پاکستان کی افغان پالیسی کیا ہے؟ ہم طالبان حکومت کے ساتھ ہیں یا ہم امریکی اتحادی کے طور پر طالبان کو، ان کی حکومت کو ناکام بنانے کی امریکی پالیسی پر عمل پیرا ہیں؟ کیا ہم جاری معاشی اور سیاسی صورت حال میں اپنی افغان سرحدوں پر کسی قسم کی کشیدگی برداشت کر سکتے ہیں؟ کیا ہندوستان پاکستان کے خلاف پراکسی وار کے لئے افغانستان میں دوبارہ قدم جما رہا ہے؟ کیا امریکہ بھارت گٹھ جوڑ نہ صرف افغانستان میں خانہ جنگی کرانے اور پاکستان میں دہشت گردی کی ایک نئی لہر اٹھانے کے لئے کوشاں ہے؟ یہ ایسے سوالات ہیں جن کے جواب تلاش کرنے کی کوشش کرنا ہمارے قومی اور عوامی مفاد میں ایسے ہی ضروری ہیں جیسے پی ڈی ایم اور پی ٹی آئی کا پاکستان کو معاشی مسائل سے نکالنے کے لئے میثاق معیشت پر متفق ہونا ضروری ہے۔ مسئلہ افغانستان کو حل کرنا ایسے ہی ضروری ہے جیسے پاکستان کے جاری سیاسی حالات کو درست کرنا پاکستان کے قومی اور اجتماعی مفاد کے لئے ضروری ہے۔
پاکستان 1978 میں افغانستان میں انقلاب ثور کے وقت سے خطے کے معاملات میں براہ راست دخیل ہو چکا ہے۔ انقلاب ثور کے نتیجے میں افغانستان میں طویل بادشاہت کا خاتمہ ہوا۔ سردار داؤد کو قتل کر کے کمیونسٹ، حفیظ اللہ امین کی قیادت میں کابل پر قابض ہو گئے۔ پھر افغانستان کی کمیونسٹ پارٹی کے پرچمی اور خلقی دھڑوں کے درمیان حصول اقتدار کی جنگ شروع ہو گئی جو 24 دسمبر 1979 میں سوویت افواج کے کابل پر قبضے کی صورت میں انجام پذیر ہوئی اور اشتراکی افواج کی زیرحراست ببرک کارمل تخت کابل پر براجمان ہو گئے۔
کمیونسٹوں کے خلاف پہلے سے جدوجہد کرنے والے گروپوں نے افغانستان کی آزادی کے لئے اشتراکی قبضے کے خلاف آزادی کی جنگ شروع کی جس نے جہاد افغانستان کی شکل اختیار کر لی۔ پاکستان کے حکمران جنرل ضیاء الحق نے اس جنگ میں کودنے اور افغانوں کی تحریک آزادی کو سپورٹ کرنے کا فیصلہ کیا اس طرح مجاہدین افغانستان، پاکستان کی سرپرستی اور عیسائی مغربی اقوام اور مسلمان عرب حکمرانوں کی چھتر چھایہ تلے اشتراکی افواج کو شکست دینے میں کامیاب ہو گئے۔ 1979 تا 1988 جنرل ضیاء الحق کی قیادت میں پاکستان عالمی و علاقائی سیاست میں مسئلہ افغانستان کے حوالے سے قائدانہ کردار ادا کرتا رہا لیکن جب اشتراکیوں نے یہاں سے واپسی کا فیصلہ کیا تو مجاہدین اپنی فتح کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے بجائے حصول اقتدار کے لئے آپس میں گتھم گتھا ہو گئے۔ پاکستان میں محمد خان جونیجو اور پھر بے نظیر بھٹو کی حکومتیں افغانستان میں مجاہدین کی فتح کو اپنے حق میں استعمال نہ کر سکیں۔ جنیوا امن معاہدے کے
نتیجے میں اشتراکی افواج کو انخلا کا محفوظ راستہ مل گیا امریکہ نے سوویت یونین پر فتح پائی اور ہم سارے معاملے میں امریکی ایجنٹ قرار پائے۔ 17 اگست 1988 ایک سازش کے نتیجے میں جنرل ضیاء الحق اور ان کے ساتھیوں کو منظر سے ہٹا دیا گیا۔ امریکہ نے ہماری امداد سے ہاتھ کھینچ کر ہمیں بیچ منجدھار چھوڑ دیا۔ ہماری افغان پالیسی ہمارے کام نہ آ سکی۔
