(گزشتہ سے پیوستہ)
سقوطِ مشرقی پاکستان کے انتہائی المناک اور روح فرسا سانحے کے حوالے سے کئی اہم حالات و واقعات کا پچھلی دو اقساط میں تذکرہ ہو چکا ہے۔ اسے مکمل کرنے میں بوجوہ کچھ تاخیر ہو گئی ہے جس کے لئے معذرت خواہ ہوں۔عموماََ یہ کہا جاتا ہے اور اس کا بھارت اور شیخ مجیب الرحمٰن کی جماعت عوامی لیگ کی طرف سے زور و شور سے پروپیگنڈہ کیا جاتارہا ہے اور دیکھا جائے تو بنگلہ دیش کی موجودہ وزیرِ اعظم حسینہ واجد (شیخ مجیب الرحمٰن کی دُختر) اب بھی اس منفی پروپیگنڈے کو کسی نہ کسی شکل میں اپنائے ہوئے ہیں کہ ۲۵ اور ۲۶ مارچ کی درمیانی رات شروع کئے گئے آپریشن سرچ لائٹ کے تحت پاکستانی فوج نے بنگالیوں کے قتلِ عام اور ان کی نسل کُشی میں بُری طرح حصہ لیا۔ اس میں کسی حد تک حقیقت ہو سکتی ہے کہ مسلح بنگالیوں کی شورش کو ختم کرنے کے لئے شروع کیا گیا یہ آپریشن کسی نہ کسی شکل میں کچھ زور و شور سے یا ہلکے انداز میں مئی ۱۹۷۱ء کے وسط تک جاری رہا۔ اس کے تحت کی جانے والی فوجی کارروائیوں کے نتیجے میں بلا شُبہ بنگالی جن کی تعداد پروپیگنڈے سے ہٹ کر مصدقہ اور مستند ذرائع کے مطابق کسی صورت میں بھی پانچ ہندسوں یعنی دس ہزار سے زائد نہیں سمجھی جاسکتی ضرور تہہ تیغ ہوئے اور شہری آبادیوں کو بھی نقصان پہنچا۔ تا ہم اس کے ساتھ یہ بھی ایک ایسی حقیقت ہے جس کو جھٹلایا نہیں جا سکتا کہ بنگالی علیحدگی پسندوں، مکتی باہنی کے غنڈوں اور ایسٹ بنگال رجمنٹ اور ایسٹ پاکستان رائفلز سے تعلق رکھنے والے مسلح باغیوں نے غیر بنگالیوں جن میں زیادہ تر کا تعلق مغربی پاکستان سے تھا یا ان میں بہاریوں کی اکثریت تھی کے قتل عام میں بھی کوئی کسر اُٹھا نہ رکھی۔ڈھاکہ میں آدم جی جیوٹ ملز اور چٹا گانگ میں اصفہانی جیوٹ ملز کے ملازمین جن کی اکثریت کا تعلق مغربی پاکستان سے تھا وہاں ایسٹ پاکستان رائفلز کے باغیوں اور مکتی باہنی کے غنڈوں نے اس طرح خون کی ہولی کھیلی کہ اس کی تفصیل جان کر آج بھی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح چٹا گانگ کے ایسٹ پاکستان رائفلز سنٹرمیں مغربی پاکستان سے تعلق رکھنے والے جو فوجی تعینات تھے اور ان کی تعداد 600کے لگ بھگ تھی ان کو بھی حیلے بہانوں سے نہتا کر کے جہاں ان کے خون سے ہولی کھیلی گئی وہاں ڈھاکہ سے کچھ فاصلے پر دیپ پور میں ایسٹ پاکستان رائفلز کی ایک باغی رجمنٹ میں تعینات مغربی پاکستان سے تعلق رکھنے والے کئی درجن فوجیوں کو بھی تہہ تیغ کر دیا گیا۔
مشرقی پاکستان میں مسلح باغیوں اور علیحدگی پسندوں کے خلاف پاکستان کی حکومت کے ضروری اقدامات اور پاکستانی فوج کے مسلح آپریشن کے حوالے سے بین الاقوامی طور پر اس مسلمہ امرکو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ دُنیا میں کسی بھی ملک میں علیحدگی کے لئے کوئی بغاوت ہو یا کوئی اور وطن دشمن سرگرمی تو باغیوں، غداروں، علیحدگی پسندوں اور وطن دشمن عناصر کو کوئی بھی مملکت برداشت نہیں کرتی اور حکومتیں اور مسلح افواج مملکت کی سا لمیت،استحکام اور اس کی حاکمیت اعلیٰ کی بحالی کے لئے ہر ممکن اقدامات کرتی ہیں۔ ان اقدامات کو کہیں بھی جبر، ظلم،زیادتی،نسل کشی اور انسانی حقوق کی پامالی کا نام
