عورت کا ہمارے معاشرے میں کتنا اہم مقام ہے اُس کا اندازہ اِس ایک واقعے سے لگا لیں جو میں پہلے بھی کسی کالم میں شاید عرض کرچکا ہوں، یہ شاید 1994کی بات ہے مرحوم دلدار پرویز بھٹی کے نوٹس میں آیا ایک نابینا ٹیچر کا لاہور سے اوکاڑہ تبادلہ کردیا گیا ہے، اُن دنوں پنجاب میں سکولز اور ہائر ایجوکیشن کا ایک ہی محکمہ ہوتا تھا، اِس محکمے کا وزیر اور سیکرٹری بھی ایک ہی ہوتا تھا محکمے کے تبادلے ایڈیشنل سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ کرتا تھا، اُن دنوں محکمہ تعلیم کے ایڈیشنل سیکرٹری ایک جنرل صاحب کے داماد تھے، وہ سیکرٹری اب اِس دنیا میں نہیں ہیں، اُن دنوں بھی وہ کسی اور ہی دنیا میں ہوتے تھے جو ایک جنرل داماد ہونے کے ناطے اُن کا ظاہر ہے حق بھی بنتا تھا، ہماری بیوروکریسی میں ایک سے بڑھ کر ایک انسان دشمن موجود ہیں، وہ مگر اپنی مثال آپ تھے، وہ بغیر کسی بڑی سفارش کے کسی روز کسی حقدار کو انجانے میں اُس کا حق دے دیتے اُس رات اُنہیں نیند کی ڈبل گولی کھانی پڑتی کہ یہ کیا ’’گناہ‘‘ آج اُن سے سرزد ہوگیاہے؟ وہ دلدار بھٹی کے واقف تھے، ایف سی کالج میں اپنی اپنی کلاسز پڑھانے کے بعد کالج لائبریری کے پاس ہم اکٹھے ہوئے، دلدار بھٹی نے مجھ سے کہا ’’ یار ایک نیکی کا کام ہے، میرے ساتھ سیکرٹریٹ چلو، ہم نے محکمہ تعلیم کے ایڈیشنل سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ سے ملنا ہے‘‘… ہم اُن کے دفتر پہنچے وہ حسب معمول اکڑی ہوئی گردن کے ساتھ کچھ فائلیں دیکھنے میںمصروف تھے، ہماری طرف دیکھے بغیر اُنہوں نے ہمیں بیٹھنے کا حکم دیا، اندر جانے سے پہلے ایک چٹ اپنے ناموں کی ہم نے اندر بھیجی تھی اس لیے اُنہیں اندازہ تھا ہم ہی اندر آئے ہیں، دلدار بھٹی کے ساتھ اُن کی اچھی خاصی بے تکلفی تھی میری موجودگی میں وہ تھوڑے ’’ ریزرو‘‘ تھے، میں نی دلدار بھٹی سے کان میں پوچھا ’’بھائی جان میں باہر چلے جائوں؟ اُنہوں نے فرمایا ’’نہیں، تم بیٹھے رہو‘‘… کچھ دیر بعد اُنہوں نے قسطوں میں گردن اُوپر اُٹھائی اور پوچھا ’’ ہاں جی، کیسے آئے ہو ؟‘‘… دلدار نے اُنہیں بتایا ‘‘ سرایک نابینا ٹیچر کا آپ نے لاہور سے اوکاڑہ تبادلہ کردیا ہے، اِس سے اُس کے لیے بڑے مسائل پیدا ہو جائیں گے، ازرہ کرم یہ تبادلہ کینسل فرمادیں ‘‘ … وہ بولے ’’ میں یہ تبادلہ کینسل نہیںفرما سکتا، یہ تبادلہ اُوپر سے ہوا ہے‘‘ … اُوپر اُن دنوں غلام حیدر وائیں (مرحوم) وزیراعلیٰ بلکہ نام کے وزیراعلیٰ ہوتے تھے، اصل اختیارات شہباز شریف کے پاس تھے، نامور بیوروکریٹ جی ایم سکندر اُن کے پرنسپل سیکرٹری تھے۔ ایسے نفیس اور خداترس افسر ہماری بیوروکریسی میں آٹے میں نمک کے برابر اب بھی نہیں ہیں، وہ دوستوں کا بہت خیال رکھتے تھے، طبیعت میں اتنی حلیمی میں نے اُنہیں ہمیشہ ’’جی ایم سکندر‘‘ کے بجائے ’’جی ایم قلندر‘‘ کہا، وہ جس عہدے پر رہے لوگوں کو خصوصاً اُن کے دوستوں کو اُن سے کوئی شکایت پیدا نہیں ہوئی، اُن کی عظمت کا ایک واقعہ سن لیں، اِس واقعے کی اُن سے تصدیق کی جاسکتی ہے، ایک بار وہ جب وزیراعلیٰ پنجاب کے پرنسپل سیکرٹری تھے، میں نے اُنہیں کال کی، دوتین روز بعد تک جب اُن کی جوابی کال موصول نہ ہوئی میں نے اُنہیں ناراضگی بھرا ایک مسیج کردیا، شام کو وہ میرے گھر تشریف لائے میں گھر پر نہیں تھا، وہ ایک خط چھوڑ گئے، اُن کا یہ خط آج بھی میرے پاس موجود ہے، یہ خط مجھے تکبر سے بچانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے، بلکہ میں یہ عرض کروں میری زندگی میں بفضل خدا جو عاجزی ہے اُس میں اُس خط کا کردار بڑا اہم ہے… وزیراعلیٰ کا پرنسپل سیکرٹری اصل میں وزیراعلیٰ ہوتا ہے، وزیراعلیٰ پنجاب کا کوئی پرنسپل سیکرٹری عاجزی کے اُس درجے پر فائز ہونے کا تصور بھی نہیں کرسکتا جس پر جی ایم سکندرتھے، ذاتی طورپر وہ انتہائی مزاحیے انتہائی بذلہ سنج انتہائی محفل باز انسان ہیں، جہاں وہ ہوں وہاں اور پھرکوئی نہیں ہوتا، …بہرحال دلدار بھٹی نے ایڈیشنل سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ سے کہا ’’ سراگر اِس نابیناٹیچر کا تبادلہ ’’ اُوپر‘‘ سے ہوا ہے ہم اُوپر بات کرلیں ؟۔ ہمارا خیال تھا ہم جی ایم سکندر سے کہیں گے وہ اس تبادلے کی منسوخی کے احکامات جاری کردیں گے۔ سیکرٹری صاحب فرمانے لگے ’’کوئی فائدہ نہیں ہونا، یہ تبادلہ کسی صورت میں کینسل نہیں ہوسکتا‘‘… ہم اُن کی یہ بات سن کر بڑی مایوسی کے عالم میں اُن کے دفتر سے اُٹھنے لگے اچانک دلدار بھٹی سے اُنہوں نے پوچھا ’’یار آج کل تمہارے ٹی وی پروگرام ’’میلے‘‘ میں ’’پٹولی سی اِک لڑکی ہوتی ہے۔ وہ کون ہے؟۔کسی دن میری اُس سے ملاقات تو کرائو‘‘… دلدار نے جواب دیا ’’ سرجی اِک ادھے دن وچ ای کرادیاں گا ان شاء اللہ ‘‘… ہم وہاں سے نکل کر سیدھا اُس لڑکی (اداکارہ ) کے گھر پہنچے، دلدار بھٹی نے اُس سے کہا ’’ ایک نیکی کا کام ہے جو صرف تمہارے ذریعے ہی ہوسکتا ہے‘‘۔… اگلے روزہم پٹولی سی اُس لڑکی کو گاڑی میں بیٹھا کر سول سیکرٹریٹ لے گئے۔ ہم خود گاڑی میں بیٹھے رہے اُس لڑکی کو ایڈیشنل سیکرٹری صاحب کے آفس بھجوادیا۔ کچھ دیر بعد وہ جب واپس آئی اس نابینا ٹیچر کے تبادلے کی منسوخی کے آرڈر اُس کے ہاتھ میں تھے۔ ہمیں اُوپر جانے کی ضرورت ہی نہ پڑی کام نیچے سے ہی ہوگیا،… عرض کرنے کا مقصد یہ ہے یہ معاشرہ بڑا ’’ زنان پسند‘‘ ہے، اِس معاشرے میں مردبے چارہ اپنے پورے اعضاء کا پورا زور لگاکر بھی جو کام نہیں کرواسکتا وہ کام اگر کوئی عورت آسانی سے کروالیتی ہے، پھر کیسے ہم یہ دعویٰ کرسکتے ہیں اِس معاشرے میں عورت کی کوئی عزت نہیں ہے؟۔ جو عورتیں عزت کروانا ہی نہیں چاہتیں اُنہیں باندھ کر تو اُن کی عزت نہیں کی جاسکتی۔ تقدس تو مردوں کا پامال ہورہا ہے کہ کوئی ایک مرد کوئی اوچھی حرکت کرتا ہے تو کچھ عورتیں یا بیرونی فنڈ پر پلنے والی کچھ ’’موم بتیاں‘‘ پاکستان بھر کے مردوں کو اُس کا ذمہ دار ٹھہرا دیتی ہیں، سوشل میڈیا پر اِس کا کچھ اِس طرح پرچارکرتی ہیں جیسے پاکستان میں کوئی عورت گھر سے باہر ہی نہیں نکل سکتی، اس کا مقصد صرف اور صرف پاکستان کو بدنام کرنا ہوتا ہے، اُوپر سے المیہ یہ ہے ہمارے اکثر حکمران بھی اچھے خاصے ’’زنان پسند‘‘ ہوتے ہیں، یہاں مرد کی غلطی مرد کی اور عورت کی غلطی بھی مرد کی غلطی ہی ہوتی ہے، کسی مرد کو تو آنکھیں بند کرے قصور وار ٹھہرادیا جاتا ہے اور اُس کے مقابلے میں عورت اگر قصوروار ہو بھی اُسے قصور وار ٹھہراتے ہوئے ہزار بار سوچا جاتا ہے۔ عورت کو یہاں اس قدراہمیت حاصل ہے کچھ عورتیں یعنی کچھ ’’موم بتیاں‘‘ اگر یہ مطالبہ کردیں کہ آئندہ ایک بچہ عورت دوسرا اُس کا شوہر یعنی مرد جنم دے گا تو ممکن ہے ہماری حکومت اِس پر قانون سازی کا سوچنے لگ پڑے۔
(جاری ہے)