نئی دہلی: بھارت کی بدنام زمانہ خفیہ ایجنسی ”را” کیلئے کام کرنے والے ایجنٹس اپنے جاسوسی کے ادارہ کی طرف سے انہیں استعمال کرنے کے بعد مایوسی کے عالم میں تن تنہا چھوڑ دیے جانے پر بد دلی اور آرزودگی کا شکار دکھائی دیتے ہیں اور باقی ماندہ زندگی کسمپرسی کی حالت میں گزارنے پر مجبور ہیں۔
اسی طرح کی صورتحال ڈینیئل جیسے لوگوں کو درپیش ہے جس نے پاکستان میں 4 سال کی سزا کاٹی اور اب اس کی حالت قابل رحم ہے اور وہ اپنی ضروریات زندگی پوری کرنے کیلئے رکشہ چلانے جبکہ اس کی بیوی لوگوں کے گھروں میں برتن دھونے پر مجبور ہے۔
ایک انٹرویو میں ڈینیئل جو مسیحی برادری سے تعلق رکھتا ہے اور سیالکوٹ اور نارووال کے علاقہ کی سرحد پر واقع بھارتی پنجاب کے ایک گائوں کا رہائشی ہے، نے دعویٰ کیا کہ اس نے پیسے اور سرکاری ملازمت کے پرکشش وعدوں پر اپنے ملک کی جاسوس ایجنسی’ را ‘کے لیے کام کیا اور جاسوسی کیلئے 1992ء میں اسے پاکستان سمگل کیا گیا۔
ایک سوال کے جواب میں ڈینیئل نےکہا کہ ’را‘ کے لیے کام کرتے ہوئے ہم بہت فخر محسوس کرتے تھے ،تاہم اب مایوسی محسوس ہوئی کہ ان کی ایجنسی نے انہیں تنہاچھوڑ دیا ہے۔ ڈینیل نے بتایا کہ وہ ایک سال میں دس بارسرحد پار کرتے رہے ، یہاں تک کہ وہ 1993 میں لاہور میں پکڑے گئے۔
جب ان کی گرفتاری کے بارے میں سوال کیا گیا تو اس کا کہنا تھا کہ سخت تفتیش کے دوران انہوں نے ’را‘ کےلئے پاکستان سے معلومات اکٹھا کرنے کا کام سونپنے کے بارے میں ایک لفظ بھی نہیں بتایا۔ انہیں کہا گیا تھا کہ وہ اسمگلر بنیں یا کسی ایسے شخص کی طرح کام کریں جو غلطی سے دوسری طرف چلا گیا۔ انہوں نے کہا کہ انہیں مختلف جیلوںمیں منتقل کیا گیا اور بالآخر کوٹ لکھپت جیل لاہور سے رہا کیا گیا۔
اس نے بتایا کہ پاکستان میں ابتدائی کارروائیوں کے دوران وہ گرفتاری سے بڑی مشکل سے بچا ، علاقے میں رینجرز ٹیم کے گشت کی وجہ سے وہ ایک پل کے نیچے چھپ گیا اور ایک گھنٹہ وہاں چھپا رہا جب تک نقل و حرکت کے لئے اندھیرا نہ چھا گیا ، اس کو دیئے گئے اہداف کے بارے میں اس نے بتایا کہ اسے مختلف آرمی یونٹس کا محل وقوع اور ان کی نقل و حرکت سے متعلق معلومات اکٹھے کرنے کا کہا گیا تھا،
اس کے ساتھ اسے پاکستان کے ریٹائرڈ اور حاضر سروس اور فوجی افسران کے ساتھ دوستانہ تعلقات بڑھانے اور ان سے زیادہ سے زیادہ معلومات حاصل کرنے کا ہدف دیا گیا ۔ اس نے ریلوے نظام الاوقات اور دیگر معلومات حاصل کیں ۔
ڈینیئل اور اس کے ساتھی ایجنٹس کورا کے لئے کام کرنے کے لئے لالچ دیئے گئے ، ان دنوں بھارتی سرحد کی جانب سے باڑ لگائی جارہی تھی اور لوگوں کی سمگلنگ کوئی مسئلہ نہیں تھا کیونکہ بھارتی بارڈر سیکیورٹی فورس (بی ایس ایف)نے ہمیشہ انہیں سہولت فراہم کی ۔
