انسانوں کے تہہ در تہہ سمندر کی گہرائی میں بے شمار ہیرے جواہرات چھپے ہوئے ہیں جو حوادث زمانہ کے ساتھ نیچے دب جاتے ہیں بعض اوقات ایک ہلکی سی جنبش ان انسانی ہیرے جواہرات کو سطح آب پر لے آتی ہے۔ انگریزی محاورہ ہے کہ کسی انسان سے ہماری ملاقات حادثاتی نہیں ہوتی بلکہ جب وہ آپ کا ر استہ کاٹتے ہیں تو اس کے پس منظر میں کوئی وجہ ضرور ہوتی ہے۔ ہر انسان کے چاروں طرف رشتوں کا ایک جال بنا ہوا ہے۔ اس میں ایک تو جسمانی یاBiological رشتے ہیں جن کی نگہداشت کے لیے آپ کو کوئی تگ و دو نہیں کرنا پڑتی جبکہ ایک روحانی رشتے Spirtualism کی بنیاد پر ہوتے ہیں۔ یہ اگر ایک دفعہ استوار ہو جائیں تو ان کی اٹوٹ وابستگی اول الذکر سے بھی زیادہ گہری اور غیر رسمی ہوتی ہے۔ علامہ اقبالؒ کی پیر رومی اور مرید ہندی والی شاعری اس کی مثال ہے۔
Woman Empowerment یا خواتین کو بااختیار بنانا موجودہ دو رکا بہت بڑا نعرہ ہے جو New Millinnium یا نئی صدی سے کافی زور پکڑ چکا ہے لیکن عملی طور پر دیکھا جائے تو اس نعرے کے دامن میں سوائے عالمی یوم خواتین منانے کے اور سال میں ایک دو متنازع قسم کے بینر اٹھانے اور وومن واک سے زیادہ اس کی اہمیت زیادہ نہیں ہے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ عالمی برادری میں تمام تر مسائل اور مشکلات کے باوجود خواتین نے اپنی ذاتی حیثیت محنت، خود اعتمادی اور ایمانداری کے بل بوتے پر بڑے بڑے سنگ میل طے کیے ہیں۔ کامیابی اسے ملتی ہے جو جدوجہد کرتا ہے۔ کامیابی کے لیے کوئی آپ کو گھر سے بلانے یا دعوت دینے نہیں آتا کہ آؤ آپ کو کامیابی کا تاج پہنائیں نہ ہی کامیابی کوئی لاٹری ٹکٹ ہے جو آپ کے نام پر نکل آئے اور آپ راتوں رات ہیرو یا ہیروئن بن جائیں۔
جان ایف کینیڈی نے کہا تھا کہ "Great Crisis Produces Great Men" عظیم بحران ہی عظیم شخصیت کو جنم دیتے ہیں۔ ہماری آج کی شخصیت محترمہ اقلیم برلاس صاحبہ پاکستانی خواتین کے لیے ایک رول ماڈل کی حیثیت رکھتی ہیں وہ پاکستانی نژاد کینیڈین شہری ہیں جو کینیڈا کے صوبے برٹش کولمبیا کے علاقے Surrey میں اپنی ایک منفرد پہچان رکھتی ہیں۔ حال ہی میں وہ اپنی فیملی سے ملنے لاہور تشریف لائیں۔ اس وقت ان کی عمر 80 سال سے تجاوز کر چکی ہے۔ میرا ذاتی طور پر ان کے ساتھ اٹوٹ روحانی رشتہ ہے۔ ان کی
بے پناہ محبت کے ردعمل کے طور پر میں انہیں ماما کہتا ہوں وہ میرے ساتھ اپنے بیٹے جیسی شفقت نچھاور کرتی ہیں لیکن ان کی success story اپنی جگہ ایک بے مثال بائیو گرافی ہے۔
انگریزی میں ماسٹرز کرنے کے بعد 1966ء میں وہ شادی کے بعد اپنے شوہر کے ساتھ بیرون ملک چلی گئیں وہاں مزید اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد وہ کینیڈا کے ایک سرکاری سکول میں بطور انگلش ٹیچر ملازمت کرنے لگیں۔ علامہ اقبالؒ نے کہا تھا کہ میخانہئ یورپ کے دستور نرالے ہیں کہتے ہیں کہ جب بدقسمتی یا آزمائش آتی ہے تو یہ تنہا نہیں آتی بلکہ اپنے ساتھ مصیبتوں کا ایک لشکر لے کر آتی ہے۔ ان کے شوہر نے ان کے ساتھ بے وفائی کر کے وہاں کسی اور سے شادی رچالی یہاں سے ماما کی زندگی کا وہ چیپٹر شروع ہوتا ہے جو ان کی زندگی کی جدوجہد اور کامیابی کا پیش خیمہ ثابت ہوا۔ ان کا ایک چھوٹا سا بیٹا بھی تھا جس کی پرورش کی ذمہ داری ماما پر آن پڑی۔ وہ اکثر کہتی ہیں کہ انہوں نے اپنی خود کفالت کا آغاز کیا تو اپنے اور اپنے بیٹے کی ذمہ داریاں اٹھانے کے لیے ان کی کل کائنات کرائے کے گھر میں فرش پر بچھا ایک Mattress اور ایک چھوٹا سا سوٹ کیس تھا۔
