حکیم الامت حضرت علامہ اقبالؒ کے کلام پر لکھے گئے مضامین، فکری و تحقیقی مقالوں اور کتب کی تعداد کا شمار ممکن نہیں لیکن قدرت کی طرف سے ملنے والی فراوانی ِ خیال اور سرفرازی ِ تدبر کا عالم دیکھئے کہ ان کی فکر و فلسفے کے خزانے زمینی خزانوں کی طرح جاری و ساری ایسے مظاہر ثابت ہوئے ہیں کہ ان کے احاطے کی تکمیل ممکن نظر نہیں آتی۔ وہ کونسا تعلیمی ادارہ ہو گا جس میں کلام اقبال کی قرأت نہ کی جاتی ہو۔ ہمارا قومی میڈیا، اخبارات، رسائل و جرائد آپ کے افکار کے پرچار میں ہمیشہ ایک دوسرے سے آگے نظر آتے ہیں۔ حکمران کوئی بھی رہا ہو ہر مناسب موقع پر مزار ِ اقبال پر اس کی حاضری یقینی بنائی جاتی رہی ہے۔ ہر متعلقہ ادارے میں یوم اقبال پوری ذمہ داری سے منایا جاتا ہے۔ لیکن اگر ہم ایک لمحے کے لیے غور کریں کہ فکر اقبال کے آئینے میں بطور ملک و ملت ہمارا عکس کیسا نظر آتا ہے تو دوسرے ہی لمحے ہم اس نتیجے پر بھی پہنچ جائیں گے کہ ہمارے انفرادی و اجتماعی خد و خال کی ہلکی سی شباہت بھی فکر ِ اقبال پر نہیں ہے۔ جس کی بنیادی وجہ واعظ، تعلیم اور تربیت کے درمیان بعد ہے۔ واعظ اس وقت تک موثر نہیں ہو سکتا جب تک اس کے اندر حقیقی علم کی روشنی موجود نہ ہو، علم اس وقت تک حقیقی علم ثابت نہیں ہوتا جب تک کردار سے ظاہر نہ ہو اور کردار بغیر تربیت کے بے مہار اونٹ اور بے لگام گھوڑے کی طرح ہوتا ہے جس کے پاس درست سمت کا ادراک نہیں ہوتا۔ یہ وہ بنیادی عوامل ہیں جن کے باعث ہم فکر ِ اقبال پر تحقیق میں بہت آگے اور تفہیم میں کہیں بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔ ہمارے اکثر ماہرین ِ اقبال اور مدرسین تشریح کو تفہیم سمجھتے ہوئے پورے خلوص کے ساتھ نتائج دیکھے بغیر مسلسل تقریر پر تقریر اور مقالے پر مقالہ تحریر فرماتے جا رہے ہیں اور افکار ِاقبال پر کسی بھی کانسیپٹ، تھیوری یا لائحہ عمل کی تعمیر اور بیان میں امپیکٹ سٹڈی جیسے اہم ترین پہلوؤں کو نظر انداز یا فراموش کیے ہوئے ہیں۔
اس سارے قضیے میں اگر صرف محقیقین، واعظین اور مدرسین کو ہی قصور وار قرار دیں تو یہ اس سے بھی بڑی زیادتی اور ظلم ہو گا کیونکہ پس ِ پردہ جو قوتیں متحرک ہیں وہ ان سے بھی زیادہ موثر، منظم اور ریسورس فل ہیں۔ لطف کی بات یہ ہے کہ اقبال اپنی شاعری اور خطبات میں ان طالع آزما قوتوں کی نشاندہی بھی کر چکے ہیں اور بار بار ان سے خبردار بھی کرتے نظر آتے ہیں۔ فرنگی، مغربی دانش، سرمایہ دارانہ نظام، حکمران طبقہ، ملائیت، تجارتی تصوف اور بنیاد پرست مجتہدین۔
علامہ کی فکر و فلسفے کا اگر بہت فوکسڈ مطالعہ کیا جائے تو ایک ایسے مربوط اور منظم نظریے کا شعور ملتا ہے جس کی بنیاد قرآن کی روح، علم الکلام کی جدید تعبیر اور ترقی پسند سوچ پر قائم نظر آتی ہے۔ ایسا نظام ِ حکومت، ایسی امت اور ایسی ریاست کا تصور جہاں انسانی انفرادی آزادی آئین الٰہی کے حسن حریت سے معمور، حکومت ذمہ داری کے جذبے سے سرشار اور جوابدہ، اجتماع انسانی اقدار کی پاسداری میں سرخرو ہو اور معاشرہ انسانی احساس کی ہم آہنگی سے منور ہو۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حکیم الامت کی تیس سال کی محنت اور صدیوں پر محیط بصیرت کے بظاہر شبانہ روز پرچار کے بعد ہم نے کیا حاصل کیا۔
