ایک خبر کے مطابق چند روز قبل ترجیحی شعبوں کے ایک جائزہ اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے ذخیرہ اندوزوں، منافع خوروں اور یوریا کھاد کی سمگلنگ میں ملوث افراد کے خلاف سخت کارروائی کی ہدایت کی۔ چنا نچہ اب دیکھنے کی با ت یہ ہے کہ وزیرِاعظم کی اس ہد ایت پہ کس حد تک عمل ہو تا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک سال میں کھادوں کی قیمتوں میں 112 فیصد اضافہ زرعی معیشت کا دعویٰ رکھنے والے ملک کے لیے غیرمعمولی تشویش کا موجب ہے۔ ایک اور خبر میں مختلف اقسام کی کھادوں کی قیمتوں میں ایک سال کے دوران ہونے والے اضافے کا جائزہ پیش کیا گیا جس کے مطابق ڈی اے پی کی قیمت ایک سال میں چار ہزار روپے سے بڑھ کر ساڑھے آٹھ ہزار کے قریب جبکہ پوٹاشیم سلفیٹ کی قیمت 4200 سے بڑھ کر 7200 روپے تک پہنچ گئی ہے۔ نائٹروفاس، امونیم نائٹریٹ اور یوریا کی قیمتوں میں بھی قریب دگنا اضافہ ہوا ہے، مگر المیہ یہ ہے کہ دگنا قیمتوں پر بھی اکثر کھادیں مارکیٹ میں دستیاب نہیں اور کاشتکار مسلسل ذخیرہ اندوزی اور بلیک مارکیٹنگ کی دہائی دے رہے ہیں۔ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے حکومت کی جانب سے کافی بیان بازی کی گئی، نومبر کے انہی دنوں میں خود وزیراعظم نے کھاد کا بحران پیدا کرنے والوں کے خلاف کارروائی کی ہدایت کی تھی مگر اس کا اثر کیا ہوا؟ کاشتکار بدستور کھاد کی بلیک مارکیٹنگ کا واویلا کرر ہے ہیں۔ صرف دگنا قیمتوں کا مسئلہ ہی نہیں کھادوں کی دستیابی کے شدید بحران کا بھی سامنا ہے۔ اصولی طور پر صوبائی حکومتوں کو اس صورت حال میں مداخلت کرنی چاہیے مگر صوبائی حکومتیں اس معاملے میں خاموش تماشائی ہیں۔ پتا نہیں کیوں؟ وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ہماری حکومت نے زرعی شعبے کو بہتر بنانے کا جامع منصوبہ وضع کیا ہے اور اس پر ترجیحی بنیادوں پر عمل درآمد کر رہی ہے۔ زرعی شعبہ نہ صرف خوراک او رملک کے سب سے بڑے برآمدی شعبے کے لیے خام مال کی پیداواری کا بنیادی ذریعہ ہے بلکہ روزگار کی فراہمی کا سب سے بڑا ذریعہ بھی ہے۔ ساڑھے چھ کروڑ افراد پر مشتمل ملک کی کل لیبر فورس کا 38 فیصد زرعی شعبے میں مصروفِ عمل ہے۔ خوراک کی پیداوار ، برآمدی صنعت کے لیے خام مال کی فراہمی اور روزگار کی سب سے بڑی مارکیٹ، یہ تین بنیادی اسباب زرعی شعبے کی اہمیت کو واضح کرنے کے لیے کافی ہیں۔ مگر زرعی شعبہ کبھی اس قدر حکومتی ترجیح حاصل نہیں کر پایا جس کا یہ حق دار ہے۔ اس کے نتائج خوراک کے بحران، ٹیکسٹائل کی صنعت کے لیے کپاس کی درآمد اور افرادی قوت کی گائوں اور قصبوں سے بڑے شہروں کی جانب نقل مکانی کی صورت میں واضح ہیں۔ ان نتائج میں ہر ایک کی بھاری قیمت اد اکی جاتی ہے مگر زرعی شعبے کی حقیقی ترقی کے لیے ضروری اقدامات کے ذریعے اس کا ازالہ نہیں کیا جاتا۔ موجودہ حکومت اس معاملے میں ماضی سے بڑی مثالیں فراہم کررہی ہے۔ گزشتہ برسوں کے دوران اربوں ڈالر صرف اناج کی درآمد پر خرچ کیے گئے، چینی کی درآمد پر جو اخراجات ہوئے وہ اس سے الگ ہیں۔ مجموعی طور پر دیکھا جائے تو گزشتہ مالی سال کے دوران اشیائے خوراک کی درآمد پر آٹھ ارب 34 کروڑ ڈالر خرچ کیے گئے۔ یہ اخراجات ایک برس پہلے کے مقابلے 54 فیصد زیادہ تھے۔ چینی، گندم، پام آئل اور دالیں خوراک کے شعبے کی بنیادی درآمدات تھیں اور اس اضافے کی بنیادی وجہ ملک میں پیداواری بحران تھا۔ کیا ہم خوراک کی ضروریات اسی طرح درآمدات سے پوری کریں یا ملکی زراعت کو ترقی دے کر خوراک کی درآمد پر اٹھنے والے اخراجات کو کم کریں گے؟ درآمدات سے خوراک کی مہنگائی میں اضافہ ہوگا اور عوام میں تشویش بڑھے گی۔ ملکی زراعت کی ترقی دوسرا آپشن ہے، اور خوش آئند بات یہ ہے کہ جب کبھی حکومتوں کی جانب سے زراعت کے لیے کوئی مثبت فیصلہ کیا گیا اس کے فوری اثرات سامنے آئے۔ یہ اثرات صرف پیداوار میں اضافے کی صورت میں ہی نہیں، دیہی آبادی کی آمدنی میں اضافے اور سماجی آسودگی کی صورت میں بھی واضح ہوتے ہیں۔ زراعت حقیقتاً وہ انجن ثابت ہوتی ہے جس سے انفرادی قوتِ خرید اور صنعتی پیداوار کی کھپت میں اضافہ ہوتا ہے۔ مگر حکومتوں کی جانب سے زراعت کی سرپرستی کے جذبے کا تسلسل بڑا محدود واقع ہوتا ہے۔ اکثر تو ایک آدھ فصل تک۔ مثال کے طور پر موجودہ حکومت کے پہلے دو برس کے دوران گندم کا بحران پیدا ہوا تو حکومت کو گزشتہ سال کے دوران گندم کی پیداوار بڑھانے کے لیے امدادی قیمت بڑھانے جیسے فیصلوں کا خیال آیا، اس کا نتیجہ رواں سال گندم کی ریکارڈ پیداوار کی صورت میں سامنے آیا۔ حکومت کا ہدف 26.7 ملین ٹن پیداوار تھا مگر پیداوار 28.7 ملین ٹن تک پہنچ گئی۔ اسی طرح کپاس کی گزشتہ برس
کی پیداوار ہدف سے 34 فیصد کم رہی اور ملکی ضرورت کے لیے قریب دو ارب ڈالر کی کپاس درآمد کرنا پڑی۔ اس کے بعد حکومت کو کپاس کی بہتری کے لیے اقدامات کا خیال آیا اور اس کا اثر یہ ہے کہ رواں سال کپاس کی پیداوار ستر لاکھ گانٹھ سے بڑھ چکی ہے جبکہ گزشتہ برس کی کل پیداوار 55 لاکھ گانٹھ تھی۔ مگر رواں سال کھاد کی ہوش ربا قیمتوں، بجلی اور ڈیزل کے نرخوں میں اضافے اور گندم کی امدادی قیمت نہ بڑھنے کی وجہ سے گندم کی بوائی کا ہدف پورا نہ ہونے کے خدشات ظاہر کیے جارہے۔ گندم اور کپاس سے آگے دالوں او رتیل دار فصلوں کی کاشتکاری کی جانب دیکھیں تو حالیہ چند برس کے دوران کوئی قابل ذکر حکومتی منصوبہ سامنے نہیں آیا۔ حکومت کی یہ ناکامی کھانے کے تیل اور دالوں کی درآمدات میں اضافے کی صورت میں واضح ہے۔ اسی طرح سبزیوں اور پھلوں کی پیداوار اور لائیو سٹاک کے شعبے میں بھی کوئی بڑا کام نظر نہیں آتا۔ ان حالات میں یہ سوچ کر حیرت ہوتی ہے کہ حکومت جب پیداوار میں اضافے کا دعویٰ کرتی ہے اور زرعی شعبے کو بہتر بنانے کے جامع منصوبے اور اس پر ترجیحی بنیاد پر عمل درآمد کا ذکر کرتی ہے تو اس سے آخر کیا مراد ہے؟ زمینی حقیقتوں میں تو نہ کوئی ایسا جامع منصوبہ نظر آتا ہے اور نہ ہی ترجیحی بنیادوں پر عمل درآمد۔ سٹیٹ بینک کی جانب سے حال ہی میں زرعی قرضوں میں اضافے کا ہدف ضرور مقرر کیا گیا ہے مگر سود کی شرح جس قدر بڑھائی جاچکی ہے اس کے ساتھ یہ قرض زرعی شعبے کے لیے کتنے فائدہ مند رہ گئے ہیں، اسے بھی دیکھنا چاہیے۔ یہ حقیقت ہے کہ ہمارے ہاں زراعت کو سرمایے کی کمی کا سامنا ہے مگر صرف سرمایہ کچھ نہیں کرسکتا جب تک کہ حکومت کی جانب سے اس شعبے کی بہتری کے لیے جامع حکمت عملی اور منصوبہ بندی نہیں کی جاتی۔ زرعی شعبے کی ترقی کے لیے جدید رجحانات کو اس شعبے میں متعارف کرانے کی اشد ضرورت ہے۔ جب تک یہ کام تسلسل کے ساتھ نہیں ہوتا اور زراعت حکومت کی مستقل ترجیحات میں شامل نہیں ہوتی، خوراک کی پیداوار، برآمدی صنعت کے لیے خام مال اور افرادی قوت کے لیے روزگار کے یقینی مواقع پیدا کرنے کا مسئلہ حل نہیں ہوسکتا۔