کیامہنگائی اورمعاشی مسائل سے نبردآزما عمران خان حکومت کے لیے سعودی عرب کے 4.2ارب ڈالر پر مشتمل مالی پیکیج سے پاکستانی معیشت کوکچھ سہارا ملے گا؟اِس حوالے سے وثوق سے کچھ کہنا خاصا مشکل ہے کیونکہ دستیاب معاشی اعداد و شمار سے ایساکوئی اشارہ نہیں ملتاکہ مستقبل قریب میں معاشی بحالی کی منزل حاصل ہو جائے گی وجہ یہ ہے کہ سوا تین سالہ اقتدارکے دوران بھی قرضوں پرہی تکیہ ہے اور جو ملک پیسے دیتا ہے اُس کاچند روز تک تشکر اور تحسین کی جاتی ہے یہی پالیسی معیشت ڈبونے کا باعث ہے ناقص کارکردگی پر شرمندہ ہونے کے بجائے ہر نئے قرض پر فخر،تعجب ہے عمران خان نے وزیرِ اعظم کا منصب سنبھالتے ہی یہ انکشاف کردیاتھاکہ ملک معاشی مسائل سے دوچار ہے اوراِن مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل نہ کیا تو دیوالیہ ہونے کا خدشہ ہے یہ انکشاف کچھ زیادہ حیران کن نہیں تھا مگراِس سے معلوم ہو گیا کہ اقتدارمیں آنے سے پہلے عمران خان ملکی مسائل سے بے خبر تھے اگر باخبر ہوتے توخراب معاشی حالت کی بناپر پچاس لاکھ گھرتعمیرکرنے، ایک کروڑ ملازمتیں دینے،آئی ایم ایف کے پاس نہ جانے اور سابق حکمرانوں کی طرف سے لوٹ کربیرونِ ملک رکھے گئے دوسوارب ڈالر واپس لانے کے غیر حقیقی وعدے ہر گز نہ کرتے مسائل حل کرنے کا اُن کے پاس اگر کوئی ایجنڈا ہوتا تو باربار آئی ایم ایف سے التجا کے باوجودناکامی کا منہ نہ دیکھنا پڑتا وزیروں و مشیروں کو بدلنے اور نت نئے تجربات کی نوبت نہ آتی۔
موجودہ حکومت کی سواتین سالہ مدت کے بعد ملکی مسائل پر نگاہ دوڑائیں تو صاف عیاں ہے کہ ملک کے معاشی مسائل و مشکلات میں کمی کے بجائے اضافہ ہوا ہے زرِ مبادلہ کے گرتے ذخائر کو سنبھالا دینے کے لیے آغازمیں عمران خان نے چین،سعودی عرب اور عرب امارات سے دوستانہ التجا سے چند ارب ڈالر لیکر سٹیٹ بینک میں رکھوائے جس پر حکومت نے دوست ممالک کی نوازشات پر تحسین ا ور تشکر کیا لیکن یہ چند ارب ڈالر وقتی حل ثابت ہوئے جلدہی روپیہ بے وقعت اور ڈالر کی قیمت میں خوفناک اضافہ ہو نے لگا اگر وزیرِ اعظم اور اُن کی معاشی ٹیم میں اہلیت ہوتی تو سواتین سالہ مدتِ اقتدار کے بعدغیر معمولی نہ سہی معمولی ہی سہی بہتری کے کچھ تو آثار نظر آتے اور کچھ نہیں تو برآمدات اور درآمدات کا فرق ہی ختم کر نے کی کوشش کی جاتی گردشی قرضوں میں خوفناک اضافے کا سلسلہ ہی تھم جاتامگر رضا باقر جیسے شخص کو سٹیٹ بینک کا گورنر بنانا اور اِس سے قبل بینک کو خودمختاری دینے کا فیصلہ تباہی کی انتہا ثابت ہوا ہے اِس میں شائبہ نہیں کہ رضا باقر عالمی مالیاتی اِداروں کے بہی خواہ ہیں عالمی مالیاتی اِدارے جو کہتے ہیں رضا باقر من و عن عمل کرتے ہیں مصر میں وہ ایسا ثابت کرچکے اسی بناپر مصری عوام آج بھی رضا باقر کو خون آشام بلا کے نام سے یاد کرتی
ہے پھر بھی پاکستان نے اِس شخص کو مرکزی ریاستی بینک کی سربراہی سونپ دی ایسا کیوں ہوا؟ آج نہیں تو کل آزاد مورخ اِس حقیقت کو عیاں کردے گا ایسا لگتا ہے کہ سوچے سمجھے منصوبے کے تحت معیشت کو تباہ کیا جارہا ہے تبھی مسائل میں کمی کے بجائے اضافے کا رجحان ہے۔
