عمران خان اٹک جیل سے باہر نہیں آ سکے۔ وہ کسی معجزے کے منتظر تھے اور انہیں یہ امید تھی کہ باہر کی سرکاریں حکومت پر اتنا دباؤ ڈالیں گی کہ بالآخر وہ رہا ہو جائیں گے۔ انہیں تو یہ امید بھی ہے کہ ان کی نا اہلی کی سزا ختم ہو جائے گی اور وہ اس بار دو تہائی اکثریت سے واپس آ جائیں گے۔ اَے بَسا آرزْو کہ خاک شْدَہ(ہائے افسوس، ایسی کتنی آہی آرزوئیں پوری نہ ہوئیں)۔ گزشتہ روز اسلام آباد ہائیکورٹ نے ان کی سزا کو معطل کر دیا تھا اور انہیں ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دیا تھا۔ مچکلے جمع نہیں ہوئے تھے کہ انہیں ایک اور مقدمہ میں دھر لیا گیا۔ جس وقت یہ سطور لکھی جا رہی ہیں اسلام آباد کی خصوصی عدالت نے اٹک جیل میں مقدمہ کی سماعت کی ہے۔ اس سماعت میں اسلام آباد کی خصوصی عدالت نے سفارتی سائفر سے متعلق آفیشل سیکرٹ ایکٹ 1923 کے تحت درج مقدمے میں سابق وزیر اعظم اور چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان کے جوڈیشل ریمانڈ میں 13 ستمبر تک توسیع کر دی۔ سائفر کیس سفارتی دستاویز سے متعلق ہے جو مبینہ طور پر عمران خان کے قبضے سے غائب ہو گئی تھی، پی ٹی آئی کا الزام ہے کہ اس سائفر میں عمران خان کو اقتدار سے ہٹانے کے لیے امریکا کی جانب سے دھمکی دی گئی تھی، پی ٹی آئی کے وائس چیئرمین اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی بھی اسی کیس میں ریمانڈ پر ہیں جب کہ سابق وفاقی وزیر اور پی ٹی آئی رہنما اسد عمر ضمانت پر ہیں۔ سائفر چونکہ انتہائی حساس معاملہ ہے اس لیے اس مقدمہ کی سماعت ان کیمرہ ہو رہی ہے اور صرف متعلقہ افراد کو ہی سماعت میں شرکت کی اجازت ہے تاہم آج عمران خان کے وکیل عدالت میں پیش ہوئے۔ سابق وزیر اعظم کو جج کے سامنے پیش کیا گیا، عدالتی عملے نے عمران خان کی حاضری لگائی۔ اس سماعت میں کیا ہوا اس حوالے سے حکومت کا موقف ہمارے سامنے نہیں ہے لیکن عمران خان کے وکلا نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے اس مقدمہ کی مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ یہ سیاسی مقدمات ہیں اور ان کی سماعت کھلی عدالت میں ہونی چاہیے۔ ریاست کی جانب سے ایف آئی آر سیکریٹری داخلہ یوسف نسیم کھوکھر کی مدعیت میں درج کی گئی تھی ایف آئی آر میں کہا گیا کہ 7 مارچ 2022 کو اس وقت کے سیکریٹری خارجہ کو واشنگٹن سے سفارتی سائفر موصول ہوا، 5 اکتوبر 2022 کو ایف آئی اے کے شعبہ انسداد دہشت گردی میں مقدمہ درج کیا گیا اور بتایا گیا کہ سابق وزیراعظم عمران خان، سابق وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی اور ان کے معاونین خفیہ کلاسیفائیڈ دستاویز کی معلومات غیرمجاز افراد کو فراہم کرنے میں ملوث تھے۔ جب سائبر کو ڈی کلاسیفائیڈ کیا جا چکا ہے تو میرے خیال میں اس مقدمہ کی سماعت کھلی عدالت میں ہونی چاہیے۔ ان کیمرہ سماعت کی وجہ سے شکوک و شبہات میں اضافہ ہو جاتا ہے اور میرٹ پر ہونے والے فیصلے کو آسانی سے ہدف تنقید بنایا جا سکتا ہے۔عمران خان خود اس بات کو تسلیم کر چکے ہیں کہ سائبر ان سے کھو گیا ہے۔ اس حوالے سے ایک آڈیو ٹیپ بھی لیک ہو چکی ہے۔ کڑی سے کڑی ملے گی تو عمران خان کے گرد گھیرا مزید تنگ ہو جائے گا۔