اس نے بتایا کہ وہ پاکستان میں داخلے کے لئے جیسر ریلوے سٹیشن کے قریب علی آباد گائوں میں سہولت کار لالہ بشیر نامی شخص کے ساتھ قیام کرتے تھے جہاں سے وہ دیگر مخصوص علاقوں کی جانب جاتے تھے ، ان کو یہ کام بھی سونپا گیا تھا وہ پاکستانی کرنسی کی بڑی مقدار ساتھ لے کر جائیں جو کہ را کے سلیپر ایجنٹوں کے ذریعے استعمال ہو ۔ مذکورہ ایجنٹ نے بتایا کہ جب وہ بھارت واپس لوٹتے تھے تو بی ایس ایف انہیں کوڈ وڈرڈ استعمال کرنے کے بعد داخلے کی اجازت دے دیتی تھی ۔
کئی بار انہیں ’کلاکار‘کا کوڈ ورڈ دیا گیا اور کسی نے مجھ سے نہیں پوچھا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ میں را کے لئے کام کرتا ہوں ۔ پاکستان کے لوگوں کے بارے میں اپنے تجربات بیان کرتے ہوئے اس نے کہا کہ میں نے انہیں گرم جوش اور دوست پایا ، وہ جیل میں اپنے خاندان کی طرف سے آنے والے تحفوں میں اس کو بھی شریک کرتے تھے اور اس سے بہترین سلوک کرتے تھے ۔
تاہم کئی سال بعد بھارت واپسی کے حوالے سے ڈینئل نے کہاکہ کسی نے ان لوگوں کی فلاح و بہبود کی فکر نہیں کی ، جنہوں نے ان کے لئے اپنی جانیں خطرے میں ڈالیں ، مقامی سیاستدان پرتاب سنگھ باجوہ جو پہلے قانون ساز اسمبلی کے ممبر تھے سمیت مقامی سیاستدانوں سے بھی ملاقات کی اور ان سے ریلیف مانگا لیکن انہوں نے ان کے لئے کچھ نہیں کیا ۔
اس نے بتایا کہ اس نے را کے لئے اس بنیاد پر حامی بھری کہ انہوں نے اچھی رقم دینے کا وعدہ کیا تاہم آخر میں انہوں نے اسے 15ہزار روپے دیئے ،جب اس نے را کے دفتر سے رابطہ کیا تو انہوں نے اس سے خالی کاغذ پر دستخط کروا لئے اور اسے بتایا کہ یہ اس کے لئے منظور شدہ رقم تھی اس نے افسوس کا اظہار کیا کہ اسے نہ ہی وعدے کے مطابق رقم ادا کی گئی اور نہ ہی کسی اور طریقے سے معاوضہ دیا گیا ۔
پاکستان میں جیل میں قید کے دوران اس کی والدہ کو 500روپے ماہانہ معاوضہ ملا ۔ اس نے یاد دلایا وہ اورایک دوسرے ایجنٹ چنا نے پاکستانی جیل میں 18سال گزارے ، اس کو نئی دلی میں بلایا گیا اور پاکستان میں بم دھماکے کرنے کا کہا گیا ۔
اس نے بتایا جب انہوں نے 50لاکھ روپے کی ادائیگی کا مطالبہ کیا تو انہیں کوئی جواب نہیں دیا گیا ۔
اس نے بتایا کہ میں خود کو تنہا اور استعمال شدہ محسوس کر رہاہوں تاہم امیدلگائے بیٹھا ہوں اگر مجھے کچھ رقم مل جائے تو میں اپنے لئے ایک گھر تعمیر کر سکتا ہوں ، شاندار زندگی گزار سکتا ہوں اور اپنے بیٹے کے لئے ملازمت حاصل کر سکتا ہوں۔
بھارتی چینل پر ڈینیئل کی بتائی گئی کہانی کسی ایک فرد کی نہیں جو کہ کھوہ کھاتے میں ڈال دی گئی ہو ، یہاں ایسے سینکڑوں لوگ ہیں جن کو استعمال کیا گیا اور تنہا چھوڑ دیا گیا ۔
بھارتی فوجی اہکاروں سے بھی اسی طرح کی کہانیاں سنی جا سکتی ہیں جنہوں نے سروس کے دوران اور ریٹائرمنٹ کے بعد قابل رحم حالت میں ناقص خوراک ، علاج اور دیگر سہولیات کے بغیر کام کیا ۔
ڈینیئل اپنی اہلیہ کے ہمراہ اب ناگفتہ بہ حالت میں کرائے کے ایک کمرے میں رہائش رکھے ہوئے ہے اور اس کی ایک دیوار پر پاکستانی جیل میں قید کے دنوں کی دھندلی تصویر آویزاں ہے جو اسے ماضی کی یاد دلاتی ہے ۔