انسداد دہشت گردی راولپنڈی کی عدالت نے بے نظیر بھٹو قتل کیس میں پا نچ ملزمان کو عدم ثبوت کی بناء پر بری کرنے کا فیصلہ سنادیا.سابق سی پی او سعود عزیزاورایس پی خرم شہزادکو 17 سال قیدکی سزا سنادی گئی ،دونوں پولیس افسروں کواڈیالہ جیل سے گرفتارکرلیاگیا.کیس کے مرکزی ملزم سابق صدر پرویز مشرف کو اشتہاری قرار دے کر ان کی جائیداد کی قرقی کا حکم بھی دے دیا گیا۔سابق وزیراعظم بینظیر بھٹو کے قتل کے 9 سال 8 ماہ بعد وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی انسداد دہشت گردی عدالت کے جج اصغر خان نے کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے 5 گرفتار ملزمان کو بری کرنے کا حکم دے دیا۔عدالت نے سابق سی پی او سعود عزیز اور سابق ایس پی خرم شہزاد کو بے نظیر بھٹو قتل کیس میں دو دفعات کے تحت 17، 17 سال قید کی سزا سنادی۔عدالت کے فیصلے کے فوری بعد ضمانت پر رہائی پانے والے دونوں پولیس افسران کو ہتھکڑیاں لگا دی گئیں۔
عدالت نے فیصلے میں کہا کہ دونوں پولیس افسران کو 5، 5 لاکھ روپے جرمانہ بھی ادا کرنا ہوگا جبکہ جرمانے کی عدم ادائیگی پر 6، 6 ماہ مزید قید بھگتنا ہوگی۔فیصلے کے مطابق دونوں پولیس افسران کو واقعے کے فوری بعد جائے وقوعہ کو دھو کر شواہد ضائع کرنے اور مقتول سابق وزیراعظم کا پوسٹ مارٹم نہ کروا کر کیس پر اثر انداز ہونے پر سزا سنائی گئی۔اس کے علاوہ عدالت نے کیس کے مرکزی ملزم سابق صدر پرویز مشرف کو اشتہاری قرار دے کر ان کی جائیداد کی قرقی کا حکم بھی دے دیا ۔سابق صدرپرویزمشرف کی حد تک مقدمہ داخل دفتر کر دیا گیا اور ان کی وطن واپسی پر دوبارہ ٹرائل کیاجائیگا۔راولپنڈی کی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے گزشتہ روز بے نظیر بھٹو قتل کیس کی سماعت کے دوران وکلا کے دلائل مکمل ہونے کے بعد کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا تھا۔ عدالت نے 10 سال بعد سماعت مکمل کی۔
فیصلہ محفوظ ہونے کے بعد وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے)کے پراسیکیوٹر چوہدری اظہر کا میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ہر ملزم کے خلاف مضبوط اور ٹھوس شہادتیں ہیں جب کہ سابق سی سی پی او سعود عزیز سہولت کار ہیں جنہوں نے بے نظیر بھٹو کو سیکیورٹی نہیں دی۔چوہدری اظہر کے مطابق سابق وزیراعظم کے مقدمہ قتل کے 121 گواہان تھے جن میں سے صرف 68 کے بیانات ریکارڈ کئے گئے جب کہ بے نظیر بھٹو کے ڈرائیور عبدالرحمان کے علاوہ سب سے تفتیش کی گئی۔پراسیکیوٹر ایف آئی اے نے کہا کہ بے نظیر کے قافلے میں بیک اپ گاڑی میں بابر اعوان اور دیگر لوگ تھے جب کہ بیک اپ گاڑی فرحت اللہ بابر کے کنٹرول میں تھی۔چوہدری اظہر نے بتایا کہ بے نظیر بھٹو قتل کا مقدمہ 8 بجکر 20 منٹ پر درج ہوا تو مقدمہ درج ہونے سے پہلے تفتیش شروع نہیں ہوتی۔سابق صدر پرویز مشرف کے حوالے سے ایف آئی اے کے پراسیکیوٹر نے کہا کہ پرویز مشرف کی بیرون ملک روانگی کا معاملہ وفاقی حکومت کا اپنا ہے تاہم پرویز مشرف کی حاضری معاف ہوئی تھی انہیں القاعدہ سے خطرہ تھا لیکن ان کے وکیل پیش ہوتے رہے ہیں۔