نہیں دیاجاتا۔پاکستان کی مسلح افواج اگر اپنے ملک کے ایک حصے کو اندرونی اور بیرونی سازشوں، دُشمن کی ریشہ دوانیوں اور وطن دشمن عناصر کی سرگر میوں کے نتیجے میں علیٰحدگی کوروکنے کے لئے بر سر ِ پیکار ہوئیں تو اس کے لئے انہیں پوری طرح موردِ الزام ٹھہرانا کسی صورت بھی جائز قرار نہیں دیا جا سکتا۔
خیر یہ ہماری بد قسمتی، بد اعمالی، بد نیتی اور کوتاہ اندیشی تھی یا حالات کا جبر جو بھی سمجھا جائے کہ ایک طرف ہمیں مملکت خداد اد پاکستان جو اسلام کے نام پر ہم نے بہت ارمانوں، دعووں، نعروں اور قربانیوں سے حاصل کی تھی اس کی شکست و ریخت سے دو چار ہونا پڑا اور اس کے بڑے حصے کی علیحدگی کا زخم سہنا پڑا تو دوسری طرف دنیا جہان کی بد نامی اور طعنہ زنی ہمارے حصے میں آئی۔ ایسا کیوں ہوا؟ ہمیں مان لینا چاہئے کہ اس میں ہماری حکومتوں اور حکمرانوں کی ناقص پالیسیوں اور غلط فیصلوں، ملٹری اور سول بیورو کریسی کے عاقبت نااندیشانہ اقدامات اور تحکمانہ رویوں، ہمارے سیاستدانوں اور سیاسی جماعتوں کے قائدین کے منفی انداز فکر و سیاست اور خودغرضانہ سوچ اور بحیثیت قوم ہماری کوتاہیوں اور نادانیوں کے ساتھ بیرونی طاقتوں اور بیرونی عناصر کی سازشوں اور ریشہ دوانیوں کا بڑا ہاتھ تھا۔ اس حوالے سے کچھ کرداروں بالخصوص عوامی لیگ کے سربراہ شیخ مجیب ا لرحمن اور بھارت کے کردار کا پہلے بھی کچھ ذکر ہو چکا ہے۔
یہ ایک کھلی حقیقت ہے جسے کسی صورت میں جھٹلایا نہیں جا سکتا کہ عوامی لیگ اور اس کے قائد شیخ مجیب الرحمن اور ان کے ساتھ بہر کیف مشرقی پاکستان کی پاکستان سے علیحدگی اور اس کی جگہ پر الگ ریاست بنگلہ دیش کا قیام ہر صورت میں چاہتے تھے۔ شیخ مجیب الرحمٰن نے فروری 1996میں اس دور کی اپوزیشن جماعتوں کی لاہور میں منعقدہ آل پارٹیز کانفرنس میں اپنے6نکات پیش کئے تو گویا یہ صوبائی خودمختاری کے نام پر مشرقی پاکستان کی متحدہ پاکستان سے علیحدگی اور اس کی جگہ پر بنگلہ قومیت کے نام پر ایک الگ ریاست کے قیام کا پیش خیمہ تھے۔ اس دوران یعنی گزشتہ صدی کے 60کے عشرے کے آخری برسوں میں جب پاکستان میں پہلے صدر ایوب کی فوجی حکومت قائم تھی اور بعد میں کمانڈر انچیف جنرل آغا محمد یحییٰ خان کا مارشل لاء نافذ تھا تو مشرقی پاکستان میں پہلے سے موجود بنگالی قومیت اور مغربی پاکستان سے نفرت کے جذبات کو شیخ مجیب الرحمٰن نے خوب ہوا دی۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ یہ جذبات بتدریج علیحدگی، فتنہ فساد اور ایک طرح کی بغاوت کا روپ دھارنے لگے۔ اس دوران شیخ مجیب الرحمٰن کے بھارت کے ساتھ خفیہ روابط جہاں مضبوط ہوئے وہاں مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے لئے بھارت کی ایما پر اگر تلہ سازش کی منصوبہ بندی بھی سامنے آئی۔ دسمبر1970کے عام انتخابات میں جو عوامی لیگ نے شیخ مجیب الرحمٰن کے 6نکات کو بنیاد بنا کر مکمل خود مختاری کے حصول کی بنیاد پر لڑے تھے ان میں عوامی لیگ کی لینڈ سلائیڈ وکٹری نے شیخ مجیب الرحمٰن کو "بنگلہ بدھو"ہی نہ بنا دیا بلکہ ان کی جماعت کے مشرقی پاکستان کے علیحدگی اور آزاد ریاست بنگلہ دیش کے قیام کے منصوبے کو اور بھی آسان بنا دیا۔ 