آج کل شاید اسی قسم کا کالمز لکھنے کی اجازت ہے، میں اکثر سوچتا ہوں ہمارے سیاسی و اصلی حکمران کوئی ایسا سسٹم نہ لے آئیں جس کے تحت کسی کی سوچ کا پتہ چلایا جاسکے، اور اگر وہ کسی بھی حوالے سے صحیح سوچ رکھتا ہو تو فوری طورپر اُس کی سوچوں پر پابندی عائد کرکے اُس پر پہرے بیٹھا دیئے جائیں، اجمل نیازی کی یادوں اور اُن کی ادبی خدمات پر شائع ہونے والے میری کالموں کی سیریز کا یہ سکینڈلاسٹ کالم ہے، اُن کی یادوں خصوصاً اُن کی ادبی خدمات پر کئی کتابیں لکھی جاسکتی ہیں، مگر میں کوشش کروں گا اگلے کالم میں اُن کی ”یادوں کی برسات“ فی الحال تھم جائے، ورنہ اپنی حالت تو اُن کی وفات پر اِس شعرجیسی ہے”لگی آج ساون کی پھر وہ جھڑی ہے…… وہی آگ سینے میں پھر جل پڑی ہے“……آج 30اکتوبر ہے، آج میرے دلدار (دلدار پرویز بھٹی) کی بھی ستائیسویں برسی ہے، اپنی ماضی کی اِس روایت کے مطابق کہ اُن کی وفات کے بعد ستائیس برسوں میں، اُن کی ہر برسی پر اپنے کالم میں اُن کی یادوں کو میں نے تازہ کیا، میرا آج کا کالم بھی اُن ہی کے بارے میں ہونا چاہیے تھا، مگر اجمل نیازی مرحوم کی یادوں بلکہ دلچسپ یادوں کا تسلسل ٹوٹنے کے خدشے میں آج میں نے دلدار بھٹی پر کالم لکھنے کا ارادہ ترک کردیا، جب سے دلدار بھٹی کی وفات ہوئی میرے لیے ہر تاریخ ہی 30اکتوبر ہے…… جہاں تک اجمل نیازی کا تعلق ہے وہ ایک بہت ہی سنجیدہ انسان تھے، میں نے اُنہیں کسی سے بہت کم چھیڑ چھاڑ کرتے دیکھا، نہ اپنے ساتھ کسی کی چھیڑچھاڑ وہ برداشت کرتے تھے، دوستوں کی چھوٹی چھوٹی باتوں، ہلکے پھلکے مذاقوں کو بھی وہ بہت سیریس لیتے اور غصہ کرجاتے۔ میں اِس حوالے سے کچھ بڑے مزے کی یادیں آپ سے شیئر کرنا چاہتا ہوں، کچھ یادیں عطا الحق قاسمی نے شیئر کی ہیں، اجمل نیازی کے غصے کا انہوں نے بھی اِس شعر کی صورت میں حوالہ دیا ہے ”تم کو آتا ہے پیار پر غصہ…… ہم کو غصے پہ پیار آتا ہے“……اجمل نیازی کا غصہ دیکھنے والا ہوتا تھاالبتہ اُن کا پیار دیکھنے والا نہیں ہوتا تھا، اب مجھے سال تو صحیح طرح یاد نہیں کون ساتھا؟ ایک بار عطا الحق قاسمی، امجد اسلام امجد، مظفروارثی، شہزاد احمد، ڈاکٹر عابد قریشی(اس وقت کے پرنسپل ایف سی کالج) نیاز احمد (سنگ میل والے)، حسن رضوی مرحوم اور اجمل نیازی مرحوم ایران کے دورے پر گئے، میں بھی اُن کے ساتھ تھا، اس وفد کے سربراہ اُس وقت کے سپیکر پنجاب اسمبلی میاں منظور احمد وٹو تھے۔اُس وقت کے پنجاب کے وزیر محنت راجہ محمد خالد خان بھی ہمارے ساتھ تھے، یہ سرکاری دورہ تھا جو اُس وقت لاہور میں تعینات ایران کے قونصل جنرل آقائے صادق گنجی کی میزبانی میں ہوا، آقائے صادق گنجی بہت خوبصورت انسان تھے، پاکستانی شاعروں ادیبوں کے ساتھ اُن کی بڑی دوستی تھی، اُنہیں لاہور میں قتل کردیا گیا تھا، ہمارے لیے یہ بڑا صدمہ تھا جس کا زخم آج بھی تازہ ہے، ……دورہ ایران میں ہمارا قیام تہران کے ایک فائیو سٹار آزادی ہوٹل میں تھا، ایک روز اس وفد کے تقریباً تمام اراکین ڈنر سے فراغت کے بعد ہوٹل کی لابی میں آکر بیٹھ گئے، سب بڑے خوشگوار موڈ میں ایک دوسرے سے چھیڑ خانیاں کررہے تھے، اجمل نیازی حسب معمول بہت سنجیدہ تھے، …… کچھ دوستوں کی ”چھیڑ“ کا ذکر ہو رہا تھا، عطا الحق قاسمی اِس حوالے سے بڑے مزے مزے کے