پاکستان اس وقت ایک انتہائی مشکل دور سے گزر رہا ہے،ایک طرف مہنگائی کا عفریت کھڑا ہے دوسری طرف آفات اور وباؤں کی بھی کمی نہیں۔خدا خدا کر کے کرونا سے تھوڑا سا سانس ملا تھا کہ اب ڈینگی وائرس کی وبا نے آن لیا ہے۔ڈینگی وائرس کے بارے میں رائل ریسرچ سیل کی رپورٹ دیکھتے ہیں۔
ڈینگو یاڈینگی وائرس ایک قدیم وائرس ہے،جس کے بارے کہا جاتا ہے کہ یہ تین سے چار سو سال قبل پایا جاتا تھا،تا ہم پچھلی چند دہائیوں سے یہ عالمی سطح پر تشویش ناک حد تک پھیل رہا ہے۔ڈینگی وائرس کی چار اقسام ہیں،جنہیں ڈین ون،ڈین ٹو،ڈین تھری اور ڈین فور کہا جاتا ہے۔اس وقت پاکستان میں تین قسم کا ڈینگی وائرس ہے۔پہلی دفعہ ہونے والا ڈینگی بخار اتنا خطرناک نہیں ہوتا اور عام طور پر کوئی علاج اوراحتیاط نہ بھی کی جائے تو بھی بخار سو فیصدخود ہی اتر جاتا ہے۔لیکن دوسری یا تیسری دفعہ ہونے والا ڈینگی بخار خطرناک ہو سکتا ہے۔ایک شخص پر ایک وائرس ایک ہی بار حملہ آور ہوتا ہے،اس لئے جب پہلا وائرس حملہ کرتا ہے تو اس کے بعد وہ وائرس دوبارہ کبھی اٹیک نہیں کرتا البتہ دوسرا اور تیسرا وائرس حملہ آور ہو سکتا ہے۔ اس کی علامات یہ ہیں کہ ہڈیوں اور جوڑوں میں درد ہوتا ہے،آنکھیں دکھتی ہیں،اور عام طور پر اسے ہڈیوں کا بخار کہہ دیا جاتا ہے۔دوسری یا تیسری بار اس وائرس کی زد میں آنے والوں کی مسلسل مانیٹرنگ اور سخت پرہیز ضروری ہوتا ہے۔ اس میں انسانی جسم میں موجود پلیٹلیس خطرناک حد تک کم ہو جاتے ہیں۔ماہرین کا کہنا ہے کہ دنیا کے جن علاقوں میں برسات میں اضافہ ہو رہا ہے وہاں ڈینگی وائرس پیدا ہو رہا ہے،اس سال پاکستان میں خاص طور پر مون سون کا سیزن خاصا طویل رہا،اس لئے ڈینگی وائرس وبائی شکل اختیار کر گیا ہے۔ڈینگی عام مچھر سے برعکس رات کے بجائے دن کو کاٹتا ہے،اس لئے اسے روشنی کا مچھر کہا جاتا ہے۔یہ گندے پانی کے بجائے صاف اور تازہ پانی میں پرورش پاتا ہے۔عام طور پر سورج غروب اور طلوع ہونے کے وقت یہ زیادہ ایکٹیو ہوتا ہے۔اس سے بچنے کی سب سے اہم اور ضروری احتیاط یہ ہے کہ مچھر کی آماجگاہیں ختم کی جائیں اور سپرے وغیرہ سے چھڑکاو ئکیا جائے۔یہ بھی ضروری ہے کہ گھر میں اور اس کے آس پاس تازہ پانی اکٹھا نہ ہونے دیں،گھر کے گملوں میں بھی پانی نہ ڈالیں،یا پھر ان گملوں کو فاصلے پر رکھیں۔ یہ وائرس عام طور پر برسات کے بعد ستمبر اور اکتوبر کے مہینوں میں ہوتا ہے،اور نومبر میں ختم ہونا شروع ہو جاتا ہے۔دنیا میں ڈینگی کی ویکسین ابھی تک تیار نہیں کی جا سکی۔
پاکستان میں ڈینگی بخار میں اضافہ 2006 اور 2007 میں ہوا،جو اب خاصی تشویشناک صورت اختیار کر گیا ہے۔حکومت کی جانب سے ملک بھر میں ڈینگی وائرس کیخلاف کئے جانے والے اقدامات ناکافی ہونے کے باعث متاثرہ مریضوں کی تعداد بہت بڑھ چکی ہے،جب کہ مرنے والوں کی تعداد بھی بڑھ رہی ہے۔اب تو قومی ادارہ صحت نے بھی ملک میں ڈینگی کیس بڑھنے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ اب یہ وائرس ملک کے بیشتر علاقوں میں موجود ہے۔اگر صرف لاہور کو دیکھیں تو اب تک سرکاری اعداد و شمار کے مطابق گیارہ افراد ڈینگی سے لقمہ اجل بن چکے ہیں جب کہ 6000 سے زائد متاثر ہیں جنکی تعداد میں روزانہ اضافہ ہو رہا ہے۔