1971ء کی پہلی سہ ماہی میں جب عام انتخابات کی بنیاد پر وجود میں آنے والی دستور ساز اسمبلی کا ڈھاکہ میں اجلاس بلانے اور اقتدار کی منتقلی کے حوالے سے فیصلہ سازی کرنے کے بارے میں جنرل یحییٰ خان کی فوجی حکومت کے شیخ مجیب الرحمٰن اور مغربی پاکستان میں دستور ساز اسمبلی کی اکثریتی نشستوں (کل 139میں سے 81) پر کامیابی حاصل کرنے والی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین جناب ذو الفقار علی بھٹو کے درمیان مذاکرات ہو رہے تھے تو ساتھ ہی مشرقی پاکستان کے تمام بڑے شہروں اور قصبات میں شیخ مجیب الرحمٰن کی جماعت عوامی لیگ کی ایما اور اپیلوں پر آئے روز احتجاجی مظاہروں، ہڑتالوں اور ہنگاموں کا سلسلہ بھی زور پکڑتا رہا۔
اس دور میں ڈھاکہ میں ہونے والے خونریز فسادات جو بتدریج مسلح بغاوت کی صورت اختیار کرتے جا رہے تھے کی تفصیل میں نہیں جاتے کہ ان کا کچھ ذکر پہلے ہو چکا ہے۔ تاہم 26مارچ1971ء کی رات کو مسلح باغیوں اور عوامی لیگ کی ذیلی تنظیم مکتی باہنی کے مسلح غنڈوں کے خلاف شروع کیا گیا فوجی آپریشن سرچ لائٹ شیخ مجیب الرحمٰن کی عوامی لیگ کو مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے اپنے دیرینہ خواب کو عملی جامہ پہنانے کے لئے ایک فیصلہ کن موڑTurning Point ثابت ہوا۔ اس رات پاکستان فوج کے ایک دستے نے شیخ مجیب الرحمٰن کو ان کے گھر سے حراست میں لے لیا لیکن ان کی جماعت کے کئی اہم رہنما فرار ہو کر بھارتی بنگال (مغربی بنگال) کے صدر مقام کلکتہ پہنچنے میں کامیاب ہو گئے۔ جہاں انہوں نے جلد ہی بنگلہ دیش کی جلاوطن حکومت قائم کر لی۔ اس جلا وطن حکومت کو اس دور کی بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی کی حکومت کی مکمل تائید، بھر پور تعاون اور بڑھ چڑھ کر حمایت حاصل تھی۔ یہاں تک کہ بھارتی لوک سبھا میں بنگالی علیحدگی پسندوں اور باغیوں کے حق میں قرار داد بھی منظور کی گئی جس میں کہا گیا کہ "یہ ایوان باغیوں کو یقین دلانا چاہتا ہے کہ ان کی جدو جہد اور قربانیوں کو بھارت کی بھر پور ہمدردی اور حمایت حاصل رہے گی"۔
مغربی بنگال کے دار الحکومت کلکتہ میں عوامی لیگ کے مغرور باغی لیڈروں پر مشتمل بنگلہ دیش کی جلا وطن حکومت کے قیام سے بھارت کو جہاں اس جلا وطن حکومت کے نام پر مغربی پاکستان میں علیحدگی پسندوں اور مسلح باغیوں کی مدد کرنے کی سہولت اور آزادی حاصل ہو گئی وہاں مسلح باغی اور مکتی باہنی کے غنڈے پاکستانی فوج کے دستوں اور متحدہ پاکستان کے حامی عناصر کو بھی پہلے سے زیادہ نشانہ بنانے لگے۔ یہ سلسلہ اگلے 7/8ماہ تک چلتا رہا۔ یہاں تک کہ 3دسمبر1971ء کو پاکستان اور بھارتی کے درمیان باقاعدہ جنگ شروع ہو گئی اور بھارتی فوجیں سرحد عبور کرتے ہوئے مشرقی پاکستان میں داخل ہوئیں تو پورے مشرقی پاکستان میں پھیلے ہوئے علیحدگی پسندوں، مسلح باغیوں اور عوامی لیگ کی ذیلی تنظیم مکتی باہنی کے غنڈوں کی انہیں بھر پور مدد اور حمایت حاصل تھی۔ اس کا نتیجہ لا محالہ پاکستانی فوج کے ہتھیار ڈالنے اور پاکستان کی شکست کی صورت میں ہی نکلنا تھا جو 16دسمبر1971ء کو ڈھاکہ کے پلٹن میدان میں پاکستان کے فوجی کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل میر عبد اللہ خان نیازی کے اپنے مد مقابل بھارتی لیفٹیننٹ جرنیل جنرل جگجیت سنگھ اروڑاکے سامنے ہتھیار ڈالنے اور شکست کی دستاویز پر دستخط کرنے کی صورت میں ساری دنیا نے ہی نہیں چشم فلک نے بھی دیکھا۔ (جاری ہے)