اقتدار پھولوں کی سیج نہیں ہے یہ بندے کو تخت سے تختے تک پہنچا سکتا ہے۔ جب بندہ اقتدار میں ہو تو یہی لگتا ہے کہ ہر چیز اس کے حکم کے تابع ہے وہ لوگوں کی قسمت کا فیصلہ کرنے کا کلی اختیار رکھتا ہے لیکن جب وہ وقت کے بے رحم شکنجے میں کسا جاتا ہے تو پھر کچھ بھی اس کے پاس نہیں ہوتا۔
عمران خان نے کبھی سپنے میں بھی یہ نہیں سوچا تھا کہ ان کے ساتھ یہ ہو جائے گا۔ انہیں وہ دن ضرور یاد آتے ہوں گے کہ کس طرح لوگ ان پر جان فدا کرنے کے لیے تیار تھے اور کہتے تھے کہ عمران خان ہماری ریڈ لائن ہے۔ آج ریڈ لائن اٹک جیل کی سلاخوں کے پیچھے قید ہے۔ اب تو بندیال اور علوی کی رخصتی کی تیاری ہو چکی ہے تو اس کے بعد تو چراغوں میں روشنی نہیں رہے گی۔
اس نظام انصاف کو برباد ہو جانا چاہیے کیونکہ اس نظام نے انصاف فراہم کرنے کے علاوہ سب کچھ کیا ہے۔ لوگ انصاف کے لیے ایڑیاں رگڑتے ہیں لیکن ان کی شنوائی نہیں ہوتی اور اسی معاشرے کے کچھ طبقات کے لیے صبح دوپہر شام اور رات کے وقت بھی عدالتیں کھل جاتی ہیں۔ انصاف کا ترازو اس جانب جھک جاتا ہے جس طرف اسے پلڑا بھاری نظر آئے۔
عمران خان کو پھانسی چڑھا دیں گے تو کیا ہمارا نظام ٹھیک ہو جائے گا بالکل بھی نہیں۔ عمران خان تو بس اک استعارہ ہے کہ کس طرح ملک کے اندر کچھ قوتیں لوگوں کا استعمال کرتی ہیں اور جب ان کی ضرورت ختم ہو جاتی ہے تو انہیں استعمال شدہ ٹشو پیپر کی طرح پھینک دیتی ہے۔ افسوس عمران خان پر ہے کہ انہوں نے اقتدار کی ہوس میں اپنی بیس برس کی جدوجہد کو ضائع کردیا اور چند جرنیلوں کی خواہشات کی تکمیل کے لیے سب کچھ کرنے پر راضی ہو گیا۔ اسے خود پتہ تھا کہ وہ محض ربر سٹمپ ہے اور اقتدار کسی اور کے پاس ہے۔
انہوں نے میر جعفر اور میر صادق کے حوالے سے جو تقریریں کی تھیں اس میں برملا اعتراف کیا تھا کہ حکومت میری تھی چلا کوئی اور رہا تھا۔ اقتدار پر قابض اشرافیہ کے لیے اس طرح کے لوگ ایک نعمت سے کم نہیں ہوتے۔ کہاں ہیں وہ لوگ جو اقتدار میں لائے تھے آج وہ اپنے محلوں میں عیش و عشرت کی زندگی گزار رہے ہیں اور عمران خان کو اٹک جیل کی دال پر گزارہ کرنا پڑ رہا ہے۔ خان صاحب آپ مطالعہ کے لیے کتابین منگوا رہے ہیں۔ آپ کے پاس کافی وقت ہے کہ سوچیں کہاں کیا غلطی ہوئی ہے۔ میرا مشورہ ہے کہ وہ بہادر شاہ ظفر کی شاعری کا نسخہ بھی منگوا لیں تاکہ انہیں پتہ ہو کہ جب ایک تاجدار اقتدار سے اترتا ہے تو پھر اس کا حال کیا ہوتا ہے۔ حبس کے موسم میں تاجدار ہند بہادر شاہ ظفر محض تازہ ہوا لینے کی خواہش کرتے ہوئے اپنی جان کھو گیا۔
یہ اقتدار بہت ظالم چیز ہے، سب کو پتہ ہے مگر بھاگتے سبھی اس کے پیچھے ہیں۔