اس وقت معاشی صورتحال انتہائی خوفناک دکھائی دے رہی ہے، ڈالر ایک ایک دن میں 24،24روپے بڑھ رہا ہے، پٹرول 30سے 35روپے بڑھ رہا ہے، ضرورت کی اشیا مہنگی سے مہنگی ترین ہوتی جا رہی ہیں، ہر امپورٹڈ چیز پہلے سے دوگنا ہو رہی ہے۔غربت میں 13فیصد تک اضافہ ہو چکا ہے، یعنی خط غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے والوں کی تعداد میں 60لاکھ خاندانوں کا اضافہ ہوچکا ہے۔ لوگوں کے پاس پرتعیش لائف تو ایک طرف روکھی سوکھی کھا کر بھی گزارا کرنا ناممکنات میں سے ایک ہے۔ مگر حد تو یہ ہے کہ صورتحال کہیں سے بہتری کی طرف جاتی بھی دکھائی نہیں دے رہی۔ اس کا الزام آپ سابقہ حکومت پر لگائیں یا موجودہ حکومت اس کی ذمہ داری لے مگر یہ بات تو طے ہے کہ ملکی حالات خاصے بگڑ چکے ہیں۔ کہتے ہیں کہ سری لنکا تین ماہ پہلے ڈیفالٹ کر چکا تھا لیکن اس کا اعلان تین ماہ بعد کیا گیا۔ ڈیفالٹ کے بعد عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) نے بیل آؤٹ پیکیج دینے کیلئے شرط عائد کی کہ سری لنکا دفاعی بجٹ میں کٹوتی کرے اور فوج کا حجم کم کرے۔ یہ بھی خبریں آئیں کہ سری لنکا کی فوج کو نصف کرنے کا فیصلہ ہو گیا ہے۔ اس فیصلے پر عمل درآمدکیلئے سری لنکا کی حکومت نے پہلے مرحلے میں فوجی اہلکاروں کی 16000 (سولہ ہزار) اسامیوں کو ختم کر دیا ہے اور نئے بجٹ میں ان کیلئے پیسے بھی نہیں رکھے ہیں۔ حکومت نے فوج میں رضاکارانہ ریٹائرمنٹ کی سکیم بھی دی ہے تاکہ دفاعی اخراجات کم کئے جا سکیں۔ ان اقدامات کے باوجود آئی ایم ایف سے ابھی تک ڈیل نہیں ہوئی ہے۔ آئی ایم ا یف کو خوش کرنے کیلئے شاید سری لنکا کو مزید اقدامات کرنا پڑیں گے۔
پاکستان کی صورتحال بھی یہی ہے، بہت سے اقدامات کرنے کے باوجود اسحاق ڈار ابھی تک آئی ایم ایف سے کامیاب مذاکرات کی نوید سنانے سے قاصر ہیں۔ لیکن اسی اثنا میں عوام کا کوئی پرسان حال
نہیں ہے، اور معذرت کے ساتھ ابھی تک پاکستان کو صحیح قیادت ہی نصیب نہ ہو سکی۔ آپ تاریخ کے اوراق پلٹ کر دیکھ لیں بہت سے لیڈروں نے اپنی قوم کا مقدر بدل کر رکھ دیا۔ حریت پسند رہنما نیلسن مینڈیلا 28سالہ قیدسے رہائی کے بعد اپنے وطن لوٹا تو اْس نے سب سے پہلے اپنے دشمنوں کو معاف کیا اور عوام سے مخاطب ہو کر وعدہ لیا کہ ”جو میں مانگوں گا،وہ آپ مجھے دو گے“۔ عوام کا خیال تھا کہ نیلسن مینڈیلا اپنے یا اپنے بچوں کیلئے کچھ مانگے گا لیکن اْس نے عوام سے ایک ہی بات کی خواہش ظاہر کی اور کہا ”عوام عہد کریں کہ آج کے بعدکبھی جھوٹ نہیں بولیں گے۔“یوں انہوں نے ملک کو سنبھالا پھر اقتدار ایک ذمہ دار شخص کے حوالے کرکے علیحدہ ہو گئے۔ بانی ِ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح اپنی وفات سے قبل اپنا کل اثاثہ ملک و ملت کے نام وقف کر گئے۔ماؤزے تنگ نے عوام سے وعدہ لیا کہ وہ آئندہ جوتے نہیں پہنیں گے“۔ اور پھر اس پر خود عمل کیا، ماؤزے تنگ نے چین کو ترقی کی معراج پر پہنچا دیا، جواہر لال نہرو نے سب شاہانہ ٹھاٹھ باٹھ ختم کر کے کھدر کے کپڑوں میں سادہ زندگی بسر کی۔ اور عوام کی خدمت کی،امام خمینی نے کبھی اقتدار کی آرزو نہ کی بلکہ ایک حجرے میں بیٹھ کر اپنی اسلامی و انقلابی سوچ کو اپنا کر ایران کے عوام کی عزت وقار کو بحال کیا۔یہی وجہ ہے کہ ان قائدین کے نام تاریخ میں امر ہو چکے۔ اسی طر ح کئی ممالک کے لیڈروں نے خودسے زیادہ قوم کی ترقی وخوشحالی کو مقدم جانا اور اپنے عوام کی تقدیر بدل ڈالی۔
اس کے برعکس ہمارے بیشتر سیاستدانوں نے قوم کے مسائل حل کرنے کے بجائے محض حصول اقتدارکو مطمع نظر بنایا، اپنی اور اپنے بچوں کی زندگی سنوارنے پر توجہ دی۔ دیکھا جائے تو ہمارے ملک کو اللہ تعالیٰ نے بے شمار نعمتوں سے نواز رکھا ہے۔اللہ کے کرم سے پاکستان کے پاس 1500کلومیٹر رقبے پر مشتمل سمندر ہے، صحرا، پہاڑ اور میدان بھی موجود ہیں۔ہماری خوش قسمتی ہے کہ ہمارے ہاں چار موسم بھی ہیں۔ یہ وہ نعمتیں ہیں کہ جن کے ذریعے ہم پاکستان کو مضبوط اور خوشحال بنا سکتے ہیں لیکن المیہ یہ ہے کہ ان سب کے باوجود پاکستان کی معیشت اس وقت شدیدمعاشی و اقتصادی بحران سے دوچار ہے اورملک کسی بھی وقت ”ڈیفالٹ“ ہونے کے خطر ے سے دوچار ہے۔قوموں کے عروج و زوال پر نظر رکھنے والے ایک ادارے ”ورلڈ اکنامک فورم (WEF)“نے پاکستان کے بارے میں جاری کردہ ”گلوبل رسک رپورٹ 2023“ میں درج ذیل10خطرات کی نشاندہی کی ہے جو اگلے2سال میں پاکستان کو درپیش ہوسکتے ہیں۔ روزگار اور معاشی بحران، قرضوں کا بحران، توانائی کا بحران، دہشت گردوں کے حملے، بین الملکی تنازع، سوشل میڈیا کا غلط استعمال، زمینی حیاتیاتی تنوع کا نقصان اور ماحولیاتی نظام کا خاتمہ، صحت و تعلیمی سہولتوں کافقدان، افراطِ زر، ریاست کا خاتمہ۔ فورم نے جن خطرات کی نشاندہی کی ہے ان کو نظر انداز کرنا سراسر نادانی ہے مستقبل قریب میں ہم ایسے معاشی و اقتصادی بحران سے دوچار ہو سکتے ہیں جس کی وجہ سے مہنگائی، کساد بازاری اور افراتفری پیدا ہونے کا احتمال ہے۔ جبکہ ہمارے سیاستدان اپنے اقتدار کی جنگ، ذاتی مفادات کے حصول، اپنی اولادوں کے روشن مستقبل،ہارس ٹریڈنگ اور یو ٹرن جیسی سیاست میں الجھے ہوئے ہیں۔
لہٰذاضرورت اس امر کی ہے کہ سیاستدان، مقتدرہ قوتیں اور عوام مل کر ملک کو بچائیں جو خانہ جنگی کی طرف جا رہا ہے، اب بھی وقت ہے کہ ہم ہوش کے ناخن لیں، ملکی بقا اور سلامتی کا تقاضا ہے کہ تمام سٹیک ہولڈرز ذاتی مفادات کو پس پشت ڈال کر معیشت کی بحالی اورقوم کو غیروں کی غلامی سے نجات د لانے کیلئے مشترکہ حکمت عملی ترتیب دیں۔ کیونکہ مضبوط اور خوشحال پاکستان ہی ہماری بقا کی ضمانت ہے۔ ورنہ
ہماری داستاں تک نہ ہو گی داستانوں میں