2دن قبل پتہ ہے کیا ہوا، ایک بار پھر حوا کی بیٹی کو ہراساں کیا گیا؟وہ بھی دیار غیر میںچند پاکستانیوں نے اپنی ہی دھرتی کی بیٹی کو ہراساں کیا!نہیں علم تو بتاتی چلوں کہ چند ’’مہمان نوازوں‘‘ نے وفاقی وزیر اطلاعات مریم اورنگ زیب کا لندن کی ’’ایجویئر سٹریٹ‘‘ پر گھیرائو کیا ، وہ لندن کی شاہراہ پر چل رہی ہیں اور اتنے میں مردو خواتین کے ایک گرو ہ نے اْنہیں آن گھیرا۔ اْن پر آوازیں کسی گئیں، اْنہیں نازیبا ناموں سے پکارا گیا۔ اسی ’’ظلم‘‘ کو سہتے ہوئے مریم اورنگزیب بغیر کوئی جواب دیے خاموشی سے ایک کیفے میں داخل ہوتی ہیں مگر یہ گروہ اپنے میگا فون، کیمروں اور نعروں کے ساتھ اْن کا وہاں بھی پیچھا کرتا ہے۔ کیفے کے اندر بھی یہ گروہ اپنا کام جاری رکھتا ہے مگر مریم اورنگزیب جواباً مسکراتے ہوئے مشروب پیتی رہتی ہیں اور ان کے اس ردعمل کو بھی وہاں موجود ایک خاتون شدید تنقید کا نشانہ بناتی ہیں۔پھر وہ ایک نوجوان لڑکی کے سوالات کے جواب دے رہی ہیں اور اسے سمجھا رہی ہیں کہ ’’احتجاج‘‘ آپ کا حق ہے لیکن اس کا بہتر طریقہ ووٹ ہے۔ مریم کو یہ بھی کہتے سنا جا سکتا ہے کہ ’’آپ کا حق بھی ہے اور آپ کا ملک بھی ہے، جس کی ہم عزت کرتے ہیں۔ لیکن ہر چیز کا طریقہ کار ہوتا ہے۔ اگر کوئی آپ کی اپنی بہن یا والدہ کو اس طرح سڑک پر ہراساں کرے گا تو کیا آپ کو اچھا لگے گا؟‘‘وہ مزید کہتی ہیں ’’10 منٹ پہلے یہاں پی ٹی آئی کے 20 لوگ مائیک لے کر میری تحقیر کر رہے تھے، مجھے ناموں سے پکار رہے تھے، اور میں نے کوئی ردِعمل نہیں دیا۔‘‘ مریم یہ بھی کہتی ہیں کہ ’’آپ لوگ اس طرح مجھے ہراساں کرتے ہیں تو اس سے مجھے فرق نہیں پڑتا بلکہ اس کے سامنے میں جس صبر کا مظاہرہ کرتی ہوں اس سے میرے قد میں اضافہ ہوتا ہے لیکن یہ طریقہ کار ہمارے ملک کے تشخص کے لیے خراب ہے۔‘‘حد تو یہ ہے کہ یہ پہلا واقعہ نہیں جب مریم اورنگزیب کو سیاسی کارکنوں کی جانب سے بیرونِ ملک ہراساں کیا گیا ہو۔رواں سال اپریل کے اواخر میں جب مریم اورنگزیب سمیت مسلم لیگ ن کا وفد سعودی عرب کا دورہ کر رہا تھا تو چند افراد نے مسجد نبوی میں انھیں ہراساں کیا، اْن سے بدسلوکی کی اور ان کے خلاف نعرے لگائے۔
خیر حالیہ ویڈیوز سامنے آنے کے بعددل مرجھا سا گیا کہ چلو! آپ نے احتجاج ریکارڈ کروانا تھاکروا لیا، مگر اس طرح کسی خاتون کی جو آپ کے ملک کی وزیر اطلاعات ہیں کی بے توقیری کرنا سمجھ سے بالا تر ہے۔ لیکن اس پر مریم اورنگ زیب واقعی داد کی مستحق ہیں کہ اْنہوں نے جس طرح تحمل مزاجی سے سب کو ہینڈل کیا۔ وہ دیکھ کر باشعور لوگوں کے دل میں ان کے لیے احترام کئی گنا بڑھ گیا ہے۔اور واقعی لگ رہا ہے کہ اطلاعات کی وزارت قابل ہاتھوں میں ہے اور ہمیں سیاست میں مزید خواتین کی ضرورت ہے۔اور پھر کیا ہمیں ایسا نہیں لگا کہ اْن کی سیاسی تربیت میں واقعی اْن کے خاندان خاص طور پر والدہ کا ہاتھ رہا ہے، اگر ہم مریم اورنگ زیب کے ماضی پر نظر ڈالیں تو اْن کی والدہ طاہرہ اورنگزیب نے پنجاب یونیورسٹی سے سیاسیات میں ایم اے کیا۔ جاوید ہاشمی ان کے یونی ورسٹی میں ہم عصر تھے۔ مریم اورنگزیب کے دادا راجہ کالا خان مرحوم مری سے تعلق رکھتے تھے وہ علاقے کے معروف زمیندار تھے۔ سیاست ان کے گھر سے شروع ہو کر یہیں ختم ہوتی تھی، لیاقت علی خان اور دیگر مسلم لیگی راہنما متعدد مرتبہ ان کے گھر تشریف لے گئے۔مریم اورنگ