انہوں نے اپنی تنہا زندگی کا آغاز کیا تو دور دور تک امید اور روشنی کی کوئی کرن نہ تھی۔ انہوں نے نوکری کے ساتھ ساتھ کینیڈا میں کوئی چھوٹا سا گھر خریدنے کا خواب دیکھا تاکہ کرایہ داری سے چھٹکارا حاصل ہو سکے۔ اس تجربے نے انہیں وہاں کی رئیل سٹیٹ مارکیٹ سے متعارف کرایا۔ انہوں نے بینک لیز کے ذریعے گھر خرید کر اسے کرائے پر دے دیا وہاں سے انہیں کرائے کی رقم سے اتنے پیسے مل جاتے تھے جس سے بینک کی قسط ادا کرنے کے بعد بھی رقم بچ جاتی تھی۔ یہ کاروبار کا نقطہ آغاز تھا۔ اس راہ میں ایک وقت ایسا بھی آیا کہ ان کے پاس کینیڈا میں بہت مہنگے علاقے میں 6 گھر تھے اور وہ گھروں کی خرید و فروخت کے کاروبار میں Millionare بن چکی تھیں۔ بیٹے کی پرورش کی خاطر انہوں نے دوبارہ شادی نہیں کی۔ آج ان کا بیٹا لاہور میں ایک بہت بڑے کاروباری ادارے سے وابستہ ہے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی ماما کینیڈا میں ہی مقیم ہیں انہیں پنشن اور مفت علاج کی سہولتیں میسر ہیں اور اپنی پراپرٹی کی دیکھ بھال خود کرتی ہیں۔ وہ اس عمر میں بھی اپنے سارے کام خود کرتی ہیں۔ گاڑی بھی خود ڈرائیو کرتی ہیں کئی سال پہلے ان پر کینسر کا حملہ ہوا مگر انہوں نے کینسر کو بھی شکست دے دی۔ وہ چونکہ ایک ٹیچر ہیں لہٰذا ریٹائرمنٹ کے بعد کچھ عرصہ تک انہوں نے اپنی ایک ملٹی سٹوری بلڈنگ کو ہوسٹل بنا لیا اور غیر ملکی نوجوان طلبا و طالبات کے لیے بورڈنگ کی سہولت فراہم کی جس میں وہ خود اوورسیز بچوں کی کونسلنگ اور تعلیم میں ان کی مدد کرتی تھیں۔
انہوں نے کینیڈا کی رئیل اسٹیٹ پر ایک کتاب لکھی جس میں کینیڈین صحافی R.L. Themson نے انہیں کینیڈا میں جائیداد کے کاروبار سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے ایک گائیڈ بک قرار دیا۔ تھامسن نے کتاب کے ٹائٹل پر لکھا ”A lady who made a million as real estate investor“ اس میں تھامسن نے لکھا کہ اس طرح کوئی بھی کروڑ پتی بن سکتا ہے۔
ماما کی کامیابی کا راز ان کی سچائی اور محنت ہے وہ جھوٹ منافقت اور دوعملی سے سخت نفرت کرتی ہیں۔ وہ اپنے بیٹے اور پوتوں کے ساتھ وقت گزارنا بہت پسند کرتی ہیں مگر پاکستان میں مستقل سکونت کے حق میں نہیں وہ اپنی خود داری پر سمجھوتا نہیں کرتیں اور اپنے بیٹے سے بھی کچھ لینا معیوب سمجھتی ہیں ماما کی زندگی بے تحاشا واقعات سے بھری پڑی ہے جو ہماری معاشرتی خرابیوں کی نشاندہی کرتے ہیں وہ اپنی آٹو بائیو گرافی لکھنا چاہتی ہیں ان کی یہ یادداشیں عالمی سطح پر Best seller ثابت ہوں گی کیونکہ یہ زندگی کے ایک پریکٹیکل ناول کی عکاس ہو گی۔ ان کی پاکستان سے فطری محبت کا یہ عالم ہے کہ وہ چاہتی ہیں کہ انہیں مرنے کے بعد پاک سر زمین شادباد یعنی لاہور میں دفن کیا جائے۔
ماما کے ساتھ ہماری ایک رسمی سماجی ملاقات ہمارے درمیان ایک مضبوط پل کا درجہ رکھتی ہے۔ انہوں نے پہلی نظر میں ہی مجھے Adopt کر لیا اس مقدس رشتے کی ضرورت شاید مجھے ان سے بھی زیادہ تھی۔ اب وہ کینیڈا میں ہیں۔ میں ایک دن رابطہ نہ کروں تو ان کا فون آجاتا ہے۔ بہت پیارا رشتہ ہے جسے Define کرنا ممکن نہیں۔ الفاظ کی کمی آڑے آجاتی ہے۔ ماما بزنس کلاس میں سفر کرتی ہیں پاکستان میں بھی ان کے آگے پیچھے ڈرائیور گن مین اور ملازم ہوتے ہیں۔ ایک پوش علاقے میں بہت بڑے گھر میں رہتی ہیں۔ ان کے لیے گاڑی ڈرائیو کرنا میرے لیے باعث افتخار ہوتا ہے کسی ہوٹل کسی ریسٹورنٹ کسی دکان پر وہ مجھے بل نہیں دینے دیتی۔ماما کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ ہمیں اپنا گمشدہ بچپن دوبارہ میسر ہو گیا ہے۔ یہ ناقابل یقین ضرور ہے مگر اپنی جگہ ایک حقیقت ہے۔ یہ کسی معجزہ سے کم نہیں اور معجزے ان کے ساتھ رونما ہوتے ہیں جو معجزوں پر یقین رکھتے ہوں۔ اقلیم برلاس Inspiration کا دوسرا نام ہے۔ اقلیم عربی میں سلطنت کو کہتے ہیں دعا ہے کہ اللہ ہماری سلطنت قائم و دائم رکھے آمین۔