خیال رہے کہ 27 دسمبر2007 کو لیاقت باغ میں انتخابی جلسے کے بعد روانگی پر لیاقت باغ چوک میں خود کش حملے کے نتیجے میں بے نظیر بھٹو شہید ہوگئی تھیں جب کہ سانحہ کا مقدمہ تھانہ سٹی پولیس میں درج کیا گیا تھا۔اس وقت کے صدر مملکت پرویز مشرف پر الزام ہے کہ انہوں نے بے نظیر بھٹو کو مکمل سکیورٹی فراہم نہیں کی جب کہ عدالت انہیں مقدمے میں اشتہاری قرار دے چکی ہے۔2008 کے انتخابات کے بعد پیپلز پارٹی برسر اقتدار آئی لیکن اس دوران سابق وزیراعظم کے مقدمہ قتل میں کوئی حوصلہ افزا پیش رفت نہ ہوسکی تھی۔ بینظیرقتل کیس 9 سال تک زیر سماعت رہا، جس دوران 6 چالان پیش کئے گئے، جبکہ 8 ججز تبدیل ہوئے اور اس طویل سماعت میں 141 گواہوں میں سے 68 ضروری گواہوں کے بیانات قلمبند کئے گئے، باقی کو غیر ضروری قرار دیا گیا. جن گواہوں کے بیانات قلمبند کئے گئے ان میں غیر ملکی صحافی مارک سیگل، 2 اعلیٰ پولیس افسران ایس ایس پی یاسین فاروق، ایس پی اشفاق انور اور اس وقت کے الائیڈ ہاسپٹلز کے پرنسپل ڈاکٹر مصدق بھی شامل ہیں۔ مقدمہ میں سابق صدر پرویز مشرف، سابق سی پی او سعود عزیز اور موجودہ ایس ایس پی سپیشل برانچ راولپنڈی خرم شہزاد وڑائچ کو بھی ملزم نامزد کیا گیا، جو ضمانت پر ہیں جبکہ 5 ملزم رفاقت، شیر زمان، حسنین گل، عبدالرشید، اعتزاز شاہ گرفتار اور اڈیالہ جیل میں پابند سلاسل ہیں۔ دوران سماعت ایف آئی اے کے ایک پراسیکیوٹر چوہدری ذوالفقار کو تاریخ پیشی پر جاتے ہوئے ٹارگٹ کر کے قتل کر دیا گیا جبکہ پولیس کے سرکاری گواہان کو افغانستان سے آنیوالی فون کالز میں سنگین نتائج کی دھمکیاں بھی دی گئیں۔
گزشتہ روز خصو صی عدالت نمبر 1 کے جج محمداصغر خان نے سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹوکے قتل کیس کی سماعت شروع کی، تو گرفتار ملزم اعتزاز شاہ کے وکیل نصیر تنولی نے اپنے دلائل مکمل کئے جبکہ ایف آئی کے پراسیکیوٹر چوہدری اظہر نے ملزموں کے وکلا کے جواب میں مزید دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ملزموں کی گرفتاری کی تاریخوں میں تضاد ہے، تو یہ غلطی پولیس کی ہے، ایف آئی اے کی نہیں، حملہ گاڑی کے باہر سے ہوا تو ہم گاڑی میں بیٹھے افراد سے تفتیش کیوں کرتے؟۔دریں اثنا پراسیکیوٹر کے دلائل پر ملزموں کے وکلا نے اعتراض کرتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ اگر پراسیکیوٹر تمام گواہوں کے دوبارہ بیانات پڑھیں، تو ہم بھی تیاری کر لیں۔ جس پر فاضل جج نے استدعا مسترد کرتے ہوئے کہا کہ جلدی سے اپنے دلائل مکمل کریں۔ ملزم اعتزاز کے وکیل نے مزید کہا کہ ایف آئی اے کی تفتیش نقائص سے بھر پور ہے، اس تفتیش میں کسی ملزم سے نہیں پوچھا گیا کہ اسے کب گرفتار کیا گیا. اسماعیل نامی شخص جس کو چالان میں آپریٹر ظاہر کیا گیا وہ عدالت سے ہی بھاگ گیا. پولیس نے بتایا کہ اسماعیل آپریٹر نے بیت اللہ محسود کی فون کال ٹیپ کی تھی ، اسی طرح تفتیش میں میرے موکل اعتزاز شاہ کو فدائی حملہ آور بنا دیا گیا جبکہ جس مدرسہ سے اسکی ٹریننگ ظاہر کی گئی اس مدرسہ کے دیگر افراد کو شامل تفتیش ہی نہیں کیا گیا۔
