تحریک انصاف کی حکومت روز اول سے،بیڈ گورننس اور بے دلی گورننس کا شکار ہے، عوام مہنگائی اور بدا نتظامی کی چکی میں پستے آ رہے ہیں،بہتری کی امید میں ایک کے بعد ایک دن گزرتا رہا مگر اب تو لوگ بے حال ہو گئے ہیں ، انتظامی سسٹم کی طرف سے مختلف مکاتب فکر کے طبقات کو جو ریلیف ملنا تھا وہ بھی نظر نہیں آرہا سب سے بڑا صوبہ پنجاب ،اس کا نظام چلانے والی بیوروکریسی اور انتظامیہ بھی مختلف بحرانو ں سے دوچار رہی اور اب تو اس کا وجود ہی بے معنی ہو چکا ہے ،جب نظام چلانے والے خود لاوارث اور بے سمت ہوں تو وہ عوام کو کیا ریلیف فراہم کر سکیں گے،وزیر اعلیٰ عثمان بزدار جب آئے تو مناسب تجربہ کے حامل نہ تھے مگر انہوں نے بہت کچھ سیکھ لیا ، کچھ چیف سیکرٹریوں کے مشورے سے بد گمان،ناراض اور خوف سے دوچار بیوروکریسی کی ڈھارس بندھانے کی کوشش کی ، انہیں کام کرنے پر آمادہ کیا ورنہ نیب کے کچوکوں اور تبادلوں کی زد پر بیوروکریسی ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھی ہوئی تھی،جائز اور قانونی کام کرتے ہوئے بھی خوف و ہراس کا شکار رہتی، نیب کی تلوار بیوروکریسی کی گردن سے ہٹائی،کارکردگی کو سراہا،تحفظ کا احساس دلایا تب جا کر انتظامیہ نے کروٹ بدلی اور انتظامی امور کی تھوڑی بہت انجام دہی دکھائی دینے لگی ،صوبے میں بار بار چیف سیکرٹری بھی بدلے گئے ،پانچ ماہ پہلے پنجاب میں کامران علی افضل کو چیف سیکرٹری تعینات کیا گیا،جن کی تعیناتی کے بعد امید پیدا ہوئی تھی کہ انتظامی امور بہتر ہو جائیں گے مگر اب یہ امید بھی دم توڑنے لگی ہے ،انتظامی چال پہلے سے زیادہ بے ڈھنگی ہو گئی ہے ،مجھے تو اب سول سیکرٹریٹ کا وجود ہی بے معنی سا لگتا ہے ہاں اس کے مقابلے میں ایوان وزیر اعلیٰ پہلے سے زیادہ مضبوط ہو گیا ہے جو کوئی بری بات نہیں مگر سول سیکرٹریٹ زیرو ہو جانا بہت ہی بری بات ہے۔جب اعلیٰ افسران چیف سیکرٹری آفس کے بجائے وزیر اعلیٰ آفس کی جانب دیکھنا شروع کر دیں تو انتظامی معاملات خرابی کی طرف بڑھنے لگتے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ چیف سیکرٹری اپنی ذات کی حد تک ایک بہترین اور نستعلیق افسر ہیں،ان کی ایمانداری ، ذاتی قابلیت اور مالی معاملات کی سمجھ بوجھ پر کوئی دو رائے نہیں مگر کامران افضل اب تک صوبہ اور صوبائی بیوروکریسی کے لئے کوئی تبدیلی نہیں لا پائے ، چیف سیکرٹری کی کوئی ٹیم ہی نہیں سوائے چند لوگوں کے جو انہیں سب اچھا بتا رہے ہیں باقی لوگوں کو وہ اعتماد دے سکے نہ کوئی ٹاسک اور نہ ہی انہوں نے ٹیم بنانے کی کوشش کی یوں لگتا ہے جیسے وہ ٹائم گزار نے کے لئے اپنی ذمہ داریاں بے دلی سے نبھا رہے ہیں،انتظامیہ از خود ایک منظم تجربہ کار اور منجھی ہوئی ٹیم ہوتی ہے،سیانے افسر اسی دستیاب ٹیم کو بروئے کار لا کر نتائج حاصل کرتے ہیں،تاہم کہیں کوئی تبدیلی کرنا مقصود بھی ہو تو چھان پھٹک کے بعد کی جاتی ہے مگر بد قسمتی سے وہ دستیاب بیوروکریسی کو بھی ایکٹو کر کے اس سے کام نہ لے سکے نتیجہ انہوں نے کیا دینا تھا وہ تو معمول کے کام لینے سے بھی قاصر دکھائی دئیے، میری نظر میں اسکی ایک اہم وجہ ڈاکٹر کامران افضل کی پنجاب کے حالات ،یہاں کے افسران،عوام کے مزاج سے ناآشنائی ہے۔اگر آپ نے پنجاب میں مختلف اہم پوسٹوں پر کام ہی نہ کیا ہو،آپ کا تجربہ ہی نہ ہو تو آپ کا ڈلیوری سسٹم بہترین نہیں ہو سکتا۔ آج جس صورتحال سے صوبہ دوچار ہے اور جس چیلنج کا حکومت کو سامنا ہے، اس کے تقاضے کچھ اور ہیں ، عام انتخابات سر پرآرہے ہیں اورآخری سال الیکشن کی تیاری کے ہوتے ہیں عوام کو راضی کرنے کی کوشش کی جاتی ہے،ان کے کام کئے جاتے ہیں، مگر محسوس ہوتا ہے کہ عوام کو انتظامی سطح پر کوئی ریلیف ہی نہیں مل رہا اور حکومت کو ان کی مشکلات کا کوئی اندازہ بھی نہیں، سمجھ میں نہیں آرہا کہ تحریک انصاف کس منہ سے اور کیا کارکردگی لے کر انتخابی مہم میں اترے گی،عوام کو ریلیف دینا تو دور کی بات حکومت تو گزشتہ الیکشن میں عوام سے کئے وعدے پورے نہ کر سکی اور اس کے ذمہ دار ٹاپ انتظامی افسر بھی ہیں جو خود کچھ کر سکے نہ کسی کو کچھ کرنے دیا،جنہوں نے اپنا کوئی ہدف مقرر کیا نہ دوسرے افسروں کو کوئی ہدف دیا۔
حکومت کو جن مشکلات اور چیلنجز کا سامناہے ایسے میں اعظم سلیمان اور یوسف نسیم کھوکھر جیسے ذمہ دار،آزمودہ کار،رزلٹ اورئینٹد، اور تحفظ کا احساس دلانے والے چیف سیکرٹری کی ضرورت تھی،نہیں معلوم حکومت کیوں ان جیسے افسروں کو ضائع کر کے نئے نئے تجربے کرتی رہی ہے اور کیوں ان کی صلاحیتوں کا فائدہ نہیں اٹھایا گیا ؟چیف سیکرٹری حکومت اور عوام میں رابطہ کا بہترین ذریعہ ہوتا ہے،اس اہم عہدہ پر براجمان ہر افسر خود کو حکومت اور عوام کے سامنے سرخرو کرنے کا پابند ہوتا ہے،کسی بھی حکومت کی کامیابی اور ناکامی میں اہم ترین کردار ادا کرتا ہے،اپنی ان ذمہ داریوں کیساتھ وہ حکومت کا بہترین مشیر بھی ہوتا ہے،ماضی میں بہت سے چیف سیکرٹری ایسے آئے جن کے مشورہ اور مرضی کے بغیر وزیر اعلیٰ کوئی بڑا فیصلہ نہ کرتے تھے،وزیر اعلیٰ ہر قدم پر ان سے مشورہ کرتے مگر اب ایسا نظر نہیں آتا ،انتظامیہ ناجائز منافع خوری،ذخیرہ اندوزی اور اشیاء صرف کی قلت کو بھی نہیں روک پا رہی۔
موجودہ چیف سیکرٹری عوام کو ریلیف تو نہ دے سکے مگر بیوروکریسی میں بھی اصلاحات کے نفاذ سے قاصر رہے اور تو اور حکومت کی اوپن ڈور پالیسی کو بھی ناکامی سے دوچار کیا،چیف سیکرٹری کا اپنا دفتر تو سب کے لئے کھلا ہے مگر باقی سرکاری دفاتر میں عوام کا داخلہ ممنوع ہے کوئی افسر عوام سے ملنے ان کے مسائل جاننے اور ریلیف دینے پر تیار نہیں،بری شہرت کے حامل بہت سے افسر اب بھی اپنی پوسٹوں پر تعینات حکومت اور عوام کا منہ چڑا رہے ہیں یوں لگتا ہے ،کئی افسر اعلیٰ اجلاسوں میں دھڑلے سے شرکت نہیں کرتے مگر کوئی پوچھنے والا نہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں حکومتی اصلاحات اور اقدامات سے زرعی معیشت میں انقلاب آیا کسان خوشحال ہوا،اسے فصل کا بہترین معاوضہ ملا اور کسی کو اس کا استحصال کرنے کی بھی جازت نہیں دی گئی،کھاد فیکٹریوں کو گیس کی مسلسل فراہمی سے ڈی اے پی کی ریکارڈ پیداوار حاصل کی گئی مگر ستم یہ کہ صوبہ میں کسان آج بھی کنٹرول ریٹ پر کھاد حاصل نہیں کر پا رہا،ضلع اور تحصیل کی سطح پر لوٹ مار اور کرپشن کا بازار گرم ہے اور کوئی پوچھنے والا نہیں،کسان کو اگر بیج کھاد ادویہ اور آلات کی فراہمی مناسب نرخوں پر نہ ہو سکی تو زرعی انقلاب کا خواب ادھورا رہ جائے گا اور یہ ذمہ داری انتظامیہ کی تھی کہ وہ کسان کو فصل کی بوائی کیلئے کھاد اور بیج کی کنٹرول نرخ پر فراہمی کو یقینی بنائے مگر لگتا ہے چیف سیکرٹری کو معلوم ہی نہیں صوبہ میں کیا ہو رہا ہے،سچ یہ ہے کہ عوام مہنگائی کے ہاتھوں سکھ کی نیند سے محروم ہو چکے ہیں اور یہ سراسر مصنوعی مہنگائی ہے جس پر قابو پانا بھی انتظامیہ کے دائرہ کار میں آتا ہے مگر کسی کو عوام کی تکلیف کا احساس ہی نہیںہے۔