بی جے پی اور آر ایس ایس حکومت کا ریکارڈ اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں سے بھرا پڑا ہے۔ بھارت میں مسلمانوں اور اقلیتوں کے خلاف روا رکھے جانے والے غیر انسانی سلوک، تشدد اور قتل جیسے واقعات کے بعد ایمنسٹی انٹرنیشنل، ہیومن رائٹس واچ سمیت کئی عالمی تنظیمیں تشویش کا اظہار کرچکی ہیں۔
بھارت میں لاکھوں افراد کو بھوک اور مصائب میں پھنسانے والی مودی سرکار اپنی ناکام پالیسیوں کو چھپانے کے لیے نت نئے سماجی اور مذہبی مسائل پیدا کررہی ہے۔ نریندر مودی کے دوسری بار وزیر اعظم بننے کے بعد بھارت میں موجود اقلیتوں پر تشدد، دھمکانا، ان کو ہراساں کرنا اور ہجوم کے تشدد میں بہت اضافہ ہوا ہے اور یہ بات بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہی ہے کہ ہندو مذہبی انتہا پسندوں کو مودی سرکار کی حمایت حاصل ہے۔
بھارت کے معروف اداکار نصیر الدین شاہ نے خبردار کیا ہے کہ اگر ہندو انتہا پسندوں کی طرف سے مسلم مخالف مہم جاری رہی تو بھارت میں خانہ جنگی شروع ہو جائے گی۔ اگر مسلمانوں کی نسل کشی کی کوششیں فوری طور پر بند نہ ہوئیں تو ہندوستان کے مسلمان جوابی جنگ لڑیں گے۔ اگر نوبت یہاں تک آتی ہے، تو ہم اپنی بقا کی جنگ لڑیں گے اسی طرح ہم اپنے گھروں، اپنے خاندان، اپنے بچوں کا دفاع کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا’’ 10 دن پہلے ہریدوار میں مسلمانوں کی نسل کشی اور نسلی صفائی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ میں حیران ہوں کہ کیا وہ جانتے ہیں کہ وہ کس کے بارے میں بات کر رہے ہیں؟ 200 ملین مسلمانوں کے ساتھ لڑا جاسکتا ہے کیا ؟۔ ‘‘ہم بھارتی مسلمان یہاں سے تعلق رکھتے ہیں. ہم یہیں پیدا ہوئے اور یہیں رہیں گے۔‘‘تین سال قبل بھی نصیرالدین شاہ نے ملک میں بڑھتی ہوئی مذہبی منافرت پر تشویش کا اظہار کیا تھا اور کہا تھا کہ یہ ’زہر پورے ملک میں پھیل چکا ہے اور اس کے جلد قابو میں آنے کے امکانات نظر نہیں آرہے ہیں‘۔ اس کے ساتھ انھوں نے اپیل کی تھی کہ وہ ’موجودہ ماحول سے خوف نہ کھائیں بلکہ اس کے خلاف آواز اٹھائیں‘۔
مودی کے بھارت میں مسلمانوں کو پسماندہ اور بے کار بنایا جا رہا ہے۔ وہ دوسرے درجے کے شہری بننے کے عمل میں ہیں اور یہ ہر شعبے میں ہو رہا ہے۔ مسلمانوں کو غیر محفوظ بنانے کی ٹھوس کوشش کی جارہی ہے۔ بڑھتی مذہبی منافرت پر وزیراعظم نریندر مودی کی خاموشی سے لگتا ہے کہ انہیں حالات کی کوئی پروا نہیں یا سب کچھ ایک منصوبے کے مطابق ہو رہا ہے۔
بھارت میں جب سے بی جے پی اقتدار میں آئی ہے تب سے بھارتی معاشرے میں نفرت اور مذہبی منافرت پھیلائی جارہی ہے۔ بھارت میں مسلمانوں اور اقلیتوں کو آئے روز جبر و ستم یا تعصب کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔گزشتہ برسوںکی طرح اس برس بھی اونچی ذات کے ہندوؤں کی جانب سے نچلی ذات کے ہندوؤں، مسیحیوں اور مسلمانوں کے خلاف تعصب اور بدسلوکی کے متعدد واقعات سامنے آئے ہیں۔ مسلمان بھارت میں سب سے بڑی اقلیت ہیں جو تقسیم ہند سے قبل ہندوستان میں سیکڑوں برس حکمران بھی رہے۔ تاہم تقسیم ہند کے بعد سے بھارت میں مسلمانوں کو تعصب کا سامنا رہا اور بھارت کے بانی رہنماؤں میں سب سے معروف موہن داس کرم چند گاندھی کو ہی 1948 میں ہندو مسلم اتحاد کی حمایت کرنے پر ایک ہندو انتہا پسند نتھورام گوڈسے نے قتل کردیا تھا۔ہندو مسلم اتحاد کی حمایت کرنے پر ہندو انتہا پسندوں کی اکثریت مہاتما گاندھی کو ’’ غدار‘‘ قرار دیتی ہے حالانکہ وہ خود ایک کٹر ہندو تھے، اب تو نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے گاندھی کے قاتل گوڈسے کو ہیرو قراردیا جارہا ہے۔
بھارت میں اقلیتوں کے خلاف جو ظلم و جبر روا رکھا جا رہاہے اس کے مظاہر وقتاً فوقتاً سامنے آتے رہتے ہیں۔وہاں اقلیتیں قطعی طورپر غیر محفوظ ہیں ان پر مختلف حیلوں بہانوں سے عرصہ حیات تنگ کیا جارہا ہے۔مذہبی جنونی ان اقلیتوں کو مذہب تبدیل کرنے پر مجبور کرنے کے لیے ان پر ظلم کے پہاڑ توڑرہے ہیں۔بھارت میں مودی سرکار مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کے علاوہ دوسرے صوبوں میں رہنے والے مسلمانوں اور سکھوں کے ساتھ بھی اسی قسم کا سلوک روا رکھے ہوئے ہے۔جس کے رد عمل میں بھارتی حکومت کے خلاف ان کے دلوں میں نفرتوں کا لاوا پکتا جا ر ہاہے جو کسی بھی وقت پھٹ پڑے گا۔اس وقت بھارت کے مختلف حصوں میں دو درجن سے زائد آزادی کی تحریکیں چل رہی ہیں۔ان میں سب سے بڑی اور موثر تحریک خالصتان کی تحریک ہے۔ملک کے اندر ہی نہیں ملک سے باہر بھی جس نے اپنے وجود کا احساس دلا رکھا ہے اور بھارتی حکومت کی طرف سے جسے دبانے کی تمام تر کوششیں اور حربے ناکام ہو چکے ہیں۔بھارتی سکھ کسانوں کے احتجاج اور خالصتان تحریک کے حامیوں کے خلاف اب تک 80 جعلی بھارتی سوشل میڈیا اکائونٹس بے نقاب ہو چکے ہیں جو مودی سرکار کے بیانئے اور ہندو قوم پرست نظریات کو فروغ دے رہے تھے۔اس طرح جعلی پراپیگنڈا کرکے مودی سرکار دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کرتی رہی وہ پاکستان کے خلاف بھی جھوٹا پراپیگنڈا کرتی رہتی ہے۔لیکن اس کی ان تمام چالبازیوں اورمکر فریب کو دنیا جان چکی ہے۔اب ضرورت اس امر کی ہے کہ عالمی قوتیں بھارتی حکومت کی ان منفی چالوں کو روکنے کے لیے اسے لگا م دیں اور اسے اقلیتوں پر ظلم و ستم کے عمل کو روکنے کے لیے ٹھوس اور عملی اقدامات کریں۔