فیلڈ مارشل محمد ایوب خان اپنی مشہور زمانہ کتاب فرینڈز ناٹ ماسٹرز میں لکھتے ہیں کہ ”1958ء کے وسط میں ملک ایک سخت اقتصادی بحران کی لپیٹ میں آگیا۔ اندھا دھند خرچ اس زمانے کا عام دستور نظر آتا تھا۔ ہم جتنا غیرملکی زرمبادلہ کما رہے تھے، اس سے زیادہ تین سے لیکر چار کروڑ ماہانہ کے حساب سے گنوا رہے تھے۔ زرمبادلہ کی محفوظ رقوم گھٹتے گھٹتے بیالیس کروڑ روپے رہ گئی تھیں۔ ان میں سے تقریباً چودہ کروڑ کیش یا منتقل بھی نہیں کئے جاسکتے تھے۔ دس مہینے اور یہی حالت رہتی تو ہمارے سکے کی کوئی قیمت ہی نہ رہتی اور ممکن تھا کہ ہمارا روپے پیسے اور بینکاری کا نظام بالکل چوپٹ ہوجاتا۔اِدھر توملک میں یہ ابتری پھیلی ہوئی تھی اور اُدھر 1956ء کے آئین کے تحت عام انتخابات کے چرچے ہورہے تھے۔ صدر نے آئین کی کمزوریوں سے پورا پورا فائدہ اٹھایا تھا اور جس شخص کا ملکی سیاست سے ذرا بھی تعلق تھا اسے بے نقاب کر کے اس کی ساکھ مٹی میں ملا دی تھی۔اِدھر سیاستدان، خاص طور پر وہ لوگ جن پر سیاسی زندگی کے دروازے بند کردیئے گئے تھے، عام انتخابات سے طرح طرح کی امیدیں وابستہ کرنے لگے تھے۔ انہیں یہ ترغیب ہوئی کہ وہ بظاہر سیاسی حمایت حاصل کرنے کے لیے مگر درپردہ اپنے مخالفوں کو ڈرانے دھمکانے کے لیے ملک گیر مہم شروع کریں۔ اس کام میں سب سے آگے خان عبدالقیوم خان تھے جو ملک کے دورے کرکے اپنی شعلہ بیانی سے لوگوں کو خانہ جنگی کی تلقین کررہے تھے۔ ان کو دو بڑے فصیح البیان رفیق مل گئے تھے۔ ان میں سے ایک تو میرے بھائی سردار بہادرخان تھے اور دوسرے راجہ غضنفر علی خان۔ خان عبدالقیوم خان نے مسلم لیگ نیشنل گارڈ تیار کرنا شروع کی اور کوئی 60ہزار جوان بھرتی کر لیے۔ 28ستمبر کو مسلم لیگ کی ورکنگ کمیٹی نے ایک قرارداد منظور کی کہ اگر ضرورت پڑی تو غیرآئینی طریقوں سے حکومت کو برطرف کیا جائے گا۔ملک کی صورتحال اس وقت اور بھی پیچیدہ ہو گئی جب خان قلات نے عام ابتری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے قلات کو پاکستان سے الگ کرنے کے لیے سازشیں شروع کر دیں۔ اس زمانے میں بڑی سنجیدگی کے ساتھ یہ خیال کیا جا رہا تھا کہ خان قلات کو اس امر میں صدر پاکستان سکندر مرزا کی طرف سے شہ مل رہی ہے جو اپنا آخری حربہ استعمال کرنے کے لیے زمین ہموار کر رہے تھے۔ اس سے بھی زیادہ خطرناک بات یہ تھی کہ قیوم خان اور ان جیسے کچھ اور سیاستدانوں نے مسلح افواج کے بعض اراکین سے
