ڈینش آرٹسٹ کا اچھوتا فن پارہ، ’’ٹیک دا منی اینڈ رن‘‘

 Weird work by a Danish artist,
کیپشن: فائل فوٹو

کوپن ہیگن: ڈنمارک سے تعلق رکھنے والے آرٹسٹ جینزہاننگ کو ایک میوزیم نے فن پارے بنانے کا منصوبہ دیا لیکن اس نے 84 ہزار ڈالر کی بھاری رقم کے عوض صرف دو خالی کینوس دیدیے۔ آرٹسٹ نے ان فن پاروں کو ’’ٹیک دا منی اینڈ رن‘‘کا دلچسپ نام دیا ہے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق جینزہاننگ کا شمار ملک کے ایسے ممتاز آرٹسٹوں میں ہوتا ہے جن کو ماڈرن آرٹ بنانے میں عبور حاصل ہے۔ البورگ شہر کے مشہور میوزیم کنسٹن نے ان کی یہی شہرت مدنظر رکھتے ہوئے انھیں کام سونپا کے وہ کچھ ایسی نادر پینٹنگز بنائیں جس میں کیا گیا کام آج تک کسی نے نہ کیا ہو۔

میوزیم کے منتظیمن کا کہنا ہے کہ اس مقصد کیلئے ڈینش آرٹسٹ کو چوراسی ہزار ڈالر کی رقم ادا کی گئی تھی۔ تاہم کچھ عرصہ بعد ہمیں جینزہاننگ کی جانب سے بذریعہ ای میل آگاہ کیا گیا کہ اس نے ایسی شاندار پینٹنگز تخلیق کی ہیں جس پر آج تک کوئی کام نہیں کر سکا۔

ڈینش آرٹسٹ جینزہاننگ نے اپنی ای میل میں بتایا کہ اس نے اپنے ان فن پاروں کو ’ٹیک دا منی اینڈ رن‘ کا عنوان دیا ہے۔ میں یہ فن پارے جلد میوزیم کے حوالے کر دوں گا۔

رپورٹس کے مطابق مقررہ تاریخ سے قبل یہ فن پارے میوزیم کو پہنچا دیئے گئے لیکن جب ڈبوں وک کھولا گیا تو منتظمین حیران رہ گئے کہ اس میں کوئی پینٹنگز ہی موجود نہیں تھیں بلکہ اس میں صرف دو خالی کینوس پڑے تھے۔

میوزیم کے منتظمین نے جینزہاننگ کے اس کام کو اچھوتا اور تصوراتی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ڈینش آرٹسٹ واقعی ایک بڑے تخلیق کار ہیں، ان پینٹنگز کو دیکھ کر پہلا جملہ یا سوال یہی ذہن میں آتا ہے کہ پیسہ کہاں گیا؟

کنسٹن میوزیم نے ان دلچسپ فن پاروں کو اپنی دیواروں کی زینت بنا لیا ہے اور انتظار کر رہے ہیں کہ کب جینزہاننگ انھیں اصل پینٹنگز مہیا کرتے ہیں۔