کابل: طالبان نے 20 سالہ طویل جنگ میں امریکا اور اس کے اتحادی ملکوں کو شکست دے کر فتح تو حاصل کر لی ہے لیکن افغان عوام اپنے مستقبل سے خوفزدہ ہیں۔ انھیں ڈر ہے کہ طالبان کے سخت ترین قوانین اور سزاؤں کا اطلاق ہوا تو ان کی زندگیاں اجیرن ہو جائیں گی۔
امریکا اور اس کے اتحادیوں نے خواتین کو تعلیم دینے کیلئے اقدامات اٹھائے تھے لیکن اب افغان خواتین کو ڈر ہے کہ ان کی آزادی سلب کر لی جائے گی۔ اگرچہ طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے میڈیا کی جانب سے پوچھے گئے سوالات میں بار بار اس بات کی یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ کسی پر جبر نہیں کرینگے، ہماری مائیں اور بیٹیاں آزاد ہونگی لیکن اس کے باوجود لوگ اس بات کو تسلیم کرنے سے انکار کر رہے ہیں۔
افغان شہریوں کا کہنا ہے کہ انھیں اپنے بچوں کے مستقبل کا ڈر ہے۔ آگے کیا ہوگا؟ انھیں کچھ علم نہیں ہے۔ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ اگرچہ افغان عوام گزشتہ 40 سال سے جنگ کے عفریت کا سامنا کر رہے ہیں لیکن اتنی غیر یقینی صورتحال پہلے کبھی نہیں تھی جو امریکا کی اچانک پسپائی سے سامنے آئی ہے۔ امریکا نے افغان عوام کو مستقبل کے خواب دکھا کر انھیں توڑ دیا۔
تاہم امریکی صدر جوبائیڈن نے ان تمام الزامات کا جواب دیتے ہوئے انخلا کے فیصلے کا بھرپور دفاع کرتے ہوئے کہا تھا کہ میں نہیں چاہتا میرے بعد آنے والے امریکی صدر کو بھی اسی جنگ کا سامنا کرنا پڑے۔ ہمیں بہرحال افغان سرزمین کو چھوڑنا ہی تھا۔
خیال رہے کہ ایک اندازے کے مطابق افغانستان کی آبادی 3 کروڑ 80 لاکھ افغانوں پر مشتمل ہے۔ ان میں سے زیادہ تر کو بنیادی سہولیات تک میسر نہیں ہیں۔ کابل اور دیگر شہروں میں تو کچھ سہولیات میسر ہیں لیکن سرزمین کا بڑا حصہ اس سے محروم ہے۔
اقوام متحدہ اور ورلڈ فوڈ پروگرام نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اگر افغانستان کی صورتحال ایسے ہی بے یقینی کا شکار رہی تو وہاں شدید انسانی بحران پیدا ہونے کا خطرہ ہے۔
ترقی یافتہ ممالک کو بار بار متنبہ کیا جا رہا ہے کہ آئندہ کچھ عرصے میں ہی افغانستان کو خوراک، ادویات اور دیگر بنیادی ضرورتوں کی شدید قلت کا سامنا ہو سکتا ہے، اس لئے عالمی برادری کو چاہیے کہ وہ طالبان سے قطع تعلق نہ کرے اور جتنا ہو سکے افغان عوام کیلئے اپنی امداد کا سلسلہ جاری رکھے۔