2001 میں امریکہ پر دہشت گردوں کے حملوں کے بعد ہمیں دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ میں ایک بار پھر امریکی حلیف بننا پڑا لیکن اس مرتبہ ہم طالبان کی قیادت میں لڑی جانے والی تحریک آزادی کو کچلنے کے لئے امریکی حلیف تھے ہماری دہائیوں سے جاری افغان پالیسی میں 180 درجے کا یوٹرن لیا گیا۔ 20 سال تک ہم امریکی حلیف بن کر افغان عوام کی جدوجہد آزادی کو کچلنے والوں کے حلیف بنے رہے۔ جنرل مشرف کی ایسی پالیسی نے پاکستان میں دہشت گردی کی فضا کو جنم دیا۔ ڈیورنڈ لائن کے اس پار جاری جنگ اُمڈکر اِس پار آ گئی اور پھر کوہ ہندوکش سے کراچی کے ساحلوں تک پاکستان کی سرزمین پر پھیل گئی اس دوران ہم نے 100 ارب ڈالر سے زائد کا مالی نقصان اٹھایا۔ 70 ہزار انسانی جانوں کا نذرانہ بھی پیش کیا اور پھر کابل میں افغان عوام کے آدرشوں کے مطابق حکومت قائم کرانے کے لئے امریکیوں کو اپنا کندھا بھی پیش کیا۔ طالبان کو امریکیوں کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بٹھانا کوئی سہل کام نہیں تھا ہم نے یہ بھی کر دکھایا پھر ان مذاکرات کو کامیاب بنانے کے لئے ہم نے اپنا اثرورسوخ بھی استعمال کیا۔ دوحا امن معاہدہ امریکیوں کے لئے ایسے ہی باعث برکت ثابت ہوا جیسے اشتراکیوں کے لئے جنیوا امن معاہدہ تھا جس نے اشتراکیوں کو افغانستان سے نکلنے کے لئے محفوظ راستہ مہیا کیا تھا ایسے ہی دوحا امن مذاکرات کے ذریعے امریکی اتحادی افواج دم دبا کر بخیروعافیت کابل سے نکلنے میں کامیاب ہو گئیں اس دفعہ کابل میں طالبان ایک بار پھر حکمران ہو گئے ہم نے کابل میں جشن فتح منایا۔ ہم 2001 میں امریکی حملے سے پہلے طالبان حکومت کے معاون، ساتھی اور دوست تھے۔ اب بھی ہم طالبان حکومت قائم کرانے میں ممدومعاون تھے اور امید کی جا رہی تھی کہ اب پاکستان خطے میں جاری معاملات میں قائدانہ کردار ادا کرے گا۔ ہماری افغان سرحدیں محفوظ ہو جائیں گی۔ ہمارے ہاں دہشت گردی کا خاتمہ ہو جائے گا اور آپریشن ضرب عضب اور ردالفساد کی کامیابوں کے ثمرات اور برکات ہمارے ملک پر نازل ہونے لگیں گے لیکن ایسا نہیں ہو پایا۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے؟ طالبان ہمارے دوست تھے یا یوں کہئے 2001 سے پہلے ہم طالبان کے دوست تھے ہم نے ان کی قائم کردہ حکومت کو تسلیم کیا تھا ان کی مدد کی تھی اور ایسا تاریخ میں پہلی مرتبہ ہوا تھا کہ کابل میں پاکستان دوست حکومت قائم ہوئی تھی 2001 کے بعد ہم نے اپنے ہی دوستوں کے خلاف امریکی اتحادی بننا قبول کیا لیکن 2021میں ہم نے ایک بار پھر دوستوں کا کردار ادا کیا اور کابل میں طالبان حکومت قائم کرنے میں مثبت کردار ادا کیا۔ لیکن یہ سب کچھ ہمارے حق میں بہتر ثابت کیوں نہیں ہو رہا ہے افغانستان کی سرزمین دہشت گردوں کے لئے جائے پناہ بنی ہوئی ہے وہ ہم پر خودکش حملے کر رہے ہیں۔ ہماری سرحدی چوکیاں بھی محفوظ نہیں وہ کابل حکومت کے نشانے پر ہیں۔
حالات اور واقعات بتا رہے ہیں کہ ہماری افغان پالیسی ثمرآور نہیں ہے اس میں کہیں جھول ہے کمزوری ہے۔ بنیادی غلطی ہے۔ وہ جاری حالات اور واقعات کی ذمہ دار بھی لگ رہی ہے اور منفی معاملات کو بڑھاوا بھی دے رہی ہے۔ طالبان حکومت کے قیام کے بعد ہمارے قدم وہاں جم نہیں پا رہے ہیں ہم ان کی مدد بھی کر رہے ہیں اور ذلیل بھی ہو رہے ہیں۔ سرحدیں تو غیرمحفوظ ہیں ہی ہمارا سفارت خانہ بھی محفوظ نہیں ہے۔ ایسے میں ہمیں سوچنا چاہئے کہ ہمیں کیا کرنا چاہئے؟ ہمیں اپنی افغان پالیسی پر سنجیدگی سے غوروفکر کر کے اسے جاری حالات و واقعات کے مطابق ترتیب دینا چاہئے۔