ایک چھوٹی سی خبر جو آئندہ بڑا بننے جا رہی ہے وہ ہے وزیراعظم نے علیم خان کو پنجاب حکومت گرانے کا ٹاسک دے دیا۔ دراصل ساری بات بھروسے اور اعتبار کی ہے۔ پچھلے اخبارات اور بیانات دیکھ لیں نیازی صاحب کا کوئی ایک بیان دوسرے اپنے ہی بیان سے نہیں ملتا۔ آج ان کے فالوورز بھی ان کی اندھی تقلید بھلے کریں مگر وہ بھروسہ نہیں کرتے کہ نیازی صاحب جو کہہ رہے سچ اور اٹل ہے حتیٰ کہ ان کے زخموں پر بھی اعتبار نہیں کر رہے۔ زمان پارک پر آج کل عذاب کی صورت میں موجود ہیں ان کی طرف چلنے والی نہر کنارے سڑک پر میڈیا کی گاڑیوں کی بھرمار کی وجہ سے ٹریفک جام ہو جاتی ہے میں نے ایک آدمی سے پوچھا کہ کیا ہوا کوئی حقیقی سیاستدان اس کو ملنے آیا ہے۔ اس نے کہا نہیں کیدو نے وخت ڈالا ہے اور یہ میڈیا کی گاڑیاں اس کے جھوٹ کو پھیلانے کے لیے کھڑی ہیں۔ بہرحال آتے ہیں موضوع کی طرف واقعی کسی نے سچ کہا تھا کہ موصوف لمحہ موجود میں جو حرکت خود کر رہے ہوتے ہیں عین اسی وقت اس کا الزام دوسروں پہ رکھ دیتے ہیں۔ علیم خان نے موصوف پر اربوں کھربوں خرچ کیے اور نتیجہ میں منافقت ملی۔ علیم خان نے اب تک کاروبار سے پیسہ کمایا ہے سیاست میں خرچ کیا ہے گو کہ خبر چھوٹی ہے مگر یہ بہت بڑے نتائج دے گی کیونکہ علیم خان قابل بھروسہ اور کھری بات کرنے والے شخص ہیں اور پرویز الٰہی جانتے ہیں جب ق لیگ کی پرویز مشرف کی چھتری تلے حکومت بنی تھی پرویز الٰہی پنجاب کے وزیر اعلیٰ مقرر ہوئے کابینہ مکمل ہو گئی علیم خان صاحب نے ارادہ کیا کہ پنجاب کی وزارت لینی ہے جو کہ چودھری پرویز الٰہی نہیں چاہتے تھے کابینہ مکمل ہو گئی، علیم خان صاحب نے آخری لمحوں میں گردن پہ گوڈا رکھ کر وزارت لی۔ اس سارے قصے کا میں چشم دید گواہ ہوں۔ اللہ جنت نصیب کرے جنرل حسین مہدی صاحب نے صرف ایک کال کی اور پھر علیم خان چاہے وزیر بے محکمہ مگر فوری طور پر وزیر بن گئے بعد میں محکمہ بھی مل گیا لہٰذا پرویز الٰہی ان کی قوت ارادی، تعلقات اور بڑے دل سے واقف ہیں وہ تو عمران خان ہی محسن کش طبیعت کے ساتھ دنیا میں تشریف لائے کہ ضیاالحق کو بھی مات دے گئے۔ علیم خان نے اسلام آباد میں نیازی صاحب سے ملاقات کی جس نے ان کو وزیراعلیٰ بنانے کی خوش خبری دی۔ مگر ابھی کلر کہار پہنچے تھے کہ نیب کا فون آ گیا اور علیم خان کے نیب دورے اور قیام شروع ہو گیا۔ چودھری پرویز الٰہی اتنے خوفزدہ تھے کہ عمران خان کو علیم خان کے خلاف بھڑکاتے رہے جس سے ان کی دوریوں اور علیم خان سے خوف میں اضافہ ہو گیا۔ علیم خان کی پریس کانفرنس پر میں نے کالم لکھا تھا ”علیم خان کی پریس کانفرنس، عمران حکومت کی آخری رسومات“ اور پھر ساری دنیا نے چاروں صوبوں میں حکومت، اسٹیبلشمنٹ سے قربتوں کے باوجود عمران حکومت کی آخری رسومات ادا ہوتے دیکھیں لہٰذا یہ چھوٹی خبر بڑی بن کر فیصلہ دینے والی ہے پرویز الٰہی اگر وزیراعلیٰ رہے تو پی ٹی آئی کے نہیں ہوں گے۔ اب آتے ہیں عمران نیازی پر ایک زمانہ گواہ ہے کہ وہ کبھی اپنی بات پر قائم نہیں رہے وفا تو دور کی بات الٹا جفا
پر اتر آتے ہیں۔ اگلے دن بیان دیا کہ اپریل میں انتخابات ہوتے نظر آ رہے ہیں اس کے دوسرے دن فرمایا کہ ابھی الیکشن نظر نہیں آ رہے۔ سائفر کے بعد بیان دیا کہ میرے خلاف سازش پاکستان میں ہوئی گویا امریکہ سے معاملہ صاف۔ ویسے غور کریں تو ضیا الحق کے بعد امریکہ کو Serve عمران خان نے سب سے زیادہ کیا۔ سی پیک کا جمود سب کے سامنے ہے۔ اپنی حکومت کا جانا سازش قرار دیتے ہیں حالانکہ یہ تو 2020 میں پی ڈی ایم کے ایجنڈے میں
شامل تھا۔ ہم ان کی بلیو (رنگین) آڈیوز لیک کی بات نہیں کرتے اپنے منشور پر موصوف ایک فیصد بھی عمل نہ کر پائے۔ انتقام کو احتساب کا نام دیا۔ جو کیا وہ سب کے سامنے ہے۔ اگلے روز ایک مذاکرے میں مرتضیٰ سولنگی صاحب نے ضیغم خان صاحب سے سوال کیا کہ اس دور میں جب معاشرت برباد ہو چکی سیاست گند میں بدل گئی۔ محترمہ بے نظیر بھٹو شہید اگر ہوتیں تو کیسے ان حالات میں شائستگی کو برقرار رکھ پاتیں۔ ضیغم خان نے جواب دیا وہ ہوتیں تو یہ نہ ہوتے گویا عمران نیازی تانگے کی سواری سے یہ حیثیت حاصل کر پاتے نہ سیاست و معاشرت میں تباہی آتی۔ عمران نیازی کی سیاسی زندگی میں کوئی ایک سچ کسی کو یاد ہو تو مجھے ضرور بتا دے وہ صرف اور صرف نفرت اور بیانیہ فروش ہیں، حملے میں لگنے والی گولیوں کی تعداد تک جاننے سے لوگ محروم ہیں۔ موصوف لاہور کی ٹریفک بلاک کر کے بیٹھے ہیں مذہبی ٹچ، نفرت، تکبر، کہہ مکرنی، نااہلیت، جعلی مقبولیت، احسان فراموشی اور محسن کشی عمران نیازی کو ماضی بنا گئی۔ دوسری جانب دیکھا جائے تو پاکستانی سیاست کا سب سے مظلوم، موثر اور مضبوط کردار آصف علی زرداری جنہوں نے تین لفظوں میں نیازی کی داستان سنا دی کہ اس کی بنیادیں پاکستان میں نہیں باہر ہیں، اس نے کبھی گرم پانی نہیں پیا، میں پی ٹی آئی کو سیاسی جماعت ہی نہیں مانتا۔ اس میں گالی، الزام اور دشنام طرازی نہیں۔ زرداری صاحب نے اسحاق خان، لغاری، میاں نوازشریف، مشرف اور عمران کی جیل کاٹی۔ اسٹیبلشمنٹ، میڈیا، سرمایہ دار، امریکہ، عدلیہ حکومت سب خلاف تھے 12 سال سے زائد جیل نے کچھ ثابت نہ کیا اور نیازی آج بھی ان سے خوفزدہ ہے۔ میاں نوازشریف کی سیاسی داستان سب کے سامنے ہے تین حکومتیں نااہلیت نہیں طاقتوروں کے سامنے کھڑا ہونے کی وجہ سے گنوائیں۔ عمران صرف نااہلیت کی بنیاد پر عدم اعتماد کے نتیجے میں فارغ ہوئے۔ اس دور میں نئی سیاسی قیادتوں میں مریم نواز ابھر کر سامنے آئی ہیں۔ میرے دوست ابرار بھٹی (مرحوم) عمران نیازی کے خلاف ہو گئے تھے۔ میں نے وجہ پوچھی تو انہوں نے کہا کہ ہم خاندانی سیاست کا خاتمہ کرنے کی امید رکھتے تھے عمران نے اس کو اگلی نسلوں میں منتقل کر دیا ان کی نااہلیت نے مریم نواز کے وزیراعظم بننے کے مواقع روشن کر دیئے۔ دوسری قیادت بلاول بھٹو ہیں جنہوں نے 8 ماہ میں وزارت خارجہ میں ان گنت کامیابیاں حاصل کیں اور بیرونی دورے اپنے ذاتی خرچ پر کر کے عمران کی طرف سے پونے دو ارب کے بے ہودہ الزام کو جھٹلا دیا۔ بندہ پوچھے وزیر خارجہ کا کام ہی کیا ہے، کیا وہ آپ کے وزیر خارجہ کی طرح بلاول کی ریلی کے مقابلے میں ریلی نکالے اور خود ستائشی اور عمران کی ستائش میں لگ جائے۔ بلاول بھٹو نے نسل در نسل مخالفین سے اپنے کام کی وجہ سے تعریف کرائی۔ بلاول بھٹو نے کہا تھا کہ اگر اسٹیبلشمنٹ ساتھ نہ ہو تو نیازی کا اقتدار ایک ہفتے میں فارغ ہے وہی ہوا اسٹیبلشمنٹ نے غیر جانبداری کا مکمل مظاہرہ بھی نہ کیا تھا کہ نیازی صاحب سنبھلنے کے لیے دیوار کی جس اینٹ کو ہاتھ ڈالتے وہ اینٹ ہاتھ آ جاتی۔ ایک صاحب جیولر کی دکان پر کام کرتے ہیں 6 ماہ پہلے ملاقات ہوئی تو لوگ دوسرے سیلز مین کے منہ پر انگلی رکھتے کہ ان کے سامنے عمران کے خلاف بات نہیں کرنا۔ ایک دوسرے کو منع کرتے، نمازی پرہیز گار آدمی ہیں۔ کاشف زمان خان نام ہے۔ رات میں نے کہا سنائیں نیازی صاحب کی بات انہوں نے کہا سر ہم تو صرف اللہ اور اس کے رسولؐ کے نام اقدس کی وجہ سے ساتھ ہوتے تھے۔ نیازی صاحب تو ان کے احکامات کے بالکل الٹ نکلے (وہ آڈیوز اور کہہ مکرنیوں کے متاثرین میں سے ہیں)۔ اب اسٹیبلشمنٹ غیر جانبدار ہے اور علیم خان نے ڈانگ چلانی ہے، پرویز الٰہی یا عمران کے لیے نہیں اپنے ساتھ زیادتیوں کا ازالہ کرانے کے لیے تو پرویز الٰہی اندازہ کر لیں کیا حشر کریں گے۔ المختصر آصف علی زرداری، بلاول بھٹو، علیم خان، میاں صاحبان پر لوگ بھروسہ کرتے ہیں جبکہ نیازی صاحب کو تو اب خود بھی اپنی زبان پر بھروسہ نہیں۔ کہاوت ہے کہ مال گیا تو سمجھو کچھ گیا ہے، صحت گئی تو بہت کچھ چلا گیا اور اگر لوگوں کا آپ کی زبان اور بات پر سے بھروسہ اور اعتماد اٹھ گیا تو کچھ باقی نہیں بچا۔ یہ ٹوئٹر کی مقبولیت کام نہ آئے گی۔ چھوٹی خبریں بڑے نتائج دینے والی ہیں۔