شہباز شریف سے کسی کے لاکھ اختلافات بھی ہوں تو اس بیماری پر قابو پانے کے لئے جتنی انھوں نے محنت کی تھی وہ سب کو علم ہے۔بروقت سپرے ہونا شروع ہو گیا۔ ہسپتالوں میں خصوصی انتظامات کئے گئے جن کے خاطر خواہ نتائج آئے۔ڈینگی ٹیسٹ کی قیمت 90روپے کر دی گئی جو آج تک ہے۔بہت سے لوگوں نے وزیر اعلیٰ پنجاب کو شروع میں یہ تجویز دی تھی کہ جن سرکاری افسران نے اس دور میں کام کیا انہیں ہی یہ ٹاسک دیا جائے لیکن بے جا ضد کے باعث ایسا نہ ہو سکا اور نئے افراد تعینات کر دئے گئے جنھیں معاملات سمجھنے میں وقت لگنا تھا۔یقینا کچھ جانیں قربان کرنے کے بعد تجربہ تو آ ہی جانا تھا لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ جانیں قربان کرنے کا سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔ اب جب پانی سر سے گز رچکا ہے تو اعتراف کیا جا رہا ہے کہ چونکہ ڈینگی عملہ کم تھا اس لئے بروقت سرویلنس نہ ہو سکی جس کی وجہ سے ڈینگی پھیل رہا تھا۔سوال یہ ہے کہ ہر غلط کام کا الزام گزشتہ حکومت پہ لگانے والے کہیں اب تو یہ نہیں کہہ دیں گے کہ ہم عملہ پرانی حکومتوں کی وجہ سے نہیں رکھ سکے۔وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کئی مرتبہ یہ دعویٰ کر چکے ہیں کہ ان کی کارکردگی شہباز شریف سے اچھی ہے وہ شو باز تھے میں کام کر کے دکھاتا ہوں اگرچہ انھوں نے بہت سے کام کئے بھی ہیں جن کی تعریف نہ کرنا زیادتی ہو گی لیکن ڈینگی کے معاملے میں شہباز شریف کے اقدامات ابھی بھی موجودہ حکومت سے بہت آگے ہیں۔
میڈیا بہت دیر پہلے حکومت کو یاددہانی کراتا رہا کہ ڈینگی کے بارے میں اس مرتبہ کوئی کام نہیں ہو رہا لیکن کسی کے سر پر جون تک نہ رینگی۔کوئی شک نہیں کہ حکومت نے کرونا میں بہت اچھا کام کیا ہے لیکن سوال تو اٹھے گا کہ جب علم تھا کہ ڈینگی نے آنا ہے تو اس کے لئے مناسب انتظامات کیوں نہ کئے گئے۔عملہ کیوں نہ رکھا گیا۔دوسری طرف ڈاکٹرفیصل یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ ڈینگی کا ٹیسٹ ابھی بھی 90 روپے کا ہے۔وزیر اعلیٰ پنجاب اور ڈاکٹر فیصل کے علم میں شاید یہ بات نہیں کہ اب جو بھی پراؤئٹ لیب سے ڈینگی کا ٹیسٹ کرانے جاتا ہے اسے ڈینگی کے چار قسم کے ٹیسٹ بتائے جاتے ہیں اور مشورہ دیا جاتا ہے کہ وہ چاروں ٹیسٹ کرائے جائیں مریض بیچارہ چار پانچ ہزار کے ٹیسٹ کرانے پر مجبور ہو جاتا ہے تاکہ اصل بیماری کا علم ہو سکے۔ابھی تک اس بات کا نوٹس نہ وزیر اعلیٰ پنجاب کی طرف سے لیا گیا ہے اور نہ ہی وزیر صحت کی طرف سے اور نہ ڈاکٹر فیصل کی طرف سے جنکی ذمہ داری سارا ملک ہے۔ یاد رہے کہ شہباز شریف کے دور حکومت میں اس پر بہت سختی تھی ایسا کرنے کی کسی کی جرات نہ تھی۔ قوم کی تو یہ خواہش ہے کہ چاروں وزراء اعلیٰ ڈینگی پر شہباز شریف سے اتنا اچھا کام کریں کہ لوگ شہباز شریف کو بھول جائیں لیکن افسوس ایسا ہوتا نظر نہیں آ رہا۔