خوش قسمتی سے خود کلامی انسانی فطرت و جبلت کی ایسی آزادی اور صفت ہے جس پر کوئی ڈکٹیٹر، بنیاد پرست، صاحب اختیار، اسلحہ بردار اور زور آور پابندی نہیں لگا سکتا، غرضیکہ کوئی بھی طاقت اس صفت اور جبلت کو قابو کرنے کی قدرت نہیں رکھتی، اس کے لیے عمر کی کوئی قید ہے اور نہ ہی وسائل کی ضرورت بلکہ اس کے تخیل کی پرواز پر کوئی قدغن نہیں ہے، یہ ایسی نعمت ہے جو کوئی ”انقلابی“ چھین سکتا ہے اور نہ ہی کوئی استحصالی۔
میں ایک عام متوسط درجے کا پاکستانی ہوں جسے خود کلامی کا شدت سے خوش آئند احساس اس وقت ہوا، جب میں تیسری جماعت سے چوتھی میں آیا خوشی میں خود کلامی کرتے ہوئے پھولے نہ سما رہا تھا کہ اگلے ہی سال پانچویں جماعت میں ہوں گا، ابا جی کے گھر آنے کے انتظار میں کی جانے والی خود کلامی میں کئی اشیاء کا تقاضا ہوتا ہے اور ان کے دیدار کا شوق بھی یہ خود کلامی میرا بہت وقت گزار دیتی ہے، دوپہر سکول سے واپسی پر ہم جماعتوں سے گپیں الگ اور دل و دماغ میں ہونے والی خود کلامی میں اماں جی سے فرمائشیں اور ان کی دید کا منتظر ہوتا۔ اس کیفیت میں میرا دھیان ان کروڑوں بچوں کی طرف بھی جاتا جو دیہاتوں اور چھوٹے قصبوں میں ہوتے، کچی سڑکیں اور پگڈنڈیاں جن کے لیے پکے راستے ہوتے، اجڑے کھیت جن کے لیے پارک،جوہڑ جن کے سوئمنگ پول، بدن کی چمڑی جن کا لباس ہوتا، میں سوچتا کہ ان کی خود کلامی کیا ہو گی؟ یہ خود کلامی مجھے بوجھل کر دیتی، پھر گرمیوں کی لمبی چھٹیوں کے بعد سکول کھلتے، دوستوں سے ملتے، ہوم ورک کے مشوروں کی خود کلامی، بہن بھائیوں کے ساتھ رہ جانے والی باتوں کے دوبارہ شروع کرنے کے لیے خود کلامی، شب برأت، معراج شریف کو مٹی کے دئیے، ٹنڈیں، گھروں کو سجانے، رمضان کی آمد، عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم، عیدین، سکول کے نتائج کا دن اورسالگرہ کے دن کی آمد سے بہت پہلے خود کلامی کا حصہ ہوتے، پھر لڑکپن کے دن اور دلوں میں چلنے والے شوق اور بلوغت کے آنے کے دنوں اور عملی زندگی کی شروعات کے زمانے کی خود کلامی، چشم تصور میں اک جہاں فتح کرنے اور زندگی کو لامتناہی سلسلہ جوانی کو دائمی سمجھتے ہوئے پہروں کے پہر خود کلامی کی لذتوں میں گزرتے، جب شعور کی کونپلیں کھلنے کے دن آئے تو یہ خود کلامی بدلتی گئی، جوں جوں آگہی بڑھتی گئی خود کلامی بھی ناگن بنتی گئی جوڈستی تو روح کو بھی گھائل کر ڈالتی۔
خود کلامی کا یہ سفر ہماری معاشرت میں قوم کا فرد کہلانے والے ہر شخص کا اپنا اپنا ہے۔ کوئی سرکاری ملازم ہے، اگر کسی اعلیٰ عہدیدار کو سلام بھی کرے تو خود کلامی میں وہ سلام نہیں لعن ہی ہوتا ہے۔ آپ کسی پارک، گلی، بازار، دکان، کورٹ، کچہری، اقتدار کے ایوان حتیٰ کہ عبادت گاہوں کے دالانوں میں چلے جائیں آپ کو لوگ مصروف کار تو نظرآئیں گے مگر ایک غیر حاضر ذہن کے ساتھ یہ غیر حاضر ذہن خود کلامی میں مبتلا ہو گا۔
سیاست دان ہوں یا دیگر حکمران، بیورو کریسی ہو یا علماء دین، کاروباری ہوں یا کسی دیگر شعبہ کے لوگ آپ ان کے ماضی کو دیکھیں تو خود کلامی ضرور حاوی ہو گی کہ کبھی گھر میں کھانا کھانے سے پہلے مسجد کے طلباء کے لیے کھانا الگ کر دیا جاتا تھا جو ایک بڑے برتن ”ڈول“ میں کھانا لیتے آج مذہب کے کاروبار نے انٹر کولر گاڑیاں، پراڈو اور اسلحہ بردار دے دیئے پھر بندہ خود کلامی میں مبتلا اپنے آپ سے کہہ سکتا ہے کہ یہ کیا ماجرا ہو گیا۔