زیب کی والدہ اور خالہ یعنی طاہرہ اورنگزیب اورنجمہ حمید نے گھر ہی سے سے سیاست میں دلچسپی لینا شروع کی۔ ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف نظام مصطفی تحریک میں دونوں بہنیں پیش پیش تھیں۔ راولپنڈی چونکہ اقتدار کا مرکز تھا لہذا کئی اہم اجلاس ان کے گھر منعقد ہوتے تھے۔ جنرل ضیاء کے دور میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں دونوں بہنیں کونسلر منتخب ہوئیں۔ 1985 کی اسمبلی میں نجمہ حمید رکن پنجاب اسمبلی منتخب ہوئیں اور پھر وزیر اعلیٰ نواز شریف کی کابینہ کا حصہ بنیں۔جنرل مشرف کے دور اقتدار میں راولپنڈی سے تعلق رکھنے والے مسلم لیگی راہنما شیخ رشید، اعجاز الحق اور راجہ بشارت وغیرہ قاف لیگ
میں شامل ہو گئے لیکن یہ خاندان استقامت اور حوصلے سے مشرف آمریت کا مقابلہ کرتا رہا۔ اکثر جب محترمہ کلثوم نواز اٹک قلعے میں میاں نواز شریف سے ملاقات کرنے آتیں تو نجمہ حمید اور طاہرہ اورنگزیب کے گھر قیام کرتیں۔ مریم اورنگزیب انہی دنوں قاعد اعظم یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کر رہی تھیںاور بعد ازاں کنگز کالج لندن سے بھی ماحولیات میں اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ سیاست میں آنے سے قبل مریم ورلڈ وائڈ فنڈ فار نیچر(ڈبلیو ڈبلیو ایف) میں کام کرتی رہیں۔ انہوں نے 2013ء میں ایل ای ڈی پاکستان کی بورڈ ممبر کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دیں۔اس کے بعد 2013ء کے عام انتخابات میں پنجاب سے خواتین کے لیے مخصوص نشست پر مسلم لیگ (ن) کی امیدوار کی حیثیت سے پاکستان کی قومی اسمبلی کی رکن منتخب ہوئیں۔اورپھر دوبارہ 2018ء کے عام انتخابات میں پنجاب سے خواتین کے لیے مخصوص نشست پر مسلم لیگ (ن) کی امیدوار کی حیثیت سے پاکستان کی قومی اسمبلی کی رکن منتخب ہوئیں۔ اوراب موجودہ ن لیگی حکومت میں ایک بار پھر وزارت اطلاعات کا اہم ترین قلمدان سنبھالا ہوا ہے۔ اْنہوں نے اپنے دور میں سخت ترین اپوزیشن کو سنبھالا ہوا ہے۔ بلکہ ایسی اپوزیشن کو سنبھالا ہوا ہے جس کی تین صوبوں میں حکمرانی ہے۔ اور پھر سب سے بڑھ کر اْنہوں نے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے لیے بھی آسانیاں پیدا کر رکھی ہیں، اس کے لیے اْنہوں نے کسی اور کا نہیں بلکہ قابل ترین آفیسر مبشر حسن کابطور پی آئی او انتخاب کیا ہے جن کا صحافیوں کے ساتھ تعلق ایسا ہے جیسے وہ خود بھی صحافی ہوں۔ اور پھر جس طرح مریم اورنگ زیب کی بیک گرائونڈ سیاسی رہی ہے اسی طرح مبشر حسن کی بیک گرائونڈ بھی بیوروکریسی کی رہی ہے، اْن کے والد بھی بیوروکریٹ تھے، ان کا تعلق صوبہ کے پی کے (صوابی) سے ہے، سی ایس ایس کرنے بعد انہوں نے انفارمیشن گروپ جوائن کیا، جب شیری رحمن منسٹر انفارمیشن تھیں تو اْس وقت یہ سٹاف آفیسر تھے، پھر مبشر حسن ایسوسی ایٹڈ پریس آف پاکستان (اے پی پی) کے منیجنگ ڈائریکٹر بھی رہے۔انہوں نے اپنے کیریئر کے دوران مختلف اہم عہدوں پر خدمات سر انجام دی ہیں۔انہوں نے ڈپٹی منیجنگ ڈائریکٹر پاکستان بیت المال کی حیثیت سے بھی خدمات سر انجام دی ہیں۔وہ پاکستان کے پریس کونسلر کے طور پر قاہرہ (مصر) میں بھی تعینات رہے۔ ان تمام تجربات کے بعد وہ یقینی طور پر پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ میں بطور پی آئی او بھی بہترین خدمات سرانجام دے رہے ہیں اور یہ یقینی طور پر مریم اورنگ زیب کا بہترین انتخاب ہیں۔
بہرکیف بات چلی تھی لندن کے ایک کیفے سے تو یہ یقینی طور پر کسی پراپیگنڈے کا حصہ ہے، جو سوچے سمجھے منصوبوں کو تقویت دے رہے ہیں، یقینی طور پر وہ کچھ بھی کر سکتے ہیں مگر خدارا ان سب کے لیے اپنے وطن کی عزت کو قربان نہ کریں! یہ مریم اورنگ زیب ہی تھیں جو سب کچھ وطن کی خاطر برداشت کرگئیں، لیکن اگر وطن کی عزت کو ہی ہم سب نے مل کر تار تار کردیا تو پیچھے کچھ نہیں بچے گا!