موسمیاتی تبدیلی سے تنازعات اور اموات میں ہوشربا اضافےکا خدشہ: رپورٹ

موسمیاتی تبدیلی سے تنازعات اور اموات میں ہوشربا اضافےکا خدشہ: رپورٹ
سورس: File

واشنگٹن: معاشی بد حالی،غربت اور غذائی قلت کے ساتھ اس وقت دنیا کو  موسمیاتی تبدیلی کا ایک بہت بڑا مسئلہ درپیش ہے جس نے دنیا بھر میں موسموں کو تبدیل کر دیا ہے۔ جس کی وجہ سے گرمی کی شدت میں نا قابل یقین اضافہ ہو رہا ہے،  گلیشئیرز پگھل رہے ہیں۔ سمندروں کی سطح میں اضافہ ہو رہا ہے اور دنیا بھر میں ساحلوں کے قریب آباد شہروں کے ڈوب جانے کے خطرات بہت بڑھ گئے ہیں۔

بین الاقوامی مالیاتی فنڈ ( آئی ایم ایف)  نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ آب و ہوا کی تبدیلی، دنیا بھر میں کمزور ملکوں میں تصادم اور تنازعات میں اضافہ کرے گی جس کے نتیجے میں اموات میں اضافہ ہوگا۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ آب و ہوا کی تبدیلی سے صرف بد امنی اور بے چینی کے نئے واقعات میں ہی اضافہ نہیں ہو گا بلکہ لڑائیوں کی صورتحال بھی مزید بد تر ہو جائے گی کیونکہ پانی اور خوراک کے مسائل نئے تنازعات اور نئی جنگوں کو جنم دیں گے ، جس سے بھوک، افلاس غربت اور نقل مکانی جیسے مسائل مزید پیچیدہ ہو جائیں گے۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ 2060 تک  درجہ حرارت میں انتہائی اضافہ ہو گا  جس کی وجہ سے کمزور ، جنگوں اور تنازعات سے متاثرہ ملکوں میں جنہیں ایف سی ایس ممالک یعنی 'Fragile and conflict affected situations ' کہا جاتا ہے میں لڑائیوں کے نتیجے میں ہونے والی ہلاکتوں میں ساڑھے 8 فیصد اضافہ ہو سکتا ہے اور ان ملکوں میں اموات کی شرح 14 فیصد تک بڑھ سکتی۔

ورلڈ بینک نے39 ملکوں کو ایف سی ایس ممالک کی فہرست میں شامل کیا ہے، جن میں تقریباً ایک ارب لوگ رہتے ہیں۔ جو دنیا کے غریب افراد کا 43 فیصد ہیں۔ اور ان میں سے آدھے سے زیادہ ملک براعظم افریقہ میں ہیں جنہیں آب و ہوا کی تبدیلی کے اثرات کا سب سے زیادہ سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

آئی ایم ایف نے خبردار کیا ہے کہ ان ملکوں میں پانچ کروڑ سے زیادہ مزید ایسے لوگ ہیں جو ہو سکتا ہے کہ 2060 تک غذائی پیداوار میں کمی اور آسمان سے باتیں کرتی قیمتوں کے سبب بھوک کا شکار ہو جائیں۔

آئی ایم ایف نے کہا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ 2040 تک ان ملکوں کو سال میں 61 دن اوسطا 35 درجے سینٹی گریڈ یا 95 درجے فارن ہائٹ درجہ حرارت کا سامنا کرنا پڑے جو کہ دوسرے ملکوں کی نسبت چار گنا سے بھی زیادہ ہوگا۔

آئی ایم ایف کی جانب سے کہا گیا ہے کہ بین الاقوامی شراکت داروں کو براعظم کے سب سے زیادہ کمزور ممالک کی مدد کرنی چاہیے تاکہ وہ شدید موسم سے مطابقت پیدا کر سکیں۔

مصنف کے بارے میں