وزیراعظم کی بات سنیں تو لگتاہے آسٹریلیا کی بات سنا رہا ہے۔ چائنہ کی ترقی کا ذکر کر رہا ہے مگر جب گھروں کے سربراہوں کو کھانا کھانے سے پہلے بجلی کابل دیکھنے سے اجتناب کرتے دیکھا تو خود کلامی حکمرانوں کومکار، عیار، جھوٹے، منافق اورظالم ضرور کہتی ہے۔
اقتدار کے ایوانوں کی پہچان بھی مشکل ہو گئی۔ دستانوں کے اوپر دستانے اور چہروں کے اوپر ماسک اور ان ماسک پر ماسک چڑھے اصلی چہرہ نہ جانے کس کا ہے۔ ظاہر ہوتا ہے نہ کیا جاتا ہے کیونکہ ”اقتدار کی مجبوریاں“ ہوتی ہیں۔ گوجرانوالہ میں ایک پہلوان گھنٹہ گھر یا کے نام سے مشہور تھا۔ ایک گھبرو اور تگڑا پہلوان تھا۔ اس کا دوست جمالو جسے لوگ چاچا جمالوکہتے تھے گھنٹہ گھریا پہلوان تو اب دنیا میں نہیں رہے لیکن چاچا جمالوابھی بھی حیات ہے۔ گھنٹہ گھریا پہلوان جمالو کو گالیاں بھی دیتا تھا اور پیار بھی کرتا تھا۔ پہلوانوں کے پیار کا اپنا ہی انداز تھا۔ ایک دن جمالو دوستوں سے گلہ کرنے لگا کہ آپ لوگ گھنٹہ گھریا پہلوان کو سمجھائیں مجھے لوگوں کے سامنے گالیاں دیتا رہتا ہے۔ اس سے کہا گیا کہ تمہارا یار بھی ہے اگر زیادہ گلہ ہے تو تم بھی گالیاں دے لیا کرو کھاری کہنے لگا میں اس سے کئی گنا زیادہ اس کو گالیاں دیتا ہوں۔ سننے والے حیران ہوئے کہ یہ کیا کہہ رہا ہے۔ گھنٹہ گھریا پہلوان اس سے گالی سن کر اس کو کیسے برداشت کر سکتا ہے سننے والوں کی حیرانی دیکھ کر جمالو نے فوراً کہا کہ میں دل اور منہ میں گالیاں دے لیتا ہوں جو درحقیقت خود کلامی ہے لہٰذا اس وقت پوری قوم حکمرانوں کی قوت اور طاقت کی وجہ سے اسی خود کلامی میں مبتلا ہے۔
قوم کوپاگل بنا دیا کل جو شخص ایجنسیوں کا فخر تھا، نواز شریف آج مجرم ہے۔ پیسے کے زور پر سیاست میں آنے والے سے اس کو لانے والے پوچھتے ہیں منی ٹریل دو تمہارے پاس پیسے کہاں سے آئے۔ 13 سال جیل کاٹنے والے پر جرم ثابت نہ ہوا مگر پھر بھی نفرت کیا جاتا ہے، چاہے صدر پاکستان زرداری صاحب کہلا چکا ہو۔ مریم نواز کراؤڈپلر ہے سیدھا نہیں کہتے کہ مقبول ترین ہے۔ بلاول بھٹو نانا اور ماں کی سیاست کرے تو قبول ہے نانا اور ماں کے ساتھ جو سلوک ہوا وہ سب کے سامنے ہے۔ عدلیہ کے فیصلے ہوں، حکمرانوں کے دعوے ہوں، ملاؤں کے فتوے ہوں یا قومی نغمے بچوں کی پیدائش، سکول داخلہ، عدالت میں مقدمہ، ہسپتال کے باہرگویا ہر جگہ حتیٰ کہ فرد مذہبی فرائض کی ادائیگی کے دوران قوم خود کلامی ہی کر سکتی ہے اور اللہ شکر ادا کرے انسان میں ہر وقت اور سہولت موجود ہے مگر میرا ایمان ہے کہ خود کلامی میں مبتلا قوم ایک دن ضرور سرخرو ہو گی اس کاحق حکمرانی اور بنیادی حقوق اس کو ضرور ملیں گے۔
قائداعظم ؒ کی وفات، لیاقت علی خان کے قتل، مادر ملت فاطمہ جناحؒ کی خاموشی اور سیاست میں بے بسی، ایوب خان کے مارشل لاء، جسٹس منیر کے فیصلے، سقوط ڈھاکہ، ضیاء کی آمریت اور باقیات، گریٹ بھٹو کی شہات، محترمہ بے نظیر بھٹو کے سانحے اور ایسے کئی واقعات رونما ہوئے، طالبان کی آنیاں جانیاں موجودہ حکومت کا قیام، صادق اور امین جو صرف آقا کریم کا لقب ہے اس لقب کا بے دریغ اور ناجائز استعمال، ترجیحات اور عمل کارکردگی غرض یہ کہ آزادی کے وقت کی قتل و غارت گری قائداعظم اور ایوب خان، جسٹس منیر سے لے کر اب تک عوام ہر شعبہ کی کارکردگی کی وجہ سے سراسیمگی، وطن عزیز مشکل ترین موڑ اور قوم خود کلامی میں مبتلا ہے۔ سوشل میڈیا نے کچھ افاقہ دیا تھا مگر حکومت اس دروازے پر بھی کھڑی ہو گئی لہٰذا عوام مکمل خود کلامی میں مبتلا ہو گئے یاد رہے کہ جتنی اس حکومت کے دور میں قوم خود کلامی میں مبتلا ہے پہلے نہ تھی۔