لاہور: پاکستان تحریک انصاف کی حکومت جب سے اقتدار میں آئی اس نے ماحولیاتی آلودگی کو کم کرنے کے حوالے سے بہت سے اقدامات اٹھانے کا فیصلہ کیا تھا اور ان ہی میں سے ایک ملک بھر میں الیکڑک وہیکل پالیسی کو متعارف کروانا تھا تاکہ فضا میں موجودہ کاربن کی موجودگی کو کم سے کم کیا جائے۔ حکومت کی جانب سے اس حوالے سے موٹر سائیکل اور رکشوں کی حد تک تو نیشنل الیکٹرک وہیکل پالیسی منظور ہو چکی ہے اور اس پر کسی حد تک عملدرآمد کی کوششیں بھی کی جا رہی ہیں۔ تاہم جب بات الیکڑک کاروں کی ہوتی ہے تو اس حوالے سے سارے معاملات سست روی کا شکار نظر آتے ہیں۔
حکومت کی جانب سے لوگوں کی حوصلہ افزائی کے بعد الیکٹرک کار خریدنے والے صارفین انھیں ملک میں درآمد کرنے کے لیے اب تک کروڑوں روپے خرچ کر چکے ہیں روایتی انداز میں اداروں کی نااہلی سمجھا جائے یا پھر کوتاہی کہ جن گاڑیوں پر لوگوں نے کروڑوں روپے خرچ کس ڈالے لیکن ان گاڑیوں کی رجسٹریشن کے لیے اداروں میں ابھی تک کوئی واضح ہدایات موجود نہیں۔
الیکڑک گاڑیوں کے صارفین کو سب سے بڑی مشکل کا سامنا گاڑی کی رجسٹریشن کے مرحلے میں آتا ہے کیونکہ ایکسائز ڈپارٹمنٹ کے پاس عام گاڑیوں کی رجسٹریشن کے حوالے سے پالسی تو موجود ہے یعنی کہ کار کے انجن کے مطابق سالانہ یا لائف ٹائم ٹوکن اور نمبر پلیٹ سمیت مختلف ٹیکس ادا کرنے کے بعد یہ گاڑی رجسٹر ہو جاتی ہے اور اسے باآسانی گاڑی کا مالک ملک بھر کی سڑکوں پر چلا سکتا ہے۔ تاہم الیکڑک گاڑیاں لینے والے مالکان اس وقت گاڑی کی رجسٹریشن کے حوالے سے تذبذب کا شکار نظر آتے ہیں۔ اگر کوئی اپنی نئی الیکٹرک گاڑی کی رجسٹریشن کے لیے ایکسائز کے دفتر کا چکر لگاتا ہے تو اس سے پوچھا جاتا ہے کہ گاڑی کتنے سی سی ہے، اس کا انجن کتنے ہارس پاور کی اہمیت کا حامل ہے جبکہ الیکٹرک گاڑیوں میں انجن یا موونگ پارٹس نہیں ہوتے بلکہ ان گاڑیوں میں ان کی قوت یا ہارس پاور کا تعین بیٹری کے سائز اور مختلف پہلوؤں کی بنیاد پر لگایا جاتا ہے۔
ملک بھر میں الیکڑک گاڑیاں رکھنے والے مالکان نے یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ ایکسائز کے پاس الیکٹرک گاڑیوں کی رجسٹریشن سے متعلق کوئی واضح ہدایات موجود نہیں ہیں جس کی وجہ سے ہر فرد سے مختلف رقم وصول کی جاتی ہے۔ جو حکومت کی الیکڑگ گاڑیوں کی پالیسی پر سوالیہ نشان بننے کے ساتھ ساتھ الیکڑک کار صارفین کو مراعات اور سہولیات ملنے کے بجائے ان سے زیادہ پیسے بٹورے جا رہے ہیں جس سے پاکستان میں الیکٹرک گاڑیوں کے اخراجات کسی عام گاڑی سے بھی زیادہ پڑ رہے ہیں اور یہ گاڑی عام آدمی کی پہنچ سے کافی دور ہو جائے گی۔
