پاکستان، پاکستان کی معیشت کسی بڑے حادثے/ سانحے سے بچ نکلی۔ انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ نے پاکستان کے ساتھ رکے ہوئے پروگرام کو جاری رکھنے کا فیصلہ کر لیا اور اس طرح پاکستان کو جو رقم گزشتہ نومبر میں ملنا تھی، اس کے اجرا کا فیصلہ ہو گیا۔ پاکستان کو 1 ارب 10 کروڑ ڈالر کی قرضہ قسط جاری کرنے کی منظوری دے دی گئی ہے۔ واشنگٹن میں ہونے والے فنڈ کے ایگزیکٹو بورڈ میں پاکستان کے ساتھ جاری مذاکرات اور اس کے نتیجے میں سٹاف لیول ایگریمنٹ کا جائزہ لیا گیا اور قرار پایا کہ پاکستان کی اکنامک مینجمنٹ ”صراط مستقیم“ پر جا رہی ہے ۔ معاشی اشاریے طے شدہ پالیسیوں کے مطابق نتائج دے رہے ہیں اور پاکستان نے ان شرائط پر عمل درآمد شروع کر دیا ہے جو 2019 کے EFF معاہدے میں قبول کئے گئے تھے اور جن پر عمل درآمد نہیں ہو رہا تھا۔ اس لئے طے شدہ قرضے کی قسط جاری کرنے کا حتمی فیصلہ کیا جاتا ہے۔
یاد رہے پاکستان کو 6 ارب ڈالر قرض کی سہولت 2019 میں عمران خان کے دور حکمرانی میں دی گئی تھی۔ عمران خان نے 2018 میں عنانِ اقتدار سنبھالنے کے بعد بھی اپنے مخالفین کو للکارنے، لتاڑنے اور گالم گلوچ کا وتیرہ تواتر کے ساتھ جاری رکھا وہ اس بات کا فیصلہ ہی نہیں کر سکے کہ قومی معیشت کو کس طرح چلانا ہے۔ کس سمت میں لے کر جانا ہے۔ اسد عمر جو ان کے نابغہ اور ترپ کا پتہ شمار کئے جاتے تھے بطور وزیر خزانہ شک شبہے کا شکار رہے حتیٰ کہ معاشی بگاڑ کے آثار نمودار ہونے لگے پھر حفیظ شیخ صاحب لائے گئے بلکہ انہیں دیئے گئے کہ وہ بگڑتی ہوئی معیشت کو سنبھالا دیں انہوں نے فیصلہ کیا کہ پاکستان کو آئی ایم ایف کے پاس جانا چاہئے مذاکرات شروع ہوئے۔ تفصیلات طے ہوئیں اور پھر پاکستان کو قرضہ جاری کرنے کا فیصلہ ہو گیا۔ فواد چودھری ڈھٹائی سے کہہ رہے ہیں کہ معاہدے کی تفصیلات سامنے لائی جائیں بھلا ان سے کوئی پوچھے کس معاہدے کی تفصیلات ؟ معاہدہ تو وہی ہے۔ تفصیلات بھی وہی ہیں جن پر آپ کی حکومت نے صاد کیا تھا۔ پھر عمران خان کو جب 2021 میں پتہ چلنا شروع ہو گیا کہ ان کی حکومت پر گرفت کمزور ہونا شروع ہو گئی ہے ایک صفحہ جس کا وہ بار بار ذکر کرتے رہتے تھے اب ایک نہیں رہا ہے۔ مقتدر حلقے ان کی حمایت میں نہیں رہے ہیں اور اپوزیشن ان کے خلاف اکٹھی ہونے لگی ہے تو انہوں نے عمداً ایسی حرکات کرنا شروع کر دیں جس سے معاشی ابتری پھیلنا شروع ہو گئی ۔ آئی ایم ایف کے ساتھ کئے گئے معاہدے کی شرائط پر عمل درآمد کرنے کے بجائے، طے شدہ معاملات کے برعکس ایکٹ کرنا شروع کر دیا پھر جب اپریل 2022 میں انہیں تحریک عدم اعتماد کے ذریعے چلتا کیا گیا تو انہوں نے امریکی سازش، میر جعفر، میر صادق اور امپورٹڈ حکومت راگ الاپنا شروع کر دیا۔
