ایم کیو ایم کے حال پہ با ت کر نا ایک گر ے ایر یا پہ کر نے وا لی با ت ہو گی۔ تا ہم اگر پا کستان کی سیا سی پارٹیو ں کی تا ریخ اور اعما ل کا نیک نیتی سے جا ئزہ لیں تو یہ با ت قبول کئے بغیر چا رہ نہیں کہ اگر کو ئی پا رٹی اپنی نظر یا تی اسا س پہ من و عن ثابت قد م ہے تو وہ وا حدپا رٹی جما عتِ اسلامی ہے۔ بڑی پارٹیوں میں یہ وہ اکلو تی جما عت ہے جس میں مو روثی لیڈر شپ کا ذ رہ برابر عنصر مو جو د نہیں۔ سربراہ کے چنائو کے لیے اس قدر دیانتداری سے چنائو ہوتے ہیں کہ جماعت کا بڑے سے بڑا مخا لف بھی کبھی اعتراض کرنے کی جرأت نہیں کر سکا۔ وطنِ عزیز کو جب کبھی قدرتی آ فا ت کا سامنا کر نا پڑا تو یہ جماعت بغیر کسی نمود و نمائش کے پیش پیش نظر آتی ہے۔ اسی حوالے سے پا کستان کا سب سے بڑ ا شہر کراچی مسلسل تباہی کا شکا ر ہو تے ہو تے جس حالتِ زار تک جا پہنچا ہے اسے ایک آفت سے تعبیر کیے جائے بغیر کوئی چارہ نہیں۔ افسوس کہ ایسے میں سب ہی سیاسی پارٹیاں ماسوائے جماعتِ اسلامی کے بھنگ پیئے خوابِ خرگوش کے مزے لوٹتی رہیں۔ جما عتِ اسلامی نے جب دیکھا کہ اس کے احتجاج کا کوئی نوٹس لینے کو تیار نہیں تو نا چا راس نے دھرنو ں کا فیصلہ کیا۔ سا تھ ہی متحد ہ ایم کیو ایم نے ایک پر امن ریلی نکا لی مگر اس ریلی کی وجہ سے سڑکوں پر ٹریفک جام ہوگیا اور لاکھوں شہری اپنی گاڑیوں میں پھنس کر رہ گئے۔ اور جیسا کہ جماعت اسلامی پہلے ہی شہر میں دھرنا دیئے بیٹھی ہے؛ چنانچہ بدھ کے روز شہر کا پورا نظام درہم بر ہم رہا۔ اس دوران نہ تو انتظامی حکمت عملی دیکھنے میں آئی اور نہ ہی کوئی سیاسی حکومت دکھائی دی جو معاملات کو سلجھاتی اور حالات کو قابو سے باہر ہونے سے بچاتی بلکہ ایم کیو ایم کی جانب سے نکالی گئی ریلی پرپولیس کی شیلنگ اور لاٹھی چارج سے صورتِ حال مزید بگڑ گئی۔ درجنوں خواتین و حضرات کے ہمراہ ممبر سندھ اسمبلی صداقت حسین بھی سر پھٹنے سے زخمی ہوئے جنہیں اسی حالت میں گرفتار کرلیا گیا۔ ایم کیو ایم کے کنوینر خالد مقبول صدیقی کے مطابق پولیس تشدد کی وجہ سے سابق ٹائون ناظم حنیف سورتی کی آنکھ ضائع ہوگئی جبکہ صداقت حسین آئی سی یو میں زیرِ علاج ہیں۔ انتظامیہ کی جانب سے درجنوں سیاسی کارکنان اور رہنمائوں کو گرفتار بھی کیا گیا۔ سیاسی معاملات کو طاقت سے حل کرنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ سارا دن ملک کا سب سے بڑا شہر میدانِ جنگ کا نقشہ پیش کرتا رہا جو کراچی میں ہوا، اس حوالے سے ہر کوئی اپنے مؤقف پر ڈٹا ہوا اور اسے درست ثابت کرنے کی کوششوں میں ہے۔ ایم کیو ایم رہنمائوں کے بقول پولیس کے لاٹھی چارج اور شیلنگ سے معاملات بگڑے اور کارکنان منتشر اور مشتعل ہوگئے
جبکہ صوبائی وزیر سعید غنی کا کہنا تھا کہ صورتِ حال ایسی بن گئی تھی کہ مجبوری میں انتظامیہ کو ایکشن لینا پڑا۔ اب ایم کیو ایم کی جانب سے یومِ سیاہ منانے اور تاجروں، ٹرانسپورٹرز سے ہڑتال کی اپیل کی گئی ہے۔ جماعت اسلامی نے بھی 27فروری سے بلاول ہائوس کے باہر پڑائو ڈالنے او رجمعہ کو پانچ مقامات پر دھرنا دے کر شہر کی پانچ شاہراہوں کو بند کرنے کا اعلان کر رکھا ہے ۔ اب اگر حکو مت نے ان معاملات پر تدبر کا مظاہرہ نہ کیا تو لگتا ہے کہ یہ معاملہ مزید طول پکڑے گا۔ یہ سب کچھ ایسے وقت میں ہورہا ہے جب پاکستان سپر لیگ کے سیزن 7 کا آغاز ہوچکا ہے اور بہت سے غیرملکی کھلاڑی بھی پاکستان کے سب سے بڑے سپورٹس ایونٹ میں شرکت کی غرض سے کراچی میں مقیم ہیں اور اسی لیے شہر قائد میں سکیورٹی ہائی الرٹ ہے۔ ایسے حساس معاملات کے باوجود ایسے واقعات کا رونما ہونا انتظامی صلاحیتوں پر سوالیہ نشان لگا دیتا ہے۔ اگر بہتر انتظامی حکمت عملی اپنائی جاتی تو جو کچھ ہوا، اسے وقوع پذیر ہونے سے روکا جاسکتا تھا۔ معاملات کے پس منظر میں جا کر دیکھا جائے تو تین ہفتوں سے زائد عرصے سے جاری جماعت اسلامی کے دھرنے اور ایم کیو ایم کی ریلی کا مقصد سندھ لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2013ء میں حال ہی میں کی گئی ترامیم کے خلاف آواز بلند کرنا تھا جو اِن کے خیال میں مناسب نہیں ہیں۔اس حوالے سے سندھ اسمبلی میں بھی ہنگامہ آرائی ہوچکی ہے۔ اسے بدقسمتی ہی کہا جاسکتا ہے کہ ہمارے ہاں اب تک سیاسی معاملات کو سیاسی ایوانوں میں حل کرنے کا رجحان تقویت نہیں پاسکا اور ہر کچھ عرصے کے بعد کسی تنظیم، کسی سیاسی جماعت کو اپنے مطالبات کی منظوری لیے احتجاج، ریلیوں اور دھرنوں کا سہارا لینا پڑتا ہے اور اگر اس پر بھی شنوائی نہ ہو تو معاملات کو عدالتوں میں لے جاکر نظامِ عدل کے بوجھ میں اضافہ کیا جاتا ہے۔ کراچی میں بھی یہی طرزِ عمل مشاہدے میں آرہا ہے اور جماعت اسلامی کی جانب سے نئے بلدیاتی قانون کے خلاف سندھ ہائی کورٹ میں پٹیشن بھی دائر کی گئی جس پر عدالت عالیہ نے مختصر سماعت کے بعد چیف سیکرٹری سندھ، صوبائی حکومت اور دیگر کو نوٹسز جاری کردیئے تھے۔ اگر یہ معاملہ سیاسی ایوان یعنی صوبائی اسمبلی میں حل کیا جاتااور گفت و شنید کا راستہ اپنایا جاتا تو نہ یہ معاملہ عدالتوں میں جاتا اور نہ ہی ریلیوں، دھرنے کی نوبت آتی۔ ایک تازہ خبر یہ ہے کہ شہر قائد میں جماعت اسلامی او رسندھ حکومت کے مابین بیک ڈور مذاکرات میں اہم ترین پیش رفت ہوئی ہے اور ذرائع کے مطابق سندھ حکومت نے بعض بلدیاتی ادارے میئر کے ماتحت کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ یہ پیش رفت خوش آئند ہے لیکن سوال یہ ہے کہ آیا یہی اقدام کچھ وقت پہلے نہیں کیا جاسکتا تھا یا ایم کیو ایم کے ساتھ بھی ایسا ہی معاملہ نہیں ہوسکتا تھا توکہ نوبت اس نہج تک نہ پہنچتی کہ لاٹھی چارج ہوا اور آنسو گیس بھی استعمال کی گئی۔ مسئلہ یہ ہے کہ سیاسی جماعتیں اور ان کے کارکن سیاسی معاملات کو سیاسی نہیں رہنے دیتے بلکہ انہیں ذاتی انا کا مسئلہ بنالیا جاتا ہے جس کے نتیجے میں ڈیڈ لاک کی سی کیفیت پید اہوجاتی ہے۔ جس میں کوئی بھی فریق پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہوتا او رنتیجہ تصادم کی صوت میں نکلتا ہے۔ سیاسی ایشوز اور سیاسی مسائل کے حل کے لیے سیاسی فورمز یعنی قومی و صوبائی اسمبلیاں موجود ہیں، بہتر ہے کہ انہی میں بیٹھ کر ان ایشوز کا حل نکالا جائے۔ سڑکوں پر فیصلوں سے فضا تو مکدر ہوتی ہی ہے، یہ جگ ہنسائی کا باعث بھی بنتے ہیں۔ پیپلز پارٹی نے 27 فروری سے اور پی ڈی ایم نے 23 مارچ سے مہنگائی کے خلاف مارچوں کا اعلان کر رکھا ہے۔ اس حوالے سے ابھی ٹینشن پیدا ہورہی ہے۔ آگے جا کر حالات پتا نہیں کیا رخ اختیار کریں۔ مشورہ وہی ہے کہ سیاسی مسائل سیاسی انداز میں حل کیے جائیں تاکہ امن و امان کی صورت حال مخدوش نہ ہو۔