ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل نے کیا غضب ڈھایا کہ کرپشن کے معاملے میں آئینہ پر سے گرد جھاڑی اور حکومت کو تھما دیا۔ ’’آئینہ جھوٹ بولتا ہی نہیں‘‘ رپورٹ پر ہلا گلا، ہلچل اپوزیشن کے الزامات، منہ بھر کے کہا ’’ہمیں چور کہنے والے خود سب سے بڑے چور نکلے‘‘ جواب ان کا آیا ’’کرپشن تو 90 دن میں ہی ختم کردی تھی‘‘ کرپشن کے سوراخ بند کرنے یاد نہ رہے۔ اپنے ہی درجنوں نکلے اور آٹا چینی پیٹرول میں کرپشن کر کے ارب پتی بن گئے۔ شہباز شریف بولے ’’کرپشن میں حکومت نے سب کو پیچھے چھوڑ دیا‘‘ وفاقی کابینہ کے اجلاس میں حیرت اور تشویش کا اظہار، ٹرانسپرنسی والے زبانی کلامی بلکہ کسی ذمہ دار وزیر کے کان میں کہہ دیتے کہ بھائی صاحب آس پاس کرپشن ہو رہی ہے۔ یہ کیا کہ اسے خبر کی صورت میں اشتہار بنا دیا گیا۔ شہ سرخیوں سے شائع ہوئی ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ آنے والی نسلیں اسی خبر کے حوالے سے خبر لیں گی۔ ایک صاحب حضرت علامہؒ کا مصرع دہراتے رہے کہ ’’تم نے یہ کیا غضب کیا ہم کو ہی فاش کردیا‘‘ کہ پاکستان کرپشن رینکنگ میں 16 درجے ترقی کر کے عالمی انڈیکس میں 124 سے 140 نمبر پر آگیا (مقام شکر کسی شعبہ میں تو ترقی ہوئی) وفاقی وزیر با تدبیر تسلیاں دینے میں ماہر، بولے پاکستان کا درجہ مالی نہیں سیاسی کرپشن کی وجہ سے گرا۔ اپوزیشن والوں نے (جواب تک منقسم ہے) فرداً فرداً شادیانے بجائے کہ احتساب کے نام پر کرپشن احتساب محض دھوکہ، لانگ مارچ کی راہ ہموار، مارچ بھی الگ الگ ہوگا اپنا اپنا مارچ اپنے اپنے جیالے متوالے، لانگ مارچ، مہنگائی مارچ، آئندہ تین ماہ اہم، تیاریاں شروع، ہلچل تو مچے گی لیکن رخصتی کا بگل ابھی نہیں بجا۔ اسلام آباد کے مکین خصوصاً شاہراہ دستور کے آس پاس گھومنے والے بتاتے ہیں کہ وفاقی دارالحکومت افواہوں اور خدشات کی دھند میں لپٹا ہوا ہے۔ ملک کی سیاسی صورتحال کا منظر ابہام کے پردوں میں گم ہے قریب کا منظر بھی نظر نہیں آتا۔ حد نگاہ صفر۔ ارد گرد کے لوگ کہتے ہیں کہ بظاہر بگل ابھی نہیں بجا لیکن بھانت بھانت کی افواہیں اور باتیں سننے کو ملتی ہیں۔ استعفے آنے لگے ہیں۔ منظور بھی ہو رہے ہیں۔ اب تک گیارہ استعفے آ چکے، بھاری بھرکم مشیر احتساب و داخلہ شہزاد اکبر اب تک انتہائی قریب آنکھوں کا تارہ دلوں کا سہارا۔ نواز شریف کو کوٹ لکھپت جیل میں لانے پابند سلاسل کرنے کی امیدوں کا مرکز۔ ’’الٹی ہو گئیں سب تدبیریں‘‘ ان سے خود استعفیٰ طلب کیا۔ سیاسی خبریں دینے والے اور اجلاسوں کی اندرونی کہانیاں ڈھونڈنے والوں کے مطابق پندرہ بیس دن پہلے ایک اجلاس میں نواز شریف کو واپس لانے اور سپرد جیل کرنے پر گرما گرم بحث ہوئی دروغ برگردن راوی شہزاد اکبر سے پوچھا گیا کب لا رہے ہو۔ جواب توقعات کے بر خلاف کہا واپسی مشکل ہے۔ برطانیہ میں مقیم غیر ملکیوں کو آسانی سے نہیں نکالا جاتا۔ وزیر اعظم کے علاوہ وزیر داخلہ جنہیں بغض نواز شریف تحفے میں ملا ہے سخت حیران ہوئے وہ ان دنوں رات دن پاکستان اور برطانیہ کے درمیان تحویل مجرمان معاہدے کی خوشخبریاں سنا رہے تھے یقین تھا کہ بلدیاتی انتخابات سے قبل نواز شریف سپرد جیل ہوں گے۔ اور وہ ’’شکر ونڈاں‘‘
کے گیت گنگنائیں گے لیکن وائے ناکامی امیدوں پر پھر پانی سے بھری بالٹیاں انڈیل دی گئیں اور بھی وجوہات تھیں۔ شوگر مافیا کے خلاف تحقیقات میں بھی پیشرفت نہ ہوسکی۔ چینی سکینڈل والے 4 ارب کھا گئے ڈکار تک نہ لیا۔ خسرو بختیار کے بھائی بھی اسی چکر میں ارب پتی ہوگئے کمال ہے ساڑھے 3 سال میں تحقیقات مکمل نہ ہوسکیں، عدالتوں میں مقدمات کی تفصیلات میں بھی تضادات۔ مقدمات کی ٹائم لائنز میں فرق، کئی باتیں کئی کہانیاں، مرکزی ڈپٹی سیکرٹری اطلاعات پی ٹی آئی احمد جواد کی اتنی ہمت کہ وہ سر عام اپوزیشن کے لہجے میں الزام تراشی کرنے لگے پارٹی سے نکال باہر کیا۔ بنیادی رکنیت ختم، جو بولے سونہال، نور عالم ایم این اے نے پہلی تین صفوں پر انگلی اٹھائی شوکاز نوٹس مل گیا۔ پوچھا آپ کا مستقبل؟ فرمایا زیر غور ہے، ایک رکن سے محرومی شاید مناسب نہ سمجھی جائے اس لیے فیصلہ ہزار بار سوچنے کے بعد کیا جائے گا۔ نور عالم سے زیادہ سخت باتیں تو پرویز خٹک نے روبرو کر دی تھیں۔ رکنیت متاثر ہوئی نہ وزارت، خاص اور عام کے لیے دو قانون؟ کیا ثابت ہوا۔’’ اپنی اپنی لاچاری ہے اپنی اپنی مجبوری‘‘ مارنے والے کا ہاتھ پکڑا جاسکتا ہے۔ زبان نہیں سندھ کے وزیر اطلاعات سعید غنی نے فوراً پھبتی کسی کہ ڈوبتے جہاز کو دیکھ کر چوہوں نے چھلانگیں لگانا شروع کردیں، بری بات لیکن سیاستدان ایسی باتوں سے کب چوکتے ہیں عوامی محاذ پر سب سے زیادہ ہلچل مہنگائی اور بیروزگاری نے مچا رکھی ہے۔ مہنگائی جس سطح پر پہنچ چکی اب کسی کے قابو میں نہیں آئے گی، آٹا، گھی، چینی دالوں میں دو روپے کم ہوجائیں تو وزیر مشیر پریس کانفرنسوں میں تعریفوں کے ڈونگرے برسانا شروع کردیتے ہیں جبکہ اگلے ہی دن قیمتوں میں 5 سے 10 روپے اضافہ ہوجاتا ہے، اعداد و شمار سے ثابت کرنے کی کوشش کہ گروتھ کی شرح 5.37 فیصد ہو گئی۔ ہوگئی ہوگی عوام کو اس سے کیا لینا دینا۔ اصل اعداد و شمار اور مارکیٹوں میں اشیائے صرف کی قیمتیں تو کچھ اور کہتی ہیں جو ہر گز غالب کادل بہلانے کے لیے کافی نہیں۔ ماہرین معاشیات کہتے ہیں کہ معاشی گروتھ کے سارے اعداد و شمار غلط تجارتی خسارہ، مہنگائی، بیروزگاری، گردشی قرضوں اور غیر ملکی قرضوں میں روز افزوں اضافہ، معیشت کی سمت درست ہوتی تو پانچ فنانس سیکرٹری تبدیل نہ کیے جاتے، ماہرین کے مطابق برآمدات کے معاملہ میں ہم دنیا کے باقی ممالک سے بہت پیچھے ہیں 3 سال کے دوران امیر امیر تر اور غریب غریب تر ہوتا جا رہا ہے کیا یہ حقیقت نہیں کہ 1960ء سے 2018ء تک عام آدمی کی آمدن بڑھتی رہی جبکہ 2018ء سے اب تک اخراجات بڑھ رہے ہیں 87 فیصد عوام مہنگائی سے تنگ ہیں یہی لوگ عام انتخابات میں فیصلہ کن کردار ادا کرسکتے ہیں۔ لوگ معاشی خوشخبریوں کو خوش فہمیوں سے تعبیر کرتے ہیں تبدیلی کی خواہش روز بروز بڑھ رہی ہے۔ ماحول قدرتی طور پر سازگار ہو رہا ہے۔ سب ایک پیج پر ہیں اللہ کرے ایسا ہی ہو لیکن کسی بھی وقت کچھ بھی ہوسکتا ہے اور اس کے لیے آئندہ دو ماہ انتہائی اہم قرار دیے جا رہے ہیں۔ یہ بھی اطلاعات ہیں کہ حکومتی اراکین کے اپوزیشن جماعتوں سے رابطوں میں اضافہ ہو رہا ہے 22 ارکان اسمبلی اپوزیشن سے رابطے میں ہیں ان میں سے 20 ن لیگ کے ٹکٹ کے متمنی ہیں، ان کا کہنا ہے ’’گر قبول افتدز ہے عزو شرف‘‘ فیصلہ باہر والا واپس آ کر کرے گا۔ فی الحال تو چودھری شجاعت نے یہ کہہ کر حکومتی صفوں میں مایوسی پھیلا دی ہے کہ کچھ بھی کر لیں نواز شریف واپس نہیں آئیں گے۔ ان پر جتنے پیسوں کا الزام ہے اس سے زیادہ ان کے خلاف مقدمات پر خرچ ہو چکے ہیں حکومت نواز شریف کے چکر سے نکلے اور عوامی مسائل پر توجہ دے، مسائل پر کیسے توجہ دیں۔ وقت کم مسائل زیادہ حل کے لیے کوئی انفرا اسٹرکچر نہیں، اپوزیشن کیا کرے اس کی اپنی کوئی کل سیدھی نہیں پی پی کا تحریک عدم اعتماد پر اصرار لیکن سٹیٹ بینک بل کی منظوری کے وقت یوسف رضا گیلانی سمیت سینیٹ کے 9 ارکان غائب، بل بیالیس بیالیس ووٹوں سے برابری پر اٹک گیا لیکن آصف زرداری کے لائے ہوئے چیئرمین نے اپنا ووٹ حکومت پلڑے میں ڈال کر بل پاس کرا دیا، کیاایسی حرکات و سکنات سے ان شبہات کو تقویت نہیں ملتی کہ اپوزیشن کی کوئی ایک بڑی جماعت کے کسی نہ کسی سے رابطے ہیں تاکہ ان کے نوجوان کو آئندہ وزیر اعظم بنا دیا جائے، کیا ایسا ممکن ہوسکے گا اوپر والے جانیں ابھی تو بقول شیخ رشید سب ایک پیج پر ہیں، سیانے کہتے ہیں کہ سیاسی آتش فشاں پھٹنے کو ہے فروری مارچ اہم، فروری میں میدان سجے گا۔ مارچ میں میدان کار زاربنے گا ، سر بکف دستے سڑکوں پر نکلنے کے لیے کمریں کس رہے ہیں بقول وزیر داخلہ ذلیل و خوار کرنے کے انتظامات مکمل۔ رخصتی کا بگل ابھی نہیں بجا لیکن حالات اسی طرف جا رہے ہیں۔
سیاست میں ہلچل، ہو گا کیا؟
08:40 AM, 31 Jan, 2022