جب شہباز شریف کی قیادت میں اتحادی حکومت برسراقتدار آئی تو دو اہم سوال سر اٹھائے اور منہ کھولے کھڑے تھے۔ پہلا سوال کہ اتحادیوں نے ایسے برے وقت میں حکومت کیوں قبول کی؟ انہوں نے عمران خان حکومت کو مزید سال/ سوا سال کیوں نہیں چلنے دیا کیونکہ ان کی ”کارکردگی“ اتنی ”اعلیٰ“
تھی کہ وہ اپنی حکومت کے بوجھ تلے ہی دبتے چلے جا رہے تھے اور آئندہ انتخابات 2023 میں ان کی شکست فاش نوشتہ دیوار بننے جا رہی تھی۔ یہ بہت اہم سوال تھا اور اب بھی ہے اس کا تسلی و تشفی بخش جواب دینا ہنوزاتحادیوں کی ذمہ داری ہے۔ ویسے تو وہ کہہ رہے ہیں کہ اگر عمران خان کو حکومت سے نکال باہر نہ کیا جاتا تو پاکستان دیوالیہ ہو چکا ہوتا۔ ویسے یہ بات سچ ہے لیکن پورا سچ نہیں ہے۔
جب اپریل میں شہباز شریف نے اتحادی حکومت سنبھالی تو پاکستان دیوالیہ ہونے جا رہا تھا۔ پاکستان سفارتی تنہائی کا شکار تھا۔ عمران خان محمد بن سلمان کی تحفہ میں دی گئی گھڑی کو بیچ کر انہیں ناراض کر چکے تھے۔ سعودی عرب کے ساتھ ہمارے تعلقات خوشگوار نہیں تھے اس کا اظہار اس وقت بھی ہواجب سعودیوں نے ہمیں دیئے گئے ڈالر (جو بنک میں رکھے تھے) کی واپسی کا مطالبہ کیا۔ یو اے ای ، قطر اور دیگر قابل ذکر عرب ممالک کے ساتھ ہمارے تعلقات سردمہری کا شکار تھے۔ چین، سی پیک پر کام رکنے کے باعث ہم سے ناراض تھا۔ ترکی کے ساتھ تعلقات بھی بگڑ چکے تھے امریکہ کو سازشی قرار دے کر کھڈے لائن لگایا جا چکا تھا۔ سفارتی تنہائی کے ساتھ پست معاشی کارکردگی کے باعث آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات کے تعطل نے ہمیں عالمی سطح پر معاشی تنہائی کا شکار بھی کر دیا تھا۔ عالمی زری اور مالیاتی ادارے ہم پر اعتماد کرنے کے لئے تیار نہیں تھے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس ہمیں بلیک لسٹ کرنے پر تلا بیٹھا تھا۔ عمران خان نے پاکستان کی ساکھ، راکھ میں ملا دی تھی۔ ایسے میں جب اتحادی حکومت برسراقتدار آئی تو پہلا اور آخری کام پاکستان کو ڈیفالٹ سے بچانا قرار پایا تھا۔ ماہرین کہہ رہے تھے کہ پاکستان ڈیفالٹ کے قریب جا چکا ہے۔ کچھ کہہ رہے تھے کہ پاکستان تکنیکی طور پر ڈیفالٹ کر چکا ہے اب بس اعلان کرنا باقی ہے۔ بہرحال شہباز شریف حکومت نے بڑی یکسوئی کے ساتھ آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات درست کرنے کا بیڑا اٹھایا۔ تعطل کا شکار مذاکرات شروع ہوئے فنڈ کو منانے کی کاوشیں شروع ہوئیں 100 دنوں کے اندر اندر فنڈ کی شرائط پر عمل درآمد کرتے کرتے عوام کا بھرکس نکل گیا۔ عوامی معیشت تباہی و بربادی کا شکار ہوگئی۔ مہنگائی اپنی تاریخی بلندیوں پر پہنچ گئی۔ لیکن شہباز شریف حکومت نے ڈیفالٹ کے دہانے پر کھڑی معیشت کو تباہی کے گہرے کھڈ میں گرنے سے بچا لیا۔ آئی ایم ایف نے رکے ہوئے فنڈز جاری کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔
اس معاہدے کو ہونے سے روکنے کے لئے عمران خان اور ان کے حواریوں دواریوں نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا۔ گزرے 3/4 مہینوں کے دوران انہوں نے شہباز شریف حکومت کوناکام بنانے کی حتمی اور شعوری کاوشیں کیں۔ پاکستان کو ڈیفالٹ کنارے کھڑا کر کے تو وہ خود رخصت ہو گئے تھے اب انہوں نے حقیقی ڈیفالٹ کی کاوشیں شروع کر دی تھیں جس کی آخری اور حتمی کاوش ان کے وزیر خزانہ شوکت ترین کی وزیراعلیٰ کے پی کے اور پنجاب کے ساتھ لیک ہونے والی گفتگو میں نظر آتی ہے۔ یہ گفتگو بلاشبہ کسی ملک دشمن کی ہو سکتی ہے۔ فواد چودھری اور عمر جس ڈھٹائی اور بے شرمی کے ساتھ اس شرمناک گفتگو اور جھگڑا کی طرف سے لکھے گئے خط کا دفاع کر رہے ہیں وہ کوئی ملک دوست یا محب وطن نہیں بلکہ غدار وطن ہی کہلائے جانے کے حقدار ہیں۔ ان کی ایسی تمام کاوشوں کے باوجود فنڈ نے رکی ہوئی قسط جاری کرنے کا اعلان کر دیا ہے اس حوالے سے شہباز شریف حکومت مبارکباد کی مستحق ہے جس نے 100 دنوں کے اندر اندر ملکی معاشی صورتحال کو مانیٹری پر چڑھا دیا ہے۔لیکن اب اس سے بڑا امتحان سامنے ہے شہباز شریف نے قوم سے وعدہ کیا تھا کہ ان کی حکومت عوام کو ریلیف دے گی سختی کا وقت گزر چکا ہے اب ریلیف کا وقت ہے۔ جس تندہی کے ساتھ شہباز شریف نے آئی ایم ایف کے ساتھ بگڑے معاملات درست کئے ہیں جس طرح پاکستان کو سفارتی تنہائی سے نکالا ہے ایسے ہی انہیں فوری طور پر عوام کو معاشی مشکلات سے نکالنا ہو گا۔ مسلم لیگ پہلے بھی عوام کو مشکلات سے نکالتی رہی ہے۔ خوشحالی کے سفر پر ساتھ لے کر چلتی رہی ہے اب ایک بار پھر عوام کی نظریں مسلم لیگ ن پر جمی ہوئی ہیں۔ اس بارے میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ قوم کو اس وقت عمران خان جیسے دشنام طراز اور منفی طرز فکروعمل کے لیڈر کا سامنا ہے جو اپنے اقتدار کے لئے ہرشے تباہ و برباد کرنے پر تیار ہے۔ کہنے والے تو یہ بھی کہتے ہیں کہ عمران خان ایسے ہی مشن کی تکمیل کے لئے سیاست میں لائے گئے ہیں۔ ڈاکٹر اسرار احمد کی گفتگو اور حکیم سعید کی تحریر کا حوالہ بھی دیا جاتا ہے۔ ویسے عمران خان جو کچھ کرتے رہے ہیں اور کر رہے ہیں وہ کسی محب وطن لیڈر کا کام نہیں ہو سکتا بہرحال شہباز شریف اور ان کی جماعت سے قوم کو بڑی توقعات ہیں اور وہ ان پر پورا اترنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