علامہ اقبال نے جس مثالی اسلامی ریاست کا خواب دیکھا تھا وہ ریاست وجود میں بھی آ گئی لیکن کیا کبھی کسی محدود ترین مدت کے لیے ہی سہی وہ خد و خال حاصل کر پائی جس کا تصور علامہ کے افکار میں ملتا ہے۔ آج اس ریاست کو وجود میں آئے پچھتر سال ہو چکے ہیں، ہم نہ تو مومن بن سکے نہ امت۔ جتنے بھی حکمران آئے اپنی اپنی ڈفلی بجا کر چلتے بنے یا نئی ڈفلی والوں نے انہیں وہیں واپس بھیج دیا جہاں سے آئے تھے۔ وہ فرنگی اور وہ مغربی دانش جس سے محتاط رہنے اور گریز اختیار کرنے کا سبق علامہ نے دیا تھا ہم نے اسی کے ہاتھوں سیاسی و سماجی اور انفرادی و اجتماعی خودی بیچ دی۔ یہاں آج تک جتنے حکمران آئے سب نے خود کو ظل ِ الٰہی اور عامۃ الناس کو اپنی رعایا سمجھا۔ مُلا نے اجتہاد تو کیا کرنا تھا جہاد بھی وہی اختیار کیا جو اسلامی تھا نہ قومی۔ خانقاہی نظام پیسے کے اردگرد ہی گھوم کر رہ گیا اور بڑے سرمایہ دار نے ہر جگہ چھوٹے چھوٹے سرمایہ دار مسلط کر کے پورے معاشرے کو۔۔۔ جس نے اسلامی معاشرہ بننا تھا۔۔۔ کنزیومر معاشرہ بنا کر رکھ دیا۔ اقبال کے خواب کی اس سے زیادہ توہین اور کیا ہو سکتی ہے کہ پوری ریاست سود پر لیے ہوئے قرضوں میں جکڑی ہوئی ہے اور ہمارا حال غلاموں سے بھی بدتر ہے۔ حتیٰ کہ تعلیمی ادارے تجارتی تعلیمی اداروں میں اور علاج گاہیں کاروباری ہسپتالوں میں بدل گئی ہیں۔ یونیورسٹیوں اور کالجوں کے حالات اس ابتری سے بھی زیادہ نیچے گر چکے ہیں جس کا اشارہ علامہ نے اپنے کلام میں کیا ہے۔ اساتذہ اور درسگاہوں سے علامہ کی مایوسی پہلے ہی دن سے تھی لیکن کیا ہم نے کبھی اس بگاڑ کو سنوارنے کی کوشش کی؟
اب سوچ اس سوال پہ آ کے ٹھہر جاتی ہے کہ پھر کیا کیا جائے۔ کیا مایوس ہو کر خاموش ہو جایا جائے، امید چھوڑ دی جائے اور اسی طرح ڈنگ ٹپاؤ رویہ اپنا لیا جائے اور جیسے آج تک چلتا آیا ہے اسی طرح چلنے دیا جائے۔ ہرگز نہیں بلکہ از سرِ نَو کمر بستہ ہونا ہی ہر بالغ نظر اور صاحب ِ عمل کی شان ہے۔ لہٰذا امید کا دامن ہاتھ سے چھوڑ نے کے بجائے علامہ کے افکار کی روح کو اپنی روح میں اتار کے باقاعدہ مشن سمجھتے ہوئے اپنی اپنی جگہ ایک ایک فرد پر کام کیا جائے۔
اگر دیکھا جائے تو خود سے آغاز کرنا مشکل ہونے کے باوجود ناممکن ہرگز نہیں ہے۔ صاحبان ِ بصیرت ماہرین اقبال اپنے مقالوں کی نئی سمت متعین کریں اور ان اسباب و علل کی نشاندہی کریں جو علامہ کے افکار کے اطلاق کے رستے میں رکاوٹ ہیں اور صاحبان احساس مدرسین علامہ کی فکر و فلسفے کو مدِ نظر رکھتے ہوئے نئی نسل کی تربیت کو ترجیحی بنیادوں پر تعلیم کا حصہ بنائیں۔ ارباب اختیار کو چاہیے کہ وہ جہاں جہاں ممکن ہو سکتا ہے انصاف مہیا کرنے کے ساتھ ساتھ قوم کی مزاج سازی کے عمل میں ایک دوسرے کی معاونت کریں۔ تعلیمی نصابوں میں درپردہ کارفرما اس زہر کا تریاق ڈھونڈیں جو ہماری نسلوں سے تجزیاتی فکر کے عناصر چھین کر ان کو لکیر کا فقیر بنا رہا ہے۔ قوموں کی تعمیر کا عمل سال نہیں بلکہ صدیوں پر محیط ہوا کرتا ہے۔ اس لیے مایوس ہوئے بغیر تعمیری جد و جہد کو تسلسل سے جاری رکھنا ہو گا۔ سماجی، اخلاقی، دینی، سیاسی اور اقتصادی زوال کی وہ کونسی پستی ہے جو ہم ہر سطح پر بھگت نہیں چکے۔ نظام فطرت یہی بتاتا ہے کہ ہر عروج کو زوال اور ہر زوال کو عروج ضرور نصیب ہوتا ہے اور اب ہمارے عروج کا سفر کسی بھی لمحے کہیں سے بھی شروع ہو سکتا ہے۔ بہتر یہی ہے کہ ہم ارادہ کریں اور درست سمت کی طرف قدم اٹھائیں۔ عہد ِ موجود میں اگر صرف نظام تعلیم ہی علامہ اقبال کے ویژن کے مطابق ڈھال لیا جائے اور صرف اساتذہ یہ ارادہ کر لیں کہ پہلے ہم خود کو بدلیں اور پھر طلبا کی روحوں میں فکر اقبال کے بیج بونے ہیں تو یہی قوم جسے آج ہم ایک بھٹکی ہوئی کمزور قوم سمجھ رہے ہیں کل ایک عظیم قوم بن کر دنیا کے سامنے جگمگاتے ہوئے سورج کی طرح طلوع ہو گی۔ ہر سفر کا آغاز پہلے قدم سے اور منزل تک رسائی مسلسل قدم بڑھانے سے ہوتی ہے۔