رابطہ قائم کرنا شروع کر دیا تھا۔ وہ طرح طرح کی افواہیں پھیلا رہے تھے تاکہ سینئر افسروں کو گمراہ کیا جائے اور اپنے اقتدار کی ہوس میں فوجی افسروں کے گروہوں کی حمایت حاصل کی جائے۔ ایک فوجی کی حیثیت سے مجھ پر یہ بات بخوبی عیاں ہوگئی تھی کہ سول حکام جو سیاستدانوں کے آگے پہلے ہی بے دست و پا ہو چکے تھے، صورتحال پر قابو نہ پا سکیں گے۔ فوج خواہ پسند کرے یا ناپسند، اسے دخل دینا ہی پڑے گا کیونکہ آخر ملک میں نظم و ضبط تو قائم رکھنا ہی ہو گا۔ گرد و پیش جو حالات پیدا ہو گئے تھے، فوج ان سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکتی تھی۔ نہ یہ خیال کیا جا سکتا تھا کہ فوجی افسر اور جوان زندگی کے ہر شعبے میں جو سیاسی جوڑ توڑ، چالبازی، بے ایمانی اور بدنظمی دیکھتے تھے، اس سے کوئی اثر قبول نہ کریں گے۔ ان کے عزیز و اقارب بھی تھے، وہ اخبار بھی پڑھتے تھے اور بعض
اپنے اپنے تعلقات کا سلسلہ بھی رکھتے تھے۔ چونکہ فوج محب وطن تھی اور ایک قومی فوج تھی، اس لیے لازمی بات تھی کہ وہ عوام کے خیالات کا ساتھ دے۔ بڑے بڑے معزز لوگ مجھ سے ملنے آتے اور کہتے تم چاہو تو ملک کی حالت سنبھال سکتے ہو مگر تم جوکھوں میں پڑنا نہیں چاہتے۔ میرے بعض دوستوں نے اور بھی منہ پھٹ ہوکر یہی بات مجھ سے کہی۔ میں نے کہا بھلا میں کیا کرسکتا ہوں۔ یہ جو کچھ ہورہا ہے، اس کی ذمہ داری مجھ پر تو نہیں آتی۔ تم تو میری انہی باتوں پر نکتہ چینی کرسکتے ہو جن کا میں ذمہ دار ہوں۔ جوں جوں حالات خراب ہوتے گئے، زیادہ سے زیادہ لوگ میرے پاس آئے اور اسی لہجے میں گفتگو کرنے لگے۔ مجھے ان کی آنکھوں میں بڑی مایوسی جھلکتی نظر آتی تھی۔ میں جہاں کہیں جاتا اورمیں اکثر دورے پر رہا کرتا، کبھی ایک چھاؤنی کا معائنہ کرنے کے لیے کبھی دوسری کا اور جب کبھی لوگ جمع ہوتے مجھے ان میں وہی بے چینی دکھائی دیتی۔ پست ہمتی کا احساس عوام میں تیزی سے سرایت کرتا جاتا تھا اور انہوں نے کھلم کھلا کہنا شروع کردیا تھا کہ کاش کوئی اللہ کا بندہ آئے اور ملک کو بچائے۔ ظاہر ہے کہ ان کا اشارہ فوج کی طرف تھا کیونکہ فوج ہی اس خلا کو بھرسکتی تھی۔ فوج ہی وہ واحد منظم ادارہ تھی جو مشکل کے وقت ان کی سپر بن سکتی تھی، ان کو سہارا دے سکتی تھی تا کہ اپنے قدموں پر کھڑے ہوسکیں اور ان مصیبتوں سے نجات حاصل کرسکیں جن میں وہ گھرے ہوئے تھے۔ حالات میں کوئی بہتری کی صورت نظر نہ آتی تھی مگر میں تمنا کیا کرتا کہ شاید کوئی اللہ کا بندہ پیدا ہو ہی جائے۔ ایسی صورت میں میں پہلا آدمی ہوتا جو اس کا خیر مقدم کرتا اور پوری طرح اس کی مدد کرتا۔ میں آس لگائے رہا اور دعائیں مانگا کرتا“۔ فیلڈ مارشل محمد ایوب خان نے اپنی کتاب میں 63برس پہلے کے مندرجہ بالا سیاسی حالات تحریر کیے تھے لیکن یوں لگتا ہے کہ انہوں نے یہ سب کچھ 2021ء کے بارے میں لکھا تھا۔
اکتوبر 1958ء اور اکتوبر 2021ء میں کیا فرق ہے؟
10:16 AM, 30 Oct, 2021