اگر پاکستان کے علاوہ دنیا بھر کے دیگر ممالک میں الیکڑک گاڑیوں کی پالیسی پر نظر ڈالی جائے تو الیکٹرک گاڑی خریدنے والے شخص کو ٹیکس میں چھوٹ سمیت مختلف مراعات دی جاتی ہیں، جیسے کہ ٹوکن ٹیکس، سیلز ٹیکس یا کسٹم ٹیوٹی میں کمی۔ اس کے علاوہ موٹروے پر بھی ان گاڑیوں سے کم پیسے لیے جاتے ہیں اور پارکنگ میں چارجنگ کی سہولت دی جاتی ہے۔
پاکستان میں ایسی کوئی سہولت الیکڑک کار رکھنے والے مالکان کو نہیں مل رہیں۔ حکومت نے ابھی تک چارجنگ سٹیشنز قائم کرنے کے حوالے سے بھی کوئی خاص اقدامات نہیں کئے اور اس طرح جن چند لوگوں کے پاس الیکڑک گاڑیاں موجود ہیں ان کو گھر سے گاڑی نکالنے کے بعد سب سے بڑی مشکل کا سامنا چارجنگ کا ہوتا ہے جو حکومت کی الیکڑک وہیکل پالیسی پر ایک سوالیہ نشان ہے۔
حال ہی میں حکومت نے نئی موٹر وہیکل پالیسی اور پاکستانی شہریوں کو الیکڑک گاڑیوں کی جانب راغب کرنے کے لئے اسلام آباد کے ایک پٹرول پمپ پر چارجنگ سٹیشن لگایا اور لاہور میں بھی چند مقامات پر چارجنگ سٹیشنز قائم کئے گئے تاہم چارجنگ پوائنٹس موٹروے پر نہ ہونے کی وجہ سے ملک میں الیکٹرک گاڑیوں پر طویل سفر خاصا مشکل ثابت ہو سکتا ہے اور انھیں شہر میں عام گاڑیوں کی طرح بھی استعمال نہیں کیا جا سکتا۔
الیکٹرک گاڑیوں کی چارجنگ کے بارے میں بات کی جائے تو یہ کسی عام موبائل کی طرح چارج نہیں ہوتی بلکہ اس کے لئے گھر پر چارجنگ کی سہولت موجود ہونی چاہیئے جس سے پانچ گھنٹے میں یا اوور نائٹ اس گاڑی کی چارجنگ ہو جاتی ہے لیکن اس سے کافی بجلی خرچ ہوتی ہے جو شہریوں کی جیبوں پر اضافی بوجھ کا سبب سکتی ہے۔
اسلام آباد میں اور لاہور کے چند مقامات پر موجود چارجنگ سٹیشن پر گاڑی کو چارج کرنے میں آدھا گھنٹہ لگتا ہے اور فی الحال یہ سہولت مفت ہے۔
دوسری جانب اگر دبئی کے حوالے سے بات کی جائے تو دبئی روڈ اینڈ ٹرانسپورٹ اتھارٹی نے اعلان کیا ہے کہ الیکڑگ گاڑیاں رکھنے والے افراد اگلے دو سال تک عوامی مقامات پر لی جانے والی پارکنگ فیس کا اطلاق نہیں ہو گا ۔ دبئی روڈ اینڈ ٹرانسپورٹ اتھارٹی اپنے بیان میں کہا ہے کہ اس کے لئے گاڑی مالکان کو اتھارٹی کے دفتر کا بھی چکر نہیں لگانا پڑے گا بلکہ الیکڑک گاڑیوں کو خود بخود سے استثنیٰ حاصل ہو گا اور پارکنگ انسپکڑ جب گاڑی کی نمبر پلیٹ کو سسٹم میں درج کرے گا تو اگر گاڑی الیکڑک ہوئی تو ایسے مالکان سے کوئی پارکنگ فیس نہیں لی جائے گی اور اس پالیسی کا اطلاق یکم جولائی 2020 سے ہو گا۔
عالمی سطح پر الیکٹرک گاڑیاں خریدنے پر سبسڈی دی گئی ہے لیکن پاکستان میں حکومتی وسائل کی کمی کی وجہ سے سبسڈی کی جگہ سہولیات اور کاروباری ماڈل کو مدنظر رکھا جا رہا ہے۔ حکومتی حلقوں میں ملک میں الیکٹرک گاڑیاں لانے کے لیے سنجیدگی نظر آ رہی ہے جبکہ اس وقت پاکستان میں گاڑیوں پر ٹیکس زیادہ ہے اس کے باوجود الیکٹرک گاڑیاں خریدنے پر ٹیکس میں چھوٹ اور کار ساز کمپنیوں کو مراعات دینے کے حوالے سے بھی معاملات زیر غور ہیں۔