پاکستان میں افغان مہاجرین کے حقوق: حقیقت یا افسانہ؟

پاکستان میں افغان مہاجرین کے حقوق: حقیقت یا افسانہ؟

اسلام آباد: پاکستان کی غیر قانونی تارکین وطن سے متعلق پالیسی عالمی اصولوں کے مطابق ہے اور اس کا مقصد ملک کی سلامتی، معیشت اور خودمختاری کو یقینی بنانا ہے۔ کوئی بھی ملک غیر معینہ مدت تک غیر قانونی تارکین وطن کی میزبانی کرنے کا پابند نہیں ہو سکتا، اور پاکستان نے اسی تناظر میں قانونی اور منصفانہ اقدامات کیے ہیں۔

پاکستان کا غیر قانونی تارکین وطن کی ملک بدری کا حق ایک خودمختار حق ہے، جو کہ سیکیورٹی خطرات، معاشی تناؤ اور قانونی نظام کی مضبوطی کے پیش نظر استعمال کیا جا رہا ہے۔ اس پالیسی پر پاکستان کو غیر ضروری اور غیر متناسب تنقید کا سامنا ہے، حالانکہ امریکہ اور دیگر مغربی ممالک بھی اپنے قومی مفادات اور سلامتی کے لیے اسی طرح کی پالیسیاں اختیار کرتے ہیں۔ خاص طور پر، امریکی حکومت نے اپنے نئے انتظامیہ میں ہزاروں افراد کو قومی سلامتی کے خدشات کے تحت ملک بدر کر دیا ہے، لیکن پاکستان کو اسی نوعیت کی پالیسی پر تنقید کا سامنا ہے۔

پاکستان کی افغان مہاجرین کی میزبانی میں دہائیوں سے جاری فراخدلی کو نظرانداز کیا جاتا ہے، حالانکہ پاکستان نے کبھی بھی قانونی طور پر پناہ گزینوں کو ایڈجسٹ کرنے یا قانون سازی کرنے کی کوئی ذمہ داری نہیں اٹھائی۔ 1951 کے اقوام متحدہ کے پناہ گزین کنونشن کا دستخط کنندہ نہ ہونے کے باوجود، پاکستان نے افغان شہریوں کو خیر سگالی کی بنیاد پر پناہ دی ہے۔

مزید یہ کہ، یو این ایچ سی آر نے پاکستان کی اجازت کے بغیر ہزاروں پناہ گزینوں کو رجسٹر کیا، جس سے پاکستان کی خودمختاری متاثر ہوئی۔ امریکہ اور برطانیہ جیسے بین الاقوامی ادارے بھی اس عمل میں رکاوٹ بنے ہیں، جس سے غیر ضروری تاخیر ہوئی۔ ان عالمی اداروں کے انسانی حقوق کے واچ ڈاگ پاکستان پر دباؤ ڈالنے کے باوجود، وہ خود افغان مہاجرین کی ذمہ داری لینے سے گریز کرتے ہیں۔ اگر مغرب کو حقیقت میں افغانوں کے بارے میں فکر ہے، تو اسے یہ توقع رکھنی چاہیے کہ پاکستان تنہا ان بوجھ کو نہیں اٹھا سکتا۔

پاکستان کے حفاظتی اقدامات افغان مہاجرین کے خلاف دشمنی نہیں بلکہ ضرورت ہیں، جیسا کہ کراچی میں 30 جنوری 2025 کو 225 افغان افراد کو سٹریٹ کرائمز کے الزام میں گرفتار کیے جانے اور پشاور میں جرائم میں 30% اضافے جیسے حالیہ واقعات سے ظاہر ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ، پشاور کے کریک ڈاؤن میں 352 افغان مجرموں کی گرفتاری اور ژوب میں ایک افغان عسکریت پسند کی ہلاکت جیسے واقعات بھی اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ پاکستان کو اپنے داخلی تحفظ کے لیے سخت اقدامات کرنا ضروری ہیں۔

مصنف کے بارے میں