ٹوکیو: برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کے مطابق پاکستانی ہنرمند اور پڑھے لکھے افراد کیلئے سنہری موقع ہے کہ وہ جاپان میں اپنا مستقبل بنا سکتے ہیں۔
بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق جاپان کو اس وقت شدید افرادی قوت کی قلت کا سامنا ہے جو آئندہ 9 سالوں تک چونسٹھ لاکھ تک پہنچ جائے گی۔ اس موقع سے پاکستانی افراد بھرپور فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔
خیال رہے کہ جاپان کی بڑی آبادی بزرگ ہو چکی ہے۔ اس صورتحال کے پیش نظر خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ آئندہ سالوں میں افرادی قوت کا شدید بحران نہ پیدا ہو جائے۔ اس خلا کو پر کرنے کیلئے جاپان یقیناً دوسرے ملکوں کی جانب دیکھے گا۔ اس لئے پاکستانی پڑھے لکھے اور ہنرمند افراد کو اپنی قسمت آزمائی کی ترغیب دی جا رہی ہے۔
تاہم یہ بھی دھیان رہے کہ تارکین وطن کی بڑی تعداد یورپی ممالک، کینیڈا اور امریکا کو اس لئے ترجیح دیتے ہیں کیونکہ جاپان میں انھیں عالمی معیار کے تعلیمی اداروں کی کمی، ٹیکس اور دیگر مسائل ہیں۔
خیال رہے کہ وزیراعظم کے معاون خصوصی زلفی بخاری نے کچھ عرصہ قبل ہی پاکستان میں تعینات جاپانی سفیر سے ملاقات کی تھی۔ اس دوران مہمان سفیر نے انھیں بتایا تھا کہ ان کے ملک کو انفارمیشن ٹیکنالوجی (آئی ٹی) سے منسلک افراد کی ضرورت ہے جو کم وبیش 8 لاکھ بنتی ہے۔
تاہم اگر بیرون ملک جانے والے پاکستانیوں کا دیگر ممالک کے تارکین وطن سے موازنہ کیا جائے تو یہ عقدہ کھلے گا کہ پاکستان سے تعلق رکھنے والے زیادہ تر افراد مزدور طبقے سے تعلق رکھتے ہیں، ان میں پڑھے لکھے اور ہنرمند افراد کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہی ہوتی ہے، اس لئے پاکستانیوں کی کم علمی کا فائدہ دوسرے ممالک اٹھاتے ہیں، اس میں ہمسایہ ملک ہندوستان کی مثال سب کے سامنے ہے۔
تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو پاکستان کے جاپان کیساتھ 1952ء میں ہی تعلقات قائم ہو گئے تھے تاہم زیادہ تعداد میں پاکستانی وہاں جانے کیلئے راغب نہیں ہو سکے۔ اعدادوشمار کے مطابق صرف ایک ہزار 8 سو 84 پاکستانی ہی 1971ء سے رواں سال 2020ء تک جاپان گئے۔
جاپانی حکومت کی جانب سے جاری ڈیٹا میں اس بات کا پتا چلا ہے کہ تقریباً اٹھارہ ہزار پاکستانی ہی جاپان میں مقیم ہیں۔