نیل ٹائون اسٹیفنسن مشہور امریکی ناول نگار ہیں ، 1959 میں ریاست میری لینڈ میں پیدا ہوئے ، والدین پڑھے لکھے تھے ، والد الیکٹریکل انجینئر اور دادا فزکس کے پروفیسرتھے ، والدہ بائیو کیمسٹری لیب میں کام کرتی تھیں اور نانا بائیو کیمسٹری کے پروفیسر تھے۔ نیل نے بوسٹن یونیورسٹی سے فزکس اور جیوگرافی میں گریجوایشن کیا اور 1984 میں ’’دی بگ یو‘‘ کے نام سے پہلا ناول لکھا ، دوسرا ناول 1988 اورتیسرا 1992 میں’’سنو کریش‘‘ کے نام سے لکھا۔ سنو کریش وہ ناول تھا جس نے انہیں شہرت کی بلندیوں تک پہنچا دیا۔ سنو کریش ایک سائنس فکشن ناول تھاجس میں پہلی بار میٹا ورس کا لفظ استعمال کیا گیا۔نیل نے بتایامیٹاورس ایک ایسی خیالی دنیا ہے جس میں آپ کسی بھی وقت جا سکتے ہیں، آپ کوئی بھی شکل اختیار کر سکتے ہیں اور اس شکل کو اس نے اوتار کا نام دیا، یہ میٹا ورس لفظ کی شروعات تھیں۔ نیل نے جس خیالی دنیا کا تصور پیش کیا تھایہ کوئی نیا تصور نہیں تھا، قدیم یونانی میتھا لوجی میں بھی اس تصور کی جڑیں موجودہیں۔ قرآن میں بھی سات زمینوں او ر سات آسمانوں کا ذکر آیا ہے ، سات زمینیں کون سی ہیں ، مفسرین نے اس کی مختلف تاویلات کی ہیں ، مفسر قرآن حضرت عبد اللہ ابن عباسؓ کے ایک اثر میں ہماری زمین جیسی اور
زمینوں کی بات بھی ملتی ہے جہاں ممکن ہے ہم جیسی یا کچھ مختلف شکل و صورت کی مخلوق موجود ہو۔آ گے چلیے،2009 میں ہالی وڈ کی ایک فلم ریلیز ہوئی جس کا نام’’ سروگیٹس‘‘ تھا ، اس میں دکھایا گیا کہ بہت سے لوگ ایک کمرے میں کمپیوٹرز کے سامنے بیٹھے ہیں ، انہوں نے خاص قسم کی عینکیں پہن رکھی ہیں اورایک خیالی دنیا میں مگن ہیں۔وہ اپنے کمروں میں بیٹھ کراپنے ہم شکل روبوٹس کو ، جو باہر سڑکوں اورمارکیٹس میں پھر رہے ہیں انہیں کنٹرول کر رہے ہیں۔ یہ روبوٹس ا ن کے اوتار ہیں اور یہ اپنے کمروں اور کرسیوں پر بیٹھ کر اپنے دماغ سے ان کو کنٹرول کر رہے ہیں۔ اگر باہر سڑکوں اور چوکوں چوراہوں میں پھرتے کسی روبوٹ کو کوئی حادثہ پیش آتا ہے تو کمروں میں بیٹھے اصل وجود کو کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ یہ تواپنے کمروں میں موجود ہیں۔ اگرچہ اس فلم میں میٹاورس کا لفظ استعمال نہیں ہوا مگر یہ میٹا ورس کے تصور کی عملی شکل تھی۔