کسی اِدارے،کمپنی یا خیراتی اِدارے کو عطیات سے چلایا جا سکتا ہے لیکن ملک چلانے کے لیے صرف عطیات پر تکیہ نہیں کیا جا سکتا منصوبہ بندی کی ضرورت ہوتی ہے رہنماؤں کی پل بھر کی لغزش قوموں کو برسوں پیچھے دھکیل سکتی ہے سوا تین سالہ اقتدار کے دوران نہ تو پچاس لاکھ گھر بنے اور نہ ہی ایک کروڑ ملازمتیں دی گئیں سابق حکمرانوں کے لوٹے گئے تصوراتی دوسو ارب ڈالر بھی نہیں لائے جا سکے اُلٹامعاشی طورپربدحا ل ملک کے خزانے سے قانونی فرموں کو لاکھوں ڈالر کی ادائیگی کر دی گئی ہے آئی ایم ایف سے مالیاتی پیکیج لینے کے لیے بجلی کے نرخ اور ٹیکس بڑھانے کی شرائط تسلیم کر کے صنعت وزراعت کومزید تباہ کیاجارہا ہے پھربھی قرض کی آرزو پو ری نہیں ہورہی ایسے حالات میں سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلیمان کی طرف سے (ایم جی آئی) مڈل ایسٹ گرین انیشیوٹیو کے سربراہی اجلاس میں شرکت کی دعوت کو وزیرِ اعظم نے غنیمت جانتے ہوئے فی الفور دورے کی حامی بھر لی اور دیگر مصروفیات کے دوران ہی میزبان سے معاشی ریلیف کے لیے امداد کا سوال کردیاجس کے نتیجے میں سعودیہ نے 1.2 بلین ڈالر موخرادائیگی پر تیل اور 3بلین ڈالر ادائیگیوں کو بہتر بنانے کے لیے بینک ڈیپازٹ رکھنے پر مشتمل کل 4.2 بلین ڈالر کے امدادی پیکیج کی نوید سنائی جس پر تشکر و تحسین کی پالیسی کادوبارہ سلسلہ شروع کردیاگیا ہے حالانکہ اقتدار میں آنے سے قبل وزیرِ اعظم قرض لینے کے سخت ناقد تھے اب اِس میں کوئی عار تصور نہیں کرتے اسی وجہ سے قوم سے کیے دیگر وعدوں کی طرح یہ وعدہ بھی ہنوز ایفا نہیں ہوا۔
چین،سعودی عرب اور عرب امارات کے دوستانہ قرضے عالمی مالیاتی اِداروں سے کئی گنا مہنگے ہیں مگر ہم تشکر و تحسین کرتے ہیں دوستانہ قرضوں پر سود کی ادائیگی کی شرح اکثر عوام سے پوشیدہ رکھی جاتی ہے جو ناقابلِ فہم ہے سعودیہ کے دیے تین ارب ڈالر قرض نہیں یہ دوست ملک نے محض سٹیٹ بینک میں رکھوائے گئے ہیں اگر یہ تین ارب ڈالر قرض ہوتے تو حکومت خرچ کرنے پر قادر ہوتی مگر جمع کرائے گئے ڈالر پرہمیں سود اداکرنا ہے پھربھی پھولے نہیں سمارہے کچھ بھی ہویہ ڈالر واپس کرنے سے آئندہ بھی کوئی حکومت راہ فرار اختیار نہیں کر سکتی تو کیا یہ بہتر نہیں کہ حالات سے عوام کو باخبر رکھا جائے تشکر وتحسین تو تب بنتا ہے جب واقعی نوازش ہو مہنگے قرضوں پر اترانا یا احسان مندی ظاہر کرنا سمجھ سے باہر ہے مشیرِ خزانہ شوکت ترین بھی معاہدے کی تفصیل بتانے سے گریزاں ہیں مگر عمران خان کی طرف سے سعودی سا لمیت کے تحفظ کا اعادہ واضح کر تا ہے کہ پاکستان نے اپنا وزن ریاض حکومت کے پلڑے میں ڈال کر نیا مالیاتی پیکیج لیا ہے کچھ لو کچھ دو تو مسلمہ عالمی قانون ہے پھر تشکر و تحسین کِس لیے؟
دوست ممالک کامالیاتی تعاون عارضی نوعیت کا سہارا ہے اور ایسی رقوم لینا ثابت کرتی ہیں کہ ملک ہنوز معاشی گرداب میں پھنسا ہے ضرورت اِس امر کی ہے کہ ملنے والے مالی تعاون سے معیشت کی بحالی پر توجہ دی جائے بدقسمتی سے جو بھی حکمران آتا ہے دوست ممالک سے پیسے لیکر معیشت کو عارضی سہارا دے کرخودکو باصلاحیت ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے مگر کئی ملکوں اور عالمی اِداروں سے بھاری قرض لینے کے باوجودآج بھی ملک کی معاشی حالت ابتری کا شکار ہے ظاہر ہے قرضوں کو معاشی بہتری کے لیے استعمال ہی نہیں کیا گیا اِس میں قصورکِس کا ہے؟معاشی ناکامیوں کے باوجودقرض ملنے پرتشکر و تحسین چہ معنی دارد؟ضرورت اِس امر کی ہے کہ قرض لینے پرتوجہ دینے کے بجائے حکومت صنعتی وزرعی پیداوار بہتر بنانے پر توجہ دے جب درآمدات سے برآمدات کا حجم زیادہ ہوگا تو قرض مانگنے کی ضرورت نہیں رہے گی علاوہ ازیں افرادی قوت کو بیرونِ ملک بھیجنے سے قبل ہنر مند بنایا جائے تاکہ ترسیلاتِ زر میں نمایاں اضافہ ہوپھر کسی ملک یا عالمی اِدارے کے قرض کے عوض تشکر وتحسین کی ضرورت نہیں رہے گی۔
تشکر وتحسین کی پالیسی
10:31 AM, 30 Oct, 2021