اسلام آباد: وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم نے نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ مسلم لیگ ن کے تاحیات قائد نواز شریف کو پاکستان واپس لایا جا سکتا ہے۔ وہ برطانوی عدالت کے سامنے کوئی بہانہ نہیں بنا سکتے کیونکہ ان کیخلاف پاکستانی عدالتوں کے فیصلے موجود ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ نواز شریف لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کی بنیاد پر باہر گئے تاہم برطانوی عدالتیں پاکستانی عدالتوں کے فیصلوں کی قدر کرتی ہیں اور شہباز شریف نے نواز شریف کی ضمانت دی تھی۔
وفاقی وزیر قانون نے یہ بھی بتایا کہ نواز شریف کو واپس لانے کیلئے حکومت برطانوی عدالت سے رابطہ کرے گی۔ برطانوی عدالت اور حکومت کو پاکستانی عدالتوں کے فیصلے دکھائے جائیں گے کہ نواز شریف کی صحت تشویشناک نہیں کہ وہ سفر نہ کر سکیں۔
بیرسٹر فروغ نسیم کا کہنا تھا کہ نواز شریف کے وارنٹ پاکستانی عدالت نے جاری کیے جو وصول نہیں کیے گئے اور عدالت کا وارنٹ وصول نہ کرنا توہین عدالت کے زمرے میں آتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کا فیصلہ تھا کہ نواز شریف پارٹی کی قیادت نہیں کر سکتے لیکن وہ پارٹی سربراہ کے طور پر کام تو کر رہے ہیں۔ نواز شریف کو سربراہ ماننے والے توہین عدالت کے زمرے میں بھی آ سکتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کی برہمی درست ہے کیونکہ نواز شریف کے جانے میں صرف حکومتی احکامات شامل نہیں تھے۔ ان کے معاملے پر لاہور اور اسلام آباد ہائیکورٹ کے احکامات بھی تھے اور امید ہے نواز شریف عدالتی احکامات کی پابندی کریں گے۔
بیرسٹر فروغ نسیم نے کہا کہ نواز شریف کی میڈیکل رپورٹس میں گڑ بڑ کی گئی۔ طبی رپورٹس ایسی تھیں کہ جیسے مریض ابھی انتقال کر جائے گا لیکن بیمار نواز شریف لندن جا کر صحت یاب ہو گئے۔
وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ نواز شریف کے خلاف کوئی سیاسی کیس نہیں ہے۔ ا۔ نواز شریف کیخلاف احتساب عدالت کا فیصلہ بھی موجود ہے جبکہ نواز شریف پر کرپشن اور منی لانڈرنگ سے متعلق الزامات تھے۔ انہوں نے فیصلے کے خلاف اپیل بھی کر رکھی ہے۔
واضح رہے کہ آج اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج جسٹس محسن اختر کیانی نے نواز شریف کی سزا کے خلاف اپیلوں کے کیس میں ریمارکس دیے تھے کہ نواز شریف کا بیرون ملک جانا پورے نظام کی تضحیک ہے اور ملزم کو پتا ہے وہ سارے نظام کو شکست دے کر گیا اور وہ وہاں بیٹھ کر پاکستان کے سسٹم پر ہنس رہا ہو گا۔