قصے سنارہے تھے، کچھ قصے اِس قدر ”فحش“ تھے ہمارے ممتاز نعتیہ شاعر مظفروارثی ”لاحول ولا قوۃ الا باللہ“ پڑھ کر محفل سے اُٹھ کر چلے جاتے، چند لمحوں بعد پھرآکر بیٹھ جاتے، …… اجمل نیازی کہنے لگے ”یار عطا اگر کسی بات پر لوگ نہ چڑیں تو ظاہر ہے اُن کی چھیڑ نہ پڑے، اصل میں لوگوں کی چھیڑ اُس بات پر پڑتی ہے جس بات سے وہ چڑ جاتے ہیں، مجھے تو کوئی کچھ بھی کہہ لے، میں تو نہیں چِڑتا“…… کچھ دیر بعد اجمل نیازی کو نیند آگئی، وہ سونے کے لیے اُٹھ کر اپنے کمرے میں چلے گئے، اُن کے جانے کے چند منٹوں بعد عطا الحق قاسمی مجھ سے کہنے لگے ”توفیق ذرا اجمل نیازی دے کمرے وچ جا اوہنوں پُچھ تیرے کول سوئی دھاگہ ہے؟“۔مجھے لگا قاسمی صاحب نے شاید پھٹی ہوئی کوئی چیز سینی ہے وہ اِس لیے سوئی دھاگہ مانگ رہے ہیں“……میں اجمل نیازی کے کمرے میں گیا، میں نے بیل دی، اُنہوں نے دروازہ کھولا، اُن کی حالت دیکھ کر مجھے لگا وہ تقریباً سو گئے ہوئے تھے، میں نے پوچھا ”اجمل بھائی آپ کے پاس سوئی دھاگہ ہے؟“……وہ بولے ”ٹھہرو میں چیک کرتا ہوں، ہوسکتا ہے رفعت (بیگم اجمل نیازی)نے میرے اٹیچی کیس میں رکھ دیا ہو“، اُنہوں نے چیک کیا اٹیچی کیس میں نہیں تھا، میں واپس نیچے آگیا اُس کے بعد قاسمی صاحب نے معروف شاعر شہزاد احمد سے گزارش کی وہ اُوپر اجمل نیازی کے کمرے میں جائیں اور اُن سے پوچھیں ”سوئی دھاگہ ہے؟“……شہزاد صاحب نہ چاہتے ہوئے بھی چلے گئے، اجمل نیازی نے اُن سے کہا ”خیر تو ہے، ابھی توفیق بھی آیا تھا سوئی دھاگہ لینے؟“…… اُس کے بعد قاسمی صاحب نے نیاز صاحب سے کہا اب آپ جائیں …… نیاز صاحب ڈرتے ڈرتے گئے اور واپس آکر بتایا اجمل نیازی سخت غصے میں ہے، وہ کہہ رہا ہے اب کوئی سوئی دھاگہ مانگنے آیا میں اُس کے دانت توڑ دوں گا“ ……عطا الحق قاسمی بھلا باز آنے والے کہاں تھے، اُنہوں نے بڑی مشکل سے حسن رضوی کو راضی کیا کہ اب وہ جاکر اجمل نیازی سے سوئی دھاگہ کا پوچھے…… کچھ دیر بعد حسن رضوی نیچے آیا اُس کا سانس پھولا ہوا تھا، اُس کا چہرہ، بال اور کپڑے بھیگے ہوئے تھے، اُس نے بتایا جیسے ہی میں نے بیل دی اجمل نیازی نے دروازہ کھولتے ہی ایک لوٹے میں بھرا ہوا پانی مجھ پر پھینک دیا، اُس کے بعد وہ مجھ پر حملہ آور ہونے لگا، میں وہاں سے بھاگا وہ میرے پیچھے کافی دیرتک بھاگتا رہا اورکہتا رہا ”ھُن سوئی دھاگہ لیہ کے جا (اب سوئی دھاگہ لے کے جاؤ)“…… حسن رضوی کا مؤقف تھا اجمل نیازی نے میرے ساتھ بڑی زیادتی کی، میں نے تو ابھی اُس کے کمرے کی صرف بیل ہی دی تھی، میں نے تو ابھی سوئی دھاگے کا اُس سے پوچھا ہی نہیں تھا اُس نے مجھ پر پانی پھینک دیا، پھر مجھ پر حملہ آور ہونے کے لیے میرے پیچھے بھاگنے لگا“ ……اگلے روز ناشتے کی میز پر سب اکٹھے ہوئے، اجمل نیازی کا موڈ سخت خراب تھا۔ اُنہوں نے صرف چائے لی اور میز پر آکر بیٹھ گئے، حسن رضوی اُن سے ذرا دُور میز پر بہت ڈرا ڈرا نظریں جھکائے بیٹھا تھا، میں اجمل نیازی کے بالکل سامنے بیٹھا ہوا تھا، وہ کسی سے بات نہیں کررہے تھے، میری قمیض کا ایک بٹن ٹوٹا ہوا تھا۔ اجمل نیازی کی نظر اُس ٹوٹے ہوئے بٹن پر پڑی۔ مجھ سے کہنے لگے ”تم نے اگر مجھ سے سوئی دھاگہ مانگا میں تمہاری کھوپڑی کھول دُوں گا۔ (جاری ہے)
سوئی دھاگہ!
10:41 AM, 30 Oct, 2021