گزشتہ کالم میں ، میں نے چھوٹی چھوٹی باتوں، معمولی اختلافات پر اپنے سیاسی حکمرانوں کی عدم برداشت کے ایک دو واقعات اِس تناظر میں عرض کیے تھے کہ دو شنبے میں ایک بزنس کانفرنس میں ہمارے محترم وزیراعظم خان صاحب معمولی سی تنقید برداشت نہ کرسکے، میں نے یہ عرض کیا تھا ہمارے کچھ سیاسی حکمرانوں کے مقابلے میں اصلی حکمرانوں یعنی فوجی حکمرانوں میں قوت برداشت زیادہ تھی، نواز شریف تو ’’تنقید‘‘ بھی اپنی مرضی کی کرواتے تھے، پھر اِس تنقید کا اپنی مرضی سے جواب دے کر اِس بات پر اپنی بلے بلے کرواتے کہ اُن میں بلاکی قوت برداشت ہے، مثلاً ایک بار ایک پریس کانفرنس میں اُن کے اپنے ایک صحافی نے اُن پر ’’سخت تنقید‘‘ یہ کی ’’سر آپ اپوزیشن کو لفٹ کیوں نہیں کرواتے؟‘‘۔وہ مسکرائے اور بولے میں قومی مسائل حل کرنے میں اتنا مصروف ہوتا ہوں میرے پاس اپوزیشن کو لفٹ کروانے کا وقت ہی نہیں بچتا‘‘… یہ سوال پوچھنے والے صحافی کو داد دی گئی کہ اتنا سخت سوال صرف تم ہی پوچھ سکتے تھے… جنرل ضیاء الحق (مرحوم) کے دور میں کچھ صحافیوں اور سیاسی کارکنوں کو جس انداز میں بدترین انتقامی کارروائیوں کا نشانہ بنایا گیا، تاریخ اُن کی گواہ ہے، وہ بڑے ڈرامہ باز قسم کے جرنیل تھے، اُن کے سامنے کوئی اُن پر تنقید کرتا وہ مسکراکر یہ تاثر دیتے اِس تنقید کا اُنہوں نے ذرا بُرا نہیں منایا، بعد میں تنقید کرنے والے کے ساتھ جو سلوک کیا جاتا اس کا شمارزندوں میں ہوتا نہ مردوں میں… ظلم کی کئی دستانیں جنرل ضیاء الحق کے دور میں رقم ہوئیں، پھر اُن کے ساتھ قدرت نے جو کچھ کیا میں اس کی تفصیل میں نہیں جانا چاہتا، اُس کی تفصیل سب کو معلوم ہے،آج پتہ نہیں ان کے اہل خانہ کو بھی اُن کی قبر پر حاضری کی توفیق ہوتی ہے یا نہیں؟ ممکن ہے یہ سوچ کر وہ حاضری نہ دیتے ہوں اس قبر میں رکھا ہی کیا ہے؟۔…جنرل مشرف کا دور آزادی صحافت کے لیے اتنا بُرا نہیں تھا، اُن کے دور میں صحافیوں پر جھوٹے مقدمات نہیں بنے، صحافیوں کو کوڑے نہیں مارے گئے، اُنہیں قید نہیں کیا گیا، اُن کے خلاف انتقامی کارروائیوں کی حدیں پار نہیں کی گئیں، جنرل مشرف میں بلاکی قوت برداشت تھی، اپنے اقتدار کے تقریباً آخری دنوں میں اُن کا ایک بڑے چینل کے ساتھ پھڈا عروج پر پہنچ گیا، اُن کے چندمخلص ساتھیوں نے اُن سے کہا وہ ایک وفد اُس چینل کے مالک کے پاس دبئی بھجوا ئیں اور اُن تک یہ پیغام پہنچائیں کچھ ذاتی و قومی معاملات کو اِس حدتک خراب نہ کریں سارے راستے سارے دروازے بندہو جائیں، وفد اُس چینل کے مالک سے جاکر ملا، چینل کے مالک اِس حد تک ’’تکبرے‘‘ ہوئے تھے، کہنے لگے ’’جاکر اپنے جنرل کو بتادو پاکستان میں حکومت اب ہم بنائیں گے اور ہم گرائیں گے‘‘… اُس کے بعد جنرل مشرف کی قوت برداشت جواب دے گئی، اور وہ جنرل مشرف جس نے نیوزیا ٹی وی چینلز کے جال بچھا دیئے تھے ایک چینل کو نقصان پہنچانے کی ضد میں خود سے جُڑے ہوئے اِس تاثر کو بہت حدتک زائل کرنے میں کامیاب ہوگیا کہ وہ اظہار رائے کی آزادی یا تنقید پر یقین رکھتا ہے… مجھے اِس موقع پر اُن کی قوت برداشت کا ایک واقعہ یاد آرہا ہے جس کا گواہ میں خود ہوں، بلکہ اُس کا حصہ ہوں۔ سابق گورنر جنرل ریٹائرڈ خالد مقبول سے اس کی تصدیق کی جاسکتی ہے… پاکستان بیت المال کی جانب سے کینسر کے چارسو مریضوں کو علاج کے لیے چار چار لاکھ روپے دینے کی ایک تقریب منعقد کیے جانے کا سوچاجارہا تھا جس کی صدارت اُس وقت کے آرمی چیف وصدر جنرل مشرف نے کرنی تھی۔ جنرل خالد مقبول نے مجھ سے کہا ’’اِس تقریب کی کمپیئرنگ آپ نے کرنی ہے‘‘… جنرل خالد مقبول کے ساتھ میرا بڑا ذاتی تعلق تھا جواب بھی برقرار ہے، وہ صحافیوں وقلم کاروں کو بڑی عزت دیتے تھے، مجھ پر خصوصی شفقت فرماتے۔ اِس حدتک کہ میری بہن کی شادی پر بطور گورنر پنجاب باراتیوں کا استقبال میرے ساتھ کھڑے ہوکر اُنہوں نے کیا، مجھے احساس دلایا وہ میری فیملی کا حصہ ہیں، … میں نے اُن کی خدمت میں عرض کیا ’’سر میں جنرل مشرف کی کچھ پالیسیوں کے خلاف مسلسل لکھ رہا ہوں، میری گزارش ہے اِس تقریب کی کمپیئرنگ مجھ سے نہ کروائیں، میں اُن کے لیے اِس تقریب میں وہ ’’تحسینی کلمات‘‘ ادا نہیں کرسکوں گا جو ایسی تقریبات میں کرنے پڑتے ہیں‘‘… اُنہوں نے میری بات نہیں مانی، تقریب شروع ہوئی ہرمقرر جنرل مشرف کے لیے ایسے ایسے خوشامدی کلمات کہہ رہا تھا جیسے اُن کی صورت میں آسمان سے کوئی فرشتہ اُتر کر اقتدار میں آگیا ہو۔اُس وقت کی وزیر بیت المال زبیدہ جلال نے تو حدہی کردی۔ فرمانے لگیں ’’جنرل صاحب کے پاس اتنا وقت نہیں ہوتا ایسی تقریبات میں وہ آئیں، یہ کینسر کے مریضوں پر اُن کا احسان ہے وہ یہاں چلے آئے۔ آدھی شفا تو ان مریضوں کو اُسی وقت مل جائے گی جب جنرل صاحب کے ہاتھ سے وہ چیک موصول کریں گے‘‘… وہ واپس اپنی نشست پر جاکر بیٹھ گئیں، میں نے عرض کیا ’’جنرل صاحب نے اِس تقریب میں تشریف لاکر کسی پر احسان نہیں کیا، مستحق لوگوں کا یہ حق بنتا ہے سربراہ مملکت ان کے ساتھ شفقت وہمدردی فرمائے۔ اُن کے ساتھ وقت گزارے اور وزیر صاحبہ نے یہ بھی غلط کہا ہے کہ مریضوں کو وہ جب اپنے ہاتھوں سے چیک دیں گے تو وہ فوراً صحت یاب ہو جائیں گے۔ جنرل صاحب کے ہاتھ اتنے برکت والے نہیں ہیں، ویسے بھی بیماری اور شفا منجانب اللہ ہے منجانب جنرل نہیں‘‘… میری اِن کڑوی باتوں سے ہال میں سناٹا چھا گیا، ہال میں موجود بے شمار ایجنسیوں کے ’’مشٹنڈوں‘‘ نے مجھے ایسے گھورا جیسے ابھی میری جان نکال دیں گے، اسٹیج پر بیٹھے وزیراعلیٰ پرویز الٰہی گورنر خالد مقبول، چیئرمین پاکستان بیت المال بریگیڈیئر سرفراز، وفاقی وزراء کے رنگ فق ہوگئے، … اُس کے بعد میں نے جنرل مشرف کو مائیک پر بلایا، میرا خیال تھا وہ میری اچھی خاصی جوابی چھترول کریں گے۔ مجھے بڑی حیرت ہوئی جب سٹیج پر بڑی شفقت بھری نظروں سے میری طرف دیکھتے ہوئے وہ بولے ’’پروفیسر صاحب آپ نے بالکل ٹھیک کہا ہے، میں نے اِس تقریب میں آکر کسی پر کوئی احسان نہیں کیا بلکہ میں تو اِس تقریب کے منتظمین کا شکر گزار ہوں اُنہوں نے مجھے یہ موقع فراہم کیا میں چند لمحات ان مستحق مریضوں کے ساتھ گزاروں، اور پروفیسر صاحب آپ نے یہ بھی درست فرمایا ہے میرے ہاتھ اتنے مقدس نہیں کہ اُن سے چیک موصول کرنے والا کوئی مریض صحت یاب ہوجائے‘‘… جنرل مشرف کے ان کلمات کے بعد نہ صرف سٹیج پر بیٹھی اہم شخصیات کی جان میں جان آگئی، بلکہ ہال میں موجود ایجنسیوں کے جو مشٹنڈے مجھے گھور رہے تھے ان کی نظروں میں بھی اپنے لیے میں نے رحم محسوس کیا، … آخر میں اپنے دوست وزیراعظم کی خدمت میں ایک بار پھر میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں اپنے ظرف کو اپنے عہدے کے مطابق کرلیں۔ بصورت دیگرحکمرانی سے جب اُن کی واپسی ہوگی بڑی مشکل ہوگی !!