گاؤں کے مولوی نے پورے جوبن کو تاؤ دے کر،سارے علم کو مجتمع کرتے ہوئے ،ہاتھ ہوا میں لہرا کر تقریر کرتے ہوئے حاضرین سے ایک سوال پوچھا؟
"مومنو! ’’جدوں حضرت یوسف علیہ السلام دے بھائیاں نیں حضرت یوسف علیہ السلام نوں کھوہ وچ سٹیا تے کھوہ وچوں کیہہ آواز آئی؟‘‘مسجد میں موجود تمام حاضرین بالکل خاموش رہے۔کہیں سے بھی ہاتھ کی جنبش تک نظر نہ آئی تو مولوی جسے خود بھی اس سوال کا جواب معلوم نہیں تھا کہ کیا آواز آئی تھی دوبارہ پھر بولا’’ایتھے بڑے بڑے مومن بیٹھے نیں، بڑے بڑے عالم بیٹھے نیں،بڑے بڑے استاد بیٹھے نیں،میرے وڈے مولوی موجود نیں او بھائی دسو کیہہ آواز آئی سی؟ ‘‘حاضرین دوسری بار بھی خاموش رہے۔ان کانوں پر جوں تک نہ رینگی۔ اب مولوی صاحب پوری توانائی بروئے کار لا کر آخری کوشش کرتے ہوئے بولا:’’اے مومنو، تسی وی تاریخ اسلام پڑھی ہووے گی، بلکہ پوری تاریخ پڑھی ہوے گی ،تسی وی اپنے آپ نوں مومن اخواندے او،اپنے آپ نوں حاجی تے نمازی اخواندے او۔ بولو! جدوں حضرت یوسف علیہ السلام نوں اوناں دے بھراواں نیں اوھناں نوں کھوہ وچ سٹیا تے اوس کھوہ وچوں کیہہ آواز آئی؟ ‘‘تو حاضرین حسب سابق ایک دفعہ پھر خاموش رہے تو مولوی صاحب نے فرمایا:’’لوفیر جے تہاڈے وچوں کسے نوں تاریخ اسلام دے بارے کجھ نئیں پتہ تے اج میں ناچیز تہانوں دس دیناں واں…اوئے لاعلمو،اوئے کم علمو اوئے جھیلو اودوں کھوہ وچوں آواز آئی گھڑم م م م ‘‘…کسی کو علم ہی نہیں کہ عثمان بزدار نے پنجاب میں کیا کیا کام کیا ہے؟کیا کارہائے نمایاں سر انجام دیئے ہیں؟کونسا نیا ہسپتال بنوایا ہے؟کونسی شاہراؤں کو روئے زمین کی زینت بخشی ہے۔کب انہوں نے کہا ہے کہ ہم مائل با کرم ہیں کوئی سائل ہی نہیں؟ہم فقیروں کا نہیں بلکہ غریبوں اور یتیموں کے بھیس میں تماشائے اہل کرم دیکھ رہے۔ہمارے ساتھ تو رہبروں اور رہنماؤں نے راہزنی کی ہے۔
26 اگست کو جناب وزیر اعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان نے سالانہ کارکردگی کو سراہنے کے لیے ایک ’’مجمع‘‘کا انتظام کیا کیا۔ اس مجمع میں مداح سرائی کے علاوہ جن معاملات، جن حالات ،جن مسائل اور کارہائے نمایاں پر باتیں ہوئیں۔ ان تمام باتوں کا عوام کو درپیش مسائل سے کوئی تعلق نہ تھا۔۔مجمع کے اس کنوئیں سے مافیاز کی رکاوٹیں، این آر او نہ دینے کا تہیہ، چوروں کو نہیں چھوڑوں گا،ایک ایک پائی وصول کروں گا کے ساتھ ساتھ ’’گھڑم‘‘جیسی آوازیں ہی آتی رہیں۔ اس کنونشن میں رہی سہی کسر عطاء اللہ عیسیٰ خیلوی نے پالش اور مالش سے بھر پور ترانہ گا کر دی۔میں حیراں ہوں،لب بستہ ہوں ، دلگیر ہوں کہ عیسیٰ خیلوی کو کیا ہو گیا کہ اس قدر جھوٹ پر مبنی ترانہ گا کر اپنی آخرت کو خطرے میں ڈال لیا۔