بعد ازاں وکلا ء صفائی کے دلائل مکمل ہوئے تو ایف آئی اے کے پراسیکیوٹر نے ایک مرتبہ پھرکہا کہ بے نظیر بھٹو کو ایک منظم سازش کے تحت قتل کیا گیا،تمام ملزموں کو کڑی سے کڑی سزا ملنی چاہئے اور ان کیخلاف ٹھوس شواہد موجود ہیں،یہ قتل منصوبہ انفرادی اور اجتماعی سازش کا نتیجہ تھا جبکہ اس سازش میں کئی لوگوں نے کام کیا اور کئی لوگوں نے شواہد ضائع کئے ، عدالت نے جو فرد جرم عائد کی اس میں بھی اس بات کا ذکر ہے کہ کرائم سین دھلوا کر شواہد ضائع کئے گئے اوربے نظیرکا پوسٹ مارٹم نہ کرا کر کیس خراب کر نے کی کوشش کی گئی جبکہ اس مقدمہ میں سابق صدر پرویز مشرف ، سابق سی پی او سعود عزیز اور ایس پی خرم شہزاد کیخلاف بھی استغاثہ کے پاس ٹھوس شواہد موجود ہیں، اس کے علاوہ گرفتار ملزموں کی جائے وقوعہ پر موجودگی اور آپس میں رابطوں کا ریکارڈ موجود ہے ، جیل میں موجود گرفتار ملزموں کے مجسٹریٹ کودئیے گئے 164 کے بیان میں بھی اعتراف موجود ہے ، نیز گواہان میں 3 اعلیٰ سرکاری افسروں ایس پی اشفاق انور، ایس ایس پی یاسین فاروق اور اس وقت کے الائیڈ اسپتالوں کے پرنسپل ڈاکٹر مصدق نے بھی اقبالی بیان ریکارڈ کرایا۔ چنانچہ عدالت نے دلائل مکمل ہونے کے بعد فیصلہ محفوظ کر لیا تھا ۔
یاد رہے کہ 27 دسمبر 2007 کو لیاقت باغ راولپنڈی میں جلسہ کے بعد بے نظیر پر قاتلانہ حملہ کیا گیا، جس میں بے نظیر سمیت 23 افراد کی جانیں ضائع ہو ئیں، جبکہ پیپلز پارٹی کے کارکنوں اور پولیس افسروں سمیت 71 افراد زخمی ہو ئے، اس واقعہ کا مقدمہ تھانہ سٹی راولپنڈی میں درج کیا گیا تھا ۔ دوسری جانب سابق سی پی او راولپنڈی سعودعزیز کے وکیل راجہ غنیم عابر خان نے کہا کہ بے نظیر بھٹو کا پوسٹ مارٹم نہ کرانے کی ذمہ داری سعود عزیز پر عائد نہیں ہوتی، واجد ضیا نے تفتیش کرنی تھی کہ پوسٹ مارٹم کیوں نہیں ہوا اور انہوں نے گزشتہ روز عدالت میں بتایا کہ سعود عزیز کے مطابق پوسٹ مارٹم کے تمام تر انتظامات مکمل تھے، مگر زرداری صاحب نے پریس کانفرنس میں کہا کہ محترمہ شہید کی لاش کی بے حرمتی نہیں ہونے دونگا. اگر زرداری صاحب اجازت دیتے تو پوسٹ مارٹم کے انتظامات مکمل تھے، مگر پولیس کو روک دیا گیا.محترمہ کی ایم ایل سی تیار تھی، جبکہ ڈاکٹرز کی 6 رکنی ٹیم بھی بنی اور رپورٹ مرتب ہوئی تھی، تمام ڈاکٹرز بھی عدالت میں پیش ہوئے اور اپنی رپورٹ کو قبول کیا، پراسیکیوشن نے نہیں بتایا کہ جائے وقوعہ کو کیوں دھویا گیا.
بے نظیر بھٹو کے سکیورٹی ایڈوائزر میجر امتیاز نے کہا تھا کہ بے نظیر اپنے آپ کو ایکسپوز نہ کریں، ایلیٹ فورس کے اہلکار عظمت ڈوگر کو تو پراسیکیوشن نے عدالت میں پیش نہیں کیا، سعود عزیز نے کہا تھا کہ بی بی گاڑی سے باہر نہ نکلیں، مگر وہ گاڑی سے باہر آگئیں اور دہشت گردوں کا نشانہ بنیں، ناہید خان نے بھی کہا تھا کہ ان سے گاڑی کا پیچ نہیں کھلا بلکہ رزاق میرانی نے کھولا، مگر رزاق میرانی عدالت میں پیش تو ہوئے لیکن پیچ کھولنے کا کوئی ذکر نہیں کیا۔ ادھر گرفتار ملزم اعتزاز شاہ کے وکیل نصیر تنولی نے کہا کہ بغیر کسی ثبوت کے بیت اللہ محسود کا نام لیا گیا اور پراسیکیوشن نے شروع سے ہی اس کیس کو صحیح طریقہ سے ہینڈل نہیں کیا بلکہ غلط سمت میں لے گئے، ٹشو کے نمونے صرف بی بی کے بھیجے گئے اور کسی کے نہیں، شال اور جوتے ایک بندے کے ٹیسٹ کے لئے بھیجے گئے، سکاٹ لینڈ یارڈ اور یو این او کی ٹیم نے جو شواہد اکٹھے کئے انہیں چالان کا حصہ نہیں بنایا گیا، جے آئی ٹی نے جسے ملزم بنایا ایف آئی اے کا بھی وہی ملزم تھا، جس کا کوئی موبائل ڈیٹا نہیں، بتایا جائے بی بی کی بیت اللہ محسود سے کیا دشمنی تھی؟ جتنے بھی ملزم پکڑے ان کا کالعدم تحریک طالبان سے کوئی رابطہ ثابت نہیں ہو سکا۔