میٹا ورس کو عملی شکل دینے کے لیے تیز ترین انٹرنیٹ کی ضرورت ہے اس لیے انٹرنیٹ کے پہلو کو بھی سمجھ لیں ، پاکستان میں انٹرنیٹ 1993 میں متعارف ہوا،شروع میں اس کا استعمال اقوامِ متحدہ کے ترقیاتی پروگرام یو این ڈی پی کی فنڈنگ سے ایک پراجیکٹ کے طور پر ہوا تھا،پہلے صرف بڑی کمپنیوں اور بینکوں کو اس تک رسائی حاصل تھی ،1995 میں ڈیجی کام نامی پرائیویٹ کمپنی نے کراچی، لاہور اور اسلام آباد سے اپنی ڈائل اپ انٹرنیٹ سروس کا آغاز کیا ،اسی سال پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن نے بھی اپنی ذیلی کمپنی پاک نیٹ کے ذریعے اپنی ڈائل اپ سروس فراہم کرنا شروع کردی۔شروع میں جب پہلی بار انٹرنیٹ کا استعمال شروع ہواتو اس وقت ڈائل اپ موڈیم تھا، انٹرنیٹ انتہائی سست تھا اور اس سے بہت ہی محدود کام لیا جاتا تھا۔ ویب سائٹس ایچ ٹی ایم ایل کوڈنگ زبان میں بنتی تھی اور زیادہ تر انفارمشین صرف پڑھنے کے قابل ہوتی تھی۔ آن لائن بزنس اور ان جیسے دیگر کاموں کا کوئی تصور نہیں تھا۔ اشتہارات کے لئے صرف ویب سائیٹ بینرز کا استعمال ہوتا تھا اور ای میل صرف لفظ بھیجنے تک محدود تھی۔ انٹرنیٹ کے اس دور کو Web1 کا نام دیا جاتا ہے۔ اس کے بعد Web2 کا دور شروع ہوا جس میں نہ صرف انفارمیشن کو پڑھا جا سکتا تھا بلکہ لکھا بھی جا سکتا تھا۔ فیس بک، یوٹیوب، ٹویٹر، گوگل موبائل ایپس اور وٹس ایپ وغیرہ اس کی مثال ہیں۔ اس دور میں ای کامرس کا رجحان ہوا، امیزون، علی بابا اور ای بے جیسی آن لائن مارکیٹس شروع ہوئیں، یہ سب ویب 2 کی بدولت ممکن ہوا۔ آپ دنیا کے کسی بھی کونے میں بیٹھ کر اپنی پسند کی چیز اپنے ڈیبٹ یا کریڈٹ کارڈ سے خرید سکتے ہیں۔ سوشل میڈیا ویب سائیٹس اور زوم، سکائپ کے ذریعے ویڈیو کانفرنسز کا انعقاد، یوٹیوب اور ویڈیو بلاگز کے ذریعے اپنے پیغام کی تشہیر یہ سب ویب 2 کی کارفرمائیاں ہیں۔ اب اس سے اگلا دور ویب 3 کا ہے، ویب 3 کا دور ہی میٹا ورس کے لیے ساز گار ہو گا کیونکہ میٹاورس کے لیے جس انتہائی تیز انٹرنیٹ کی ضرورت تھی وہ ویب3 میں ہی ممکن ہے۔ اب اس میں میٹا ورس کیسے کام کرے گا اس کو مثال سے سمجھئے ، فرض کریں میرے چار دوست دنیا کے مختلف ملکوں میں رہتے ہیں، ہم چاہتے ہیں کہ ہم لندن کے ہیتھرو ائیرپورٹ یا فرانس کی مشہور شاہراہ شانزے لیزے پر اکٹھے ہو کر کافی پئیں اور گپ شپ لگائیں۔ ہم ائیرپورٹ کی جس جگہ یا شانزے لیزے کے جس ریستوران میں اکٹھا ہونا چاہتے ہیں پہلے آن لائن اس کے مالک سے اس کی بکنگ کرائیں گے ، پھر مقررہ وقت پر اپنے اپنے ملکوں سے آن لائن ہو جائیں گے، ہمارے پاس خاص قسم کی عینک یا ہیڈ ہوں گے جو ہم نے پہن رکھے ہوں گے، اب ہمار ے ہم شکل روبوٹس یا اوتار ایئر پورٹ یا شانزے لیزے میں مقررہ جگہ پر آمنے سامنے بیٹھے ہوں گے جنہیں ہم اپنے دماغ سے کنٹرول کر رہے ہوں گے۔ یہ روبوٹس ہماری نمائندگی کرتے ہوئے ہر وہ گفتگو اور حرکات و سکنات کریں گے جس کا ہم انہیں آ رڈر دیں گے۔ ہم دوست قہقہہ لگائیں گے یا ہاتھ پر ہاتھ ماریں گے تو یہ بھی ایسے ہی کریں گے ا ور ہمیں اپنے کمروں میں بیٹھ کر محسوس ہو رہا ہوگا جیسے ہم خود آمنے سامنے بیٹھے گپ شپ کر رہے ہیں۔ یہ ایک مثال ہے، اس سے آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ زندگی کے ہر میدان میں کیا کیا تبدیلیاں رونما ہوں گی۔ مثلاً آپ بچوں کو کسی ملک کا جغرافیہ سمجھا رہے ہیں تو عملی طور پر انہیں اس ملک میں لے جائیں گے، آپ بچوں کو نظام شمسی سمجھانا چاہتے ہیں تو آپ عملاً خلا میں جا کر اس کا مشاہدہ کرا سکیں گے۔ آپ اپنے گھروں میں بیٹھ کر میٹنگز اٹینڈ کر سکیں گے اور بچوں کو سکول جانے کی ضرورت ہی نہیں رہے گی۔ حال ہی میں بل گیٹس نے کہا ہے کہ عنقریب ہماری اگلی میٹنگز میٹاورس پر ہوں گی، مارک زکر برگ نے بھی فیس بک کا نام میٹاورس رکھ دیا ہے تاکہ دنیا کو اس پروجیکٹ کی طرف متوجہ کیا جا سکے۔
آپ اپنے کمروں میں بیٹھ کر عملاً حج و عمرہ میں شریک ہو سکیں گے بس آپ کو مخصوص عینک پہننا ہو گی اور آپ حرمین پہنچ جائیں گے۔دنیا کے کسی بھی کونے میں کوئی میوزیکل کنسرٹ ہو رہا ہے تو آپ عملاً اس میں شریک ہو سکیں گے۔ آپ دنیا کے کسی بھی کونے میں کسی بھی اچھے بُرے اجتماع میں شریک ہو سکیں گے۔ ظاہر ہے ایسے پلیٹ فارمز پر عموماً برائی کے مواقع زیادہ اور بآسانی دستیاب ہوتے ہیں، آپ دنیا کے کسی بھی کونے میں اپنے پسند کے مرد و عورت کے ساتھ تعلقات قائم کر سکیں گے۔ برائی کے پیرو کار ابھی سے اپنی دکانیں سجا رہے ہیں، دنیا بھر میں دھڑا دھڑ آن لائن پراپرٹی خریدی جا رہی ہے، دنیا کے تمام مشہور مقامات، جگہیں، پارکس، ریستوران، بیچز، ائیر پورٹس اور مشہور ہوٹل فروخت ہو چکے ہیں۔ آن لائن پراپرٹی کا تعلق زمینی ملکیت سے نہیں ہو گا، زمینی ملکیت جس کی بھی ہو آن لائن یہ اسی کی پراپرٹی ہو گی جو اسے آن لائن خرید لے گا اور آن لائن خرید و فروخت اور سروسز کے لیے کرپٹو کرنسی استعمال ہو گی اور یہ ہو رہی ہے۔ پاکستان کی بھی اہم جگہیں، مقامات، پارکس آن لائن فروخت ہو چکے ہیں، مکہ و مدینہ میں یہ پراپرٹی اتنی مہنگی ہے کہ ایک ایک انچ کے حساب سے فروخت ہو رہی ہے۔ اس ساری صورتحال کے تناظر میں اس عہد کے نسل کی دینی صورتحال کیا ہو گی، ان کا ایمان کیسے محفوظ رہے گا اور مذہب کی اہمیت و افادیت کیا رہ جائے گی، یہ اور اس سے جڑے ہوئے بہت سارے سوالات ایسے ہیں جس پر مذہبی فکر کو ابھی سے سنجیدگی سے سوچنے کی ضرورت ہے۔