عیسی خیلوی صاحب شہرت کی جن بلندیوں پر آج بھی فائز ہیں۔ایسی شہرت تو عمر بھر کسی کے حصے میں نہیں آتی۔شہرت تو ایک طرف دولت کا جو ہما ان کے سر پر بیٹھا ہے وہ بھی کسی نصیب والے کو ہی میسر آتا ہے۔مانا کہ عمران خان ان کے محبوب ہیں۔ایک عاشق کو اپنے محبوب کی خامیاں بھی خوبیاں ہی نظر آتی ہیں۔ایک عاشق کو محبوب کی گلی کا’’سگ‘‘ بھی پیارا لگتا ہے (حالانکہ سگِ راہ بری بلا ہے۔)عاشق کی صورت حال کو لالہ مجھ سے بہتر جانتے ہیں کیونکہ ان کی تو عمر اس دشت کی سیاہ میں گزری ہے۔مگر ہر کام اور فعل کے سر انجام دینے میں عمر کا تقاضا ہوتا ہے۔یہاں بھی لالہ کی عمر کا تقاضا تھا کہ جھوٹی مداح سرائی سے گریز کرتے۔
جو محبتیں اور پیار لالا جب آئے گا عمران ،بنے گا نیا پاکستان جیسا ترانہ گا سمیٹی تھیں۔ اس سے کئی گنا زیادہ نفرتیں لالا کا موجودہ ترانہ عوام کے دلوں میں بھر گیا ہے۔درج بالا متن میں مَیں بلامبالغہ اس بات کا اظہار کر چکا ہوں کہ جتنی شہرت اور دولت لالا کے حصے میں آئی ہے۔ ماضی کے جھرکوں میں جھانکیں یا دور حاضر پر نظر دوڑائیں تو تمام کلاکار،گلوکار ،موسیقار اور اداکار اس سے مبّرا ہیں۔لالا کی عمر 66برس تھی جب انہوں نے تحریک انصاف اور اس کے چیرمین کے لیے ترانہ گایا تو عوام نے لالا کو جو خراج تحسین پیش کیا جس کی مثال گائیکی تاریخ میں نایاب ہے۔یہ ترانہ اس وقت کے ہر چینل اور عمران خان کے ہر جلسے کی زینت بنا۔اس ترانے کی بدولت عمران خان اور اس کی جماعت کو ملک میں خاطر خواہ کامیابی ہوئی اور خان صاحب وزیراعظم بن گئے لیکن عطاء اللہ عیسیٰ خیلوی کو سینٹ کا ٹکٹ تو کیا کسی ثقافتی ادارے کا چیئرمین لگانا بھی گوارا نہ کیا۔حالانکہ لوک ورثہ،پی ٹی وی اور ریڈیو پاکستان سمیت ایسے کئی ادارے تھے جو ان کے سپرد کیے جا سکتے تھے۔مگر خان صاحب نیازی ہوتے ہوئے بھی ’’بے نیازی‘‘ سے کام لیتے رہے۔ستم ظریفی دیکھیے کہ تین سالہ کارگردگی کی تقریب میں پھر لالا کو بلا کر اپنی مداح میں وہ وہ جھوٹ بلوائے کہ وہی عوام جو لالا کے پہلے ترانے پر سر دھنتی تھی عش عش کر اٹھتی تھی اب وہ عوام تحریک انصاف کی حکومت کے درپے تو تھی ہی لالا کے سر بھی ہوگئی۔وہ لوگ جو لالا کو سر آنکھوں پر بٹھاتے تھے اب وہی لالا کے خلاف نفرت انگیز لاوا اگلتے پھر رہے۔سوشل میڈیا ایسے ایسے کلمات سے بھرا پڑا ہے جو بیان سے باہر ہے۔شاید اس میں کسی کا کچھ قصور نہیں۔ لالا خود ہی مکافات عمل کی بھینٹ چڑھ گئے ہیں اور مداح سرائی کے کنوئیں سے گھڑم کی آواز آ رہی ہے اور تعریفیں انہوں نے پہلے ترانہ سے وصول کیں تھیں اس سے کئی گناہ زیادہ اس ترانے بدتعریفی کے کلمات وصول کر رہے ہیں۔