے بغیر عوام میں جمہوری شعور پیدا کرکے ایک ملک حاصل کیا اُس کے مزار کا سنگ بنیاد ایک مارشل لاء ڈکٹیٹر نے رکھا جبکہ 11برس کے بعد مزار کا افتتاح دوسرے مارشل لاء ڈکٹیٹر جنرل یحییٰ خان نے 18جنوری 1971ء کو کیا۔ ستم بالائے ستم کہ اُس عظیم قائدؒ کی عظیم ہمشیرہ مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناحؒ مزار قائدؒ کے سنگ بنیاد اور افتتاح جیسے دونوں اہم مواقع پر موجود نہیں تھیں۔ مزار کے سنگ بنیاد کے وقت تو انہیں ڈکٹیٹر ایوب خان نے اِس اہم تقریب میں نظرانداز کیا جبکہ مزار کے افتتاح کے موقع پر دوسرے ڈکٹیٹر جنرل یحییٰ خان کو انہیں نظرانداز کرنے کی ضرورت ہی نہیں پڑی کیونکہ مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناحؒ بدنیت حکمرانوں سے تنگ آکر 9جولائی 1967ء کو اپنے عظیم بھائی سے جاملی تھیں۔ اب تیسری ستم ظریفی دیکھیے کہ بابائے قوم محمد علی جناحؒ کی وفات جن حالات میں ہوئی اُن پر اب تک تو سوالیہ نشان ہے ہی محترمہ فاطمہ جناحؒ کی وفات کو بھی بعض محققین قتل کے مبینہ شبے میں دیکھتے ہیں۔ اس سے بڑھ کر یہ کہ اُس وقت کے بدنیت حکمرانوں نے کوشش کی کہ محترمہ فاطمہ جناحؒ کی تدفین ان کے عظیم بھائی قائداعظمؒ محمد علی جناح کے مزار کے احاطے میں نہ ہو لیکن عوام کے غیظ و غضب کے باعث ڈرپوک ڈکٹیٹر ہار گئے اور عوام کے جم غفیر نے مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناحؒ کو ان کے عظیم بھائی قائداعظمؒ محمد علی جناح کے مزار کے احاطے میں ہی سپردخاک کیا۔ قائداعظمؒ محمد علی جناح کے مزار کا سنگ بنیاد 31جولائی 1960ء کو رکھا گیا اور آج 31جولائی 2021ء ہے۔ اس دوران 61برس بیت گئے لیکن قائداعظمؒ کے مزار کے اشک پونچھنے کوئی نہیں آیا۔ مزار قائدؒ کے بہتے آنسو اب بھی قوم سے بہت سے سوال کررہے ہیں۔