افغانستان میں امریکہ سمیت نیٹو ممالک کو جوذلت ورسوائی گزشتہ بیس سالوں کے ان کے وہاں قیام کے دوران ہوئی اوراب وہاں سے شکست خوردہ ہوکر نکلنے پر اٹھانی پڑرہی ہے،اس نے حضور ؐ اور صحابہ کرام ؓ کے ادوار کی جنگوں کی جو عددی برتری اور اسلحہ کے بغیر صرف اپنے ایمانی قوت اور اللہ کی مدد سے لڑی اورجیتی گئیں جنگوں کی یاد تازہ کردی ہے،طالبان نے پہلے امریکہ کے ہم پلہ سپرپاور روس کے حصے بخرے کیے اسے وہی ہزیمت اٹھانی پڑی جو آج نیٹو فورسز کے 28 ممالک بشمول آج کی سپر پاور امریکہ کو اٹھانی پڑرہی ہے،ساتھ ہی طالبان لیڈر کا یہ بیان کہ گیارہ ستمبر کے امریکہ ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر اسامہ بن لادن کے حملے کا کوئی ثبوت نہیں ملا، نے یہ بات واضح کردی ہے کہ افغانستان،عراق،لیبیا،ویت نام ودیگر ممالک پر امریکہ کی کاروائی بلاجواز تھی جو ناصرف انسانوں کی ہلاکت کا سبب بنی بلکہ اس کے ساتھ ساتھ کروڑوں شہریوں کو اپنے ممالک سے نقل ومکانی کرنی پڑی جس سے دیگر ممالک جن میں پاکستان سرفہرست ہے کی اکانومی برباد ہوئی اور وہاں پر دہشت گردی کی کاروائیوں کے باعث 65 ہزار کے قریب مسلمان لقمہ اجل بن گئے اور اربوں روپے کا نقصان ہمیں اٹھانا پڑا، ہماری معیشت ڈانواں ڈول ہے،مہنگائی،بے روزگاری،افراد زر،کرپشن کے طوفان نے 22 کروڑ عوام کا جینا دوبھر کردیا ہے،امریکہ جس نے مشرف حکومت کی مدد سے ہمارے مقامی اڈے،لاجسٹک سپورٹ استعمال کرتے ہوئے افغانستان کو تہس نہس کیا،وہاں کے عوام کا قتل عام کیا اب وہاں سے دم دبا کر بھاگنے کے لئے بھی ہم سے مدد مانگ رہا ہے،اور ہم شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار کا کردار نبھاتے ہوئے ان کی مدد کرنے پر مجبور ہیں کیونکہ جب ہم ان کاکھائیں گے،ان کے مالیاتی اداروں کے دیئے ہوئے قرضوں پر اپنی حکومت کو چلائیں گے تو کس منہ سے ان کو ناں کرسکتے ہیں،ہم تو ہیں ہی سراپا غلام،ہماری نسلوں کو غلام بنادیا گیا،ہماری افسر شاہی،اسٹیلشمنٹ،سیاستدانوں نے اپنی عیاشیوں کے سامان کے لئے عوام کو تختہ مشق بنایا ہوا ہے،انہیں قربانی کا بکر ا بنا کر وہ عیاشیوں میں مصروف ہیں،یہی حال دنیا بھر کے 55 کے قریب اسلامی ممالک کے سربراہاں اور ان کی حکومتوں کا ہے،انہیں طالبان سے سبق حاصل کرنا چاہیے کہ وہ آج بھی جذبہ ایمانی کے ساتھ تمام تر طاقتوں کو شکست سے دوچار کرسکتے ہیں،آج وہ طالبان لیڈر جن کا دنیا میں رہنا مشکل کردیاگیا تھا جن کے سفیر کو مشرف جیسے ڈکیٹٹر نے امریکی درخواست پر گرفتار کرلیاتھا جبکہ اس کے برعکس طالبان کا رویہ دیکھیں کہ انہوں نے 11 ستمبر کے واقعہ کے بعد اسامہ بن لادن اور دیگر عرب مجاہدین کو امریکہ کے حوالے کرنے سے اس وجہ سے انکار کردیا تھا کہ وہ ہمارے مہمان ہیں اور ہماری روایات میں مہمانوں کے ساتھ بہتر سلوک کی تلقین کی گئی ہے جبکہ ہم نے اپنے مہمان سفیر کو امریکہ کے حوالے کرکے یہ ثابت کیا کہ ہم اپنی کرسی کو بچانے اور حب مال،حب جاہ کے لئے اپنا ایمان بھی فروخت کرسکتے ہیں،ایمل کانسی اور سینکڑوں دوسرے مسلمانوں کو امریکہ کے حوالے کرنے سے بھی ہماری اس گھناؤنی اور مکروہ سوچ کی عکاسی ہوتی ہے،اب ہمارے وزیر اعظم فرماتے ہیں افغانستان کی باگ دوڑ سنبھالنے کے بعد افغانستان کے عوام نے غلام کی زنجیریں توڑ دی ہیں،اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ افغانستان کے عوام نے اپنے ملک پر حملہ آور کسی بھی طاقت کو چاہے وہ تخت برطانیہ ہو،روس،امریکہ ہو سب کو ناکامی سے دوچار کیا ہے،ہمیں بھی ان سے سبق حاصل کرنے کی ضرورت ہے،آج55 کے قریب اسلامی ممالک او ر ان کے حکمرانوں کی حالت نہ تیتر اور نہ ہی بٹیر والی ہے،ہم سے ایک چھوٹا ساملک اسرائیل نہیں سنبھالا جاتا جس نے تمام اسلامی دنیا کی ناک میں دم کررکھا ہے،ہم اگر یوں ہی مغربی قوتوں اور ان کے مالیاتی اداروں کے سامنے کاسۂ لیس بنے رہیں گے تو ہماری حالت کبھی بھی درست نہیں ہوسکتی،قرآن پاک کے ارشاد کے مطابق یہود ونصاریٰ تمہارے کبھی بھی دوست نہیں ہو سکتے پر عمل پیرا ہوکر ہم صرف جذبہ ایمانی سے تمام تر مشکلات،پریشانیوں کا سامنا کرسکتے ہیں،جذبہ ایمانی پیدا کرنے کے لئے ہمیں اللہ کی ذات اس کے احکامات اور حضور ؐ کے طریقوں،سنتوں پر عمل پیرا ہونا پڑے گا،ہمیں اپنے معاملات کو درست کرنے کے ساتھ بے حیائی،سودی نظام اور مادر پدر آزاد معاشرے کی تشکیل کے این جی اوز اور حکومتی اقدامات کے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوار بننا پڑے گا،بصورت دیگر طالبائزیشن کے اثرات اب ہمارے عوام پر پڑیں گے اور پڑنا شروع ہوگئے ہیں،عوام اب صیحح معنوں میں جس مقصد کے لئے اس ملک کا قیام عمل میں آیا یعنی اسلام کے نظام کا نفاذ چاہتے ہیں،باقی ڈکیٹٹروں،جمہوریت پسندوں نے ہمیں ستر سالوں میں کچھ نہیں دیا۔امریکہ اور نیٹو فورسز کی افغانستان میں بیس سالہ دہشت گردی کے بعد ہم نے اپنے ہزاروں لوگوں کی جانیں گنوائیں،کھربوں روپے کا نقصان کیالیکن ہمارے ساتھ ساتھ ہمارے ازلی دشمن بھارت جس نے دو بلین ڈالر کی سرمایہ کاری افغانستان میں صرف ہمارے ملک میں دہشت گردی کرنے اور ہمیں نیچا دکھانے کے لئے کی کو منہ کی کھانا پڑی،اس نے وہاں ڈیمز،روڈز ودیگر ترقیاتی کاموں پر جو اربوں روپے خرچ کیے وہ تمام سرمایہ کاری ضائع ہوگئی اور اب بھارت کے وزیراعظم مودی نے طالبان کے افغانستان میں برسر اقتدار میں آنے کے بعد اب تک گھوگی بلی والا کردار ادا کیاہے اور کوئی بھی پالیسی بیان جاری نہیں کیا،ان کو خطرہ ہے کہ طالبان اگر افغانستان میں کامیاب ہوگئے تو وہ دن دور نہیں جب کشمیر بھی ان شاء اللہ آزاد